ہوم << سچی خوشی کے آنسو - محمد مبشر

سچی خوشی کے آنسو - محمد مبشر

میں ایک ایسے سرکاری اسکول میں تیسری جماعت کا ٹیچر ہوں جو شہر سے دور ایک پسماندہ گائوں میں واقع ہے. اسکول شروع ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں. کلاس میں پڑھنے والے تمام بچے انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، بیشتر بچوں کے پائوں ٹوٹے ہوئے جوتوں سے سجے ہوئے ہیں، بستوں کی حالت تو مت ہی پوچھیے اور رہا یونیفارم، تو اکثر بچوں کے یونیفارم دھل دھل کے تقریباً گل چکے ہیں. اسکول کی عمارت نہایت خستہ اور ٹوٹی پھوٹی ہے. کچھ فاصلے پر افضل بھائی کی اسٹیشنری کی دکان ہے جہاں کتابوں کاپیوں کے علاوہ بچوں کے کھانے پینے کی چیزیں بھی دستیاب ہیں.
کل اسکول کی چھٹی کے بعد جب میں گھر جانے کے لیے موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنے کی کوشش کررہا تھا تب اچانک افضل بھائی میرے قریب چلے آئے اور بولے ماسڑ صاحب میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں. میں نے کہا جی افضل بھائی بولیے، میں سن رہا ہوں. وہ یوں گویا ہوئے
”میں ان بچوں سے بہت محبت کرتا ہوں، یہ سب مجھے پیارے ہیں، میرا دل چاہتا ہے کہ کاش ان سب بچوں کو نیا یونیفارم، کتابیں اور بستے لے کر دوں لیکن کیا کروں آمدنی نہایت قلیل ہے مگر میں نے اس سے کچھ رقم بچائی ہے اور اس رقم سے میں صرف ایک عدد یونیفارم، بستہ اور تیسری جماعت کی کتابیں کاپیاں ہی خرید سکا ہوں. میری خواہش ہے کہ آپ یہ سب کچھ کسی ایسے بچے کو تحفتا دے دیں جو سب سے زیادہ ضرورت مند ہو.“
میں حیرانگی کے عالم میں ان کی بات سنتا رہا، وہ پیکٹ وصول کیا اور ان سے وعدہ بھی کر لیا کے یہ پیکٹ اس بچے تک پہنچادوں گا جو اس کا سب سے زیادہ مستحق ہوگا۔ گھر پہنچ کر رات گئے تک اس معاملے پر غور کرتا رہا کہ آخر پیکٹ کا اصلی حقدار کون ہے لیکن فیصلہ نہیں کر پایا۔ اگلے دن جب اسکول ختم ہونے میں چند ہی منٹ باقی تھے، میں نے بچوں کو یہ بات بتائی اور ان سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں اس پیکٹ کا اصل حقدار کون ہے؟ کلاس پر مکمل سکوت طاری تھا. آخرکار امجد جو میری کلاس کا مانیٹر بھی ہے، بولا، سر! آپ قرعہ اندازی کیوں نہیں کرلیتے، اس کی تجویز نہایت معقول تھی لہذا اس پر فورا عمل کیا گیا اور یوں سب بچے اپنا اپنا نام ایک پرچی پر لکھ لائے. وہ پرچیاں ایک بستے میں بند کر کے اچھی طرح ہلائیں، پھر کلاس کے سب سے چھوٹے بچے کو اپنے پاس بلایا اور اسے ایک پرچی اٹھانے کا کہا، سب ہی اس ایک بچے کا نام جاننے کے لیے بے چین تھے لیکن میری آنکھوں سے بےچینی ٹپک رہی تھی. بلآخر پرچی اٹھائی گئی اور اس پر نام لکھا تھا اصغر علی۔ وہ واقعی اس پیکٹ کا مستحق تھا، میں بذات خود اس کے والد کو جانتا تھا، نہایت غریب اور مسکین شخص تھا، مجھے بےحد خوشی محسوس ہو رہی تھی، میں نے بلند آواز سے نام پکارا اور کلاس تالیوں گونج اٹھی۔ اسی دوران چھٹی بھی ہوگئی اور بچے چیختے چلاتے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے. اب میں کلاس میں تنہا تھا اور میرے سامنے پرچیوں کا ڈھیر پڑا تھا، دفعتاً میرے دل میں خیال آیا کہ اگر میرے پاس دو پیکٹ ہوتے تو وہ دوسرا پیکٹ کس بچے کو ملتا، جھجکتے ہوئے ایک اور پرچی اٹھائی لیکن حیرت زدہ رہ گیا، اس پر بھی اصغر علی تحریر تھا. حیرانی میں ایک اور پرچی اٹھائی، پھر ایک اور، یہاں تک کہ ساری پرچیاں کھول کر دیکھیں، ان سب پر ایک ہی نام تحریر تھا اصغر علی. میری آنکھوں سے دو ننھی بوندیں ٹپک پڑیں، یہ خوشی کے آنسو تھے، سچی خوشی کے آنسو.

Comments

Click here to post a comment