ہوم << آؤ ہماری مدد کرو - رضوان اسد خان

آؤ ہماری مدد کرو - رضوان اسد خان

رضوان اسد خان امریکی ریاست Massachusetts Bay Colony کی یہ وہ پہلی مہر ہے جو 1629ء میں تیار کی گئی. اس میں ایک برہنہ ریڈ انڈین کو دکھایا گیا ہے جس کے منہ سے ایک مرقوم پیغام برآمد ہو رہا ہے جس پر لکھا ہے:
”Come over and help us.“
یعنی، ”آؤ، ہماری مدد کرو.“
اس کا مرکزی خیال بائبل سے ماخوذ ہے جس میں لکھا ہے:
And a vision appeared to Paul in the night; There stood a man of Macedonia, and prayed him, saying, Come over into Macedonia, and help us. (Acts 16:9)
”اور پال نے رات میں ایک ہیولا دیکھا؛ مقدونیا کا ایک باشندہ کھڑا ہے اور اس سے التجا کر رہا ہے کہ، مقدونیا آ جاؤ اور ہماری مدد کرو.“
اور پھر جس طرح فرنگیوں نے مقامی ریڈ انڈینز کی ”مدد“ کی، وہ تاریخ کے اس تاریک دور کا آغاز ہے جو آج تک جاری ہے.
”انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دخل اندازی“ کی اس واردات نے امریکہ کے پہلے سیکرٹری آف وار، جنرل ہنری ناکس کے الفاظ میں، ”یونین“ کی اکثریتی آبادی کے علاقوں سے ریڈ انڈینز کا مکمل طور پر صفایا کر دیا.
اس پر اصل پڑھنے اور سر دھننے والا تبصرہ امریکی سپریم کورٹ کے ایک جج جوزف سٹوری کا ہے جو کہتا ہے،
”خدائی دانش نے مقامی ریڈ انڈینز کو اس طرح غائب کر دیا جس طرح خزاں رسیدہ پتے جھڑ جاتے ہیں، حالانکہ نوآبادیاتی لوگ تو ان کی مسلسل تکریم کرتے آئے تھے.“
تو جناب یہ ہے وہ ”امریکن آئیڈیا“ جس پر ہر امریکی کو فخر ہے. جس کی وجہ سے 1630ء میں جان ونتھراپ نے اس کے لیے ”پہاڑی چوٹی پر شہر“ کی بائبل سے ماخوذ اصطلاح کا استعمال کیا اور جس کا مقصد اپنے پہاڑ کی چوٹی سے پوری دنیا پر نظر رکھنا اور دیکھنا ہے کہ کہاں سے لوگوں کے منہ سے وہ منقش پارچہ برآمد ہوتا ہے جس پر لکھا ہو کہ ”آؤ ہماری مدد کرو.“
بس پھر انسانیت کے درد میں ڈوبی یہ قوم کیل کانٹے سے لیس وہاں پہنچ کر اس کے باسیوں کو دنیا سے ہی آزاد کر کے آناً فاناً ان کے درد کا مداوا کر دیتی ہے. یقین نہ آئے تو جنوبی امریکہ میں کیوبا، چلی، افریقہ میں اتھیوپیا، سوڈان، صومالیہ، الجزائر، نائجیریا، ایشیاء میں ویتنام، جاپان، عراق، افغانستان، شام، فلسطین، خلیجی ممالک، پاکستان وغیرہ کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں کہ کیسے یہ قوم خدائی فوجدار بنی ہر براعظم میں کھربوں ڈالر خرچ کر کے بھی آزادی، مساوات، جمہوریت، کیپٹل ازم اور لبرل ازم کا پیغام لے کر جا پہنچتی ہے اور اس وقت تک نہیں ٹلتی جب تک وہاں کے مقامی سرکردہ لیڈروں کو اچھی طرح یہ سارے دروس ازبر نہ ہو جائیں اور وہ خلافت، بادشاہت، آمریت، سوشل ازم وغیرہ کے ”فرسودہ“ نظاموں کو جڑ سے اکھاڑ کر یہ جدید نظام نافذ کرنے کے قابل نہ ہو جائیں....!!!

Comments

Click here to post a comment