ہوم << مردوں کے سینے پر نپلز کیوں ہوتے ہیں؟ عظیم الرحمن عثمانی

مردوں کے سینے پر نپلز کیوں ہوتے ہیں؟ عظیم الرحمن عثمانی

عظیم عثمانیمیں آپ سب احباب سے بالعموم اور بہنوں سے بالخصوص معذرت خواہ ہوں کہ ایسے سوال کو آج کی پوسٹ کا موضوع بنا رہا ہوں جو کچھ سلیم الفطرت نفوس پر بجا طور پر گراں گزرے گا مگر یہ سوال مقبول عام ہے، بہت سے اذہان میں موجود ہے اور جس کا جواب ضروری ہے. چنانچہ ارادہ کیا کہ کسی بات کی پرواہ کیے بناء اسی سوال کو آج موضوع سخن بنایا جائے.
.
اس سوال کو پوچھنے والے لوگ دو مختلف زاویوں سے بات کو جاننا چاہتے ہیں. پہلا زاویہ یہ کہ مردوں میں نپلز کی موجودگی کی سائنسی توجیہہ کیا ہے؟ اور دوسرا زاویہ یہ کہ اللہ عزوجل نے جب ہر چیز کو کسی متعین مقصد سے پیدا فرمایا ہے تو پھر مردوں میں نپلز کا کیا مقصد ہے؟ ہم دونوں ہی زاویوں کا ممکنہ اختصار کے ساتھ جائزہ لیں گے. ان شاء للہ.
.
پہلا زاویہ یعنی مردوں میں نپلز کے ہونے کی سائنسی توجیہہ کے حوالے سے جان لیں کہ بچے کی پیدائش میں مرد اور عورت دونوں کے تیئیس تیئیس کروموسومز کا ملاپ ہوتا ہے، جنہیں ایکس اور وائی کروموسومز کا نام دیا جاتا ہے. دوسرے الفاظ میں مرد و زن کے مشترکہ چھیالیس کروموسومز مل کر آنے والے بچے کے قد، رنگت وغیرہ کے ساتھ ساتھ جنس کا بھی تعین کرتے ہیں. یہ کروموسومز جوڑوں کی صورت میں ہوتے ہیں. ماں کی جانب سے دیا گیا کروموسومز کا ہر جوڑا لازمی ”ایکس ایکس“ کا مرکب ہوتا ہے، جس کا نتیجہ بچے کی زنانہ جنس کی صورت میں نکلتا ہے. جب کے باپ کی جانب سے بھیجا گیا کروموسومز کا جوڑا ”ایکس ایکس“ بھی ہو سکتا ہے اور ”ایکس وائی“ بھی ہو سکتا ہے. یہ باپ کی طرف سے بھیجا”وائی کروموسومز“ ہی ہے جو ماں کے پیٹ میں بچے کی مردانہ جنس کا تعین کر دیتا ہے. گویا سائنسی اعتبار سے بچے کے لڑکا ہونے یا نہ ہونے کی ذمہ داری خالص باپ کے بھیجے کروموسومز پر ہوتی ہے. مرد یا عورت کی جنس کا تعین ماں کے پیٹ میں کئی ہفتوں بعد شروع ہوتا ہے. ابتداء میں بناء کسی جنسی تعین کے بچہ ”ایکس ایکس کروموسومز“ کے نقشے پر پروان چڑھتا ہے. اسی دوران بچے کے اعضاء بناء جنسی تفریق کے نمو پاتے ہیں اور یہی وہ موقع ہے جب بچے کے نپلز نمودار ہوجاتے ہیں. کچھ ہفتوں بعد جب ممکنہ ”وائی کروموسومز“ حرکت میں آتے ہیں تو وہ مردانہ جنس کو پہچان کر نپلز کی مزید تشکیل پر روک لگا دیتے ہیں اور اگر جنس زنانہ غالب ہو تو اس کی مزید تشکیل کو جاری رکھتے ہیں. اسی لیے بعض سائنسدان یہ تعبیر اختیار کرتے ہیں کہ ہم سب ماں کے پیٹ میں ابتدائی ہفتوں میں لڑکی ہوتے ہیں اور بعد میں ہم میں سے کچھ ”وائی کروموسومز“ سے لڑکا بن پاتے ہیں. گو راقم کے نزدیک زیادہ درست تعبیر ان سائنسدانوں کی ہے جو کہتے ہیں کہ ان ابتدائی ہفتوں میں ہم سب بناء کسی جنس کی تعیین کے موجود ہوتے ہیں. کچھ ہفتوں بعد جنس کا حتمی فیصلہ ہوتا ہے. یہی وہ سائنسی توجیہہ ہے جو خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حضرات میں بھی ان کی موجودگی کا سبب ہے. مردوں کے نپلز کے بارے میں نظریہ ارتقاء کے حاملین کی جانب سے ایک اور بات جو کبھی پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ شاید انسان کے اوائل دور میں یہ نپلز کارآمد ہوا کرتے تھے، جن سے مرد بھی خواتین کی طرح بچوں کو دودھ پلانے کا کام کرتے تھے اور بعد کے ارتقائی مراحل نے اس کی ضرورت کو معدوم کیا تو مرد کلی طور پر اس فائدے کو کھو بیٹھے مگر نپلز بناء فائدے بھی ان سے چسپاں رہے. اس بات کا جب ہم دیانتدارانہ جائزہ دلائل کی روشنی میں لیتے ہیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ اس کی حیثیت ایک فلسفیانہ مفروضہ سے زیادہ کی نہیں ہے. لہٰذا اس پر کسی تحقیق یا تنقید کی بنیاد رکھنا بھی درست نہیں.
.
امید ہے کہ اختصار کے باوجود قارئین پر پہلا زاویہ بڑی حد تک واضح ہوگیا ہوگا. اب ہم دوسرے زاویے پر بات کرتے ہیں یعنی کہ جب اللہ پاک کی ہر تخلیق کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے تو مردوں کے ان نپلز کو بےمقصد کیوں پیدا کیا؟ اس سوال کے جواب میں مقصدیت کو جاننے کے لیے ہم مختلف ممکنہ امکانات کا جائزہ لیں گے مگر سب سے پہلے اپنی یادداشت سے میں ایک دلچسپ واقعہ آپ کو سناتا ہوں. میرے ایک دیرینہ دوست نے بچپن میں اپنے والد سے یہی دریافت کیا کہ ”ابو اللہ پاک نے ہم مردوں کے نپلز کیوں بنائے؟“ اس کے والد نے پہلے تو کچھ دیر سوچا پھر ہنس کر بولے کہ ”میاں بس یہ ہم مردوں کا ڈیزائن ہے“ ? ظاہر ہے کہ میں نے یہ مختصر واقعہ آپ کو ازراہ تفنن سنایا ہے مگر سچ پوچھیے تو یہ جواب اتنا بےدلیل بھی نہیں. کیا اس کائنات اور اس میں موجود مخلوقات کی تزئین اپنے آپ میں ایک مقصد نہیں ہے؟ انسان کو رب کریم نے احسن التقویم یعنی انتہائی خوبصورت اور متناسب پیدا فرمایا ہے لہٰذا اس کی جسمانی تزئین اپنے آپ میں ایک مقصد ہے. ایک سپاٹ سینہ کو متناسب انداز میں منقسم کرکے خوبصورت تخلیق کیا گیا ہے. جس طرح کسی پھول کی پتیوں کے کناروں پر ابھرے مختلف رنگ کو دیکھ کر ہم اس کا مقصد دریافت نہیں کرتے بلکہ اسے پھول کی خوبصورتی گردانتے ہیں. ٹھیک اسی طرح یہ مردانہ اجسام کی خوبصورتی میں اپنا کردار نبھاتے ہیں. پھر دوسرا پہلو یہ کہ ہم جانتے ہیں کہ خالق کل کائنات اپنی مخلوق کو جوڑا جوڑا کرکے ایسے تخلیق کرتے ہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہوتے ہیں اور مختلف بھی. اللہ پاک اسی کائنات میں نہیں بلکہ جنت میں بھی اپنی خلاقی کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہاں بھی ان کی عطا کردہ نعمتیں ملتی جلتی بھی ہوں گی اور مختلف بھی. سورہ الانعام کی ٩٠ آیت ملاحظہ ہو
.
”وہی خدا وہ ہے جس نے آسمان سے پانی نازل کیا ہے پھر ہم نے ہر شے کے کوئے نکالے پھر ہری بھری شاخیں نکالیں جس سے ہم گتھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے شگوفے سے لٹکتے ہوئے گچھےّ پیدا کیے اور انگور و زیتون اور انار کے باغات پیدا کیے جو شکل میں ’ملتے جلتے‘ اور مزہ میں بالکل الگ الگ ہیں.“
.
سورۂ الزمر کی ٢٣ آیت میں رب اپنے کلام کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس میں موجود آیات کو بھی ملتا جلتا بنایا گیا ہے.
.
”اللہ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایک کتاب ہے باہم ’ملتی جلتی‘، بار بار دہرابار بار دہرائی جانے والی، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل الله کی یاد کی طرف نرم (ہو کر مائل) ہو جاتے ہیں.“
.
.گویا اپنی ہر بات اور تخلیق کو اختلاف کے ساتھ ملتا جلتا رکھنا رب کریم کی شان خلاقی کا ایک اظہار ہے. مردوں اور عورتوں کے ڈیزائن میں یکسانیت کو قائم رکھنے کا ایک انداز شائد ان نپلز کی موجودگی بھی ہے. تیسرا پہلو سوچنے کا یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اردگرد موجود ہر ہر چیز کا ایک لازمی متعین مقصد ہے. وہ ہماری آنکھیں ہوں، کان ہوں، گردے ہوں، درخت ہوں، سورج، چاند، ستارے ہوں .. ہر ہر تخلیق کا ایک متعین مقصد ضرور ہے. جب ہمیں پورا اطمینان حاصل ہے کہ ہمارے اطراف موجود یہ ان گنت تخلیقات بامقصد بنائی گئی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم کچھ چیزوں کے بارے میں یہ خامہ سرائی کریں کہ شاید ان کا کوئی مقصد نہیں؟ ہم یہ کیوں نہ سوچیں کہ جب ہر شے کا مقصد ہے تو یقینی طور پر ان مٹھی بھر اشیاء کا بھی مقصد لازمی ہوگا. بس ہمیں اب تک ان کی حکمت کا ٹھیک علم نہیں حاصل ہوسکا. کسی شے کی حکمت نظر نہ آئے تو کیا لازمی ہے کہ ہم اس سے یہ مراد لیں کہ اس میں کوئی حکمت ہو ہی نہیں سکتی؟ یا پھر قرین قیاس یہ ہے کہ جب ہر شے کی حکمت ہے تو اس کی بھی ہوگی جو آج ہماری کم علمی کی وجہ سے اوجھل ہے؟ اس کی ایک تازہ مثال انسانی جسم میں موجود اپنڈکس کی ہے جسے اب تک ارتقائی عمل کا ایک ایسا نتیجہ قرار دیا جاتا رہا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں. مگر ابھی نئی سائنسی تحقیقات سے یہ منکشف ہوا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اپنڈکس کے کئی زبردست فائدے سامنے آئے ہیں. جیسے اس میں وہ مثبت بیکٹیریا موجود رہتے ہیں جو ہیضے یا اس قسم کی دیگر بیماریوں اور جراثیم کے تدارک میں معاون ثابت ہوتے ہیں. اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اپنڈکس سفید خون کے خلیات کا صحتمند توازن کسی حد تک برقرار رکھتا ہے. گویا ایک ایسا جسمانی عضو جس کے بارے میں سائنس آج تک یہی کہتی آئی کہ اس کا مطلق کوئی فائدہ نہیں، وہ آج کی تحقیقات سے مختلف فوائد کی نوید دے رہا ہے. لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ آج سے کچھ سال بعد ہم رب کی اضافی توصیف یہ سوچ کر کریں کہ انہوں نے مردوں کو نپلز دینے میں فلاں فلاں حکمت رکھ رکھی تھی. چوتھا پہلو یہ مغالطہ ہے کہ نپلز کا واحد کام بچے کو دودھ پہنچانا ہے. حقیقت میں سائنسی اعتبار سے یہ اس کے ساتھ ساتھ مرد و عورت کی تفریق کے بغیر جنسی تسکین کا بھی سامان کرتے ہیں اور اس حوالے سے مردوں میں ان کی موجودگی کمتر درجے میں یہی کام انکے لئے انجام دیتی ہے. پانچواں امکانی پہلو یہ ہے کہ بعض لوگ ایسی جنیاتی بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جن سے ان کی جنس کا تعین نہیں ہو پاتا. یعنی ان میں مرد اور عورت دونوں کے جسمانی خدوخال موجود ہوتے ہیں. یا پھر وہ جسمانی طور پر ایک جنس جب کے نفسیاتی سطح پر دوسری جنس سے وابستہ ہوتے ہیں. ایسے میں اس بات کی اجازت ہے کہ اگر طبیب واقعی اس انسان کی جنیاتی بیماری کے قائل ہوں تو اس کی جنس کو متعین کرنے کےلیے سرجری کی جائے. ایسے کسی آپریشن کی صورت میں مردوں کے اجسام میں نپلز کی پہلے سے موجودگی یقینی طور پر مددگار ثابت ہوگی.
.
یہ سوچنے کے بہت سے ممکنہ پہلووں میں سے چند پہلو ہیں اور جن میں سے کئی کی نوعیت امکانی ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ اسے اسی رعایت سے دیکھیں۔
۔

Comments

Click here to post a comment