ہوم << کاش کوئی عمران خان کو سمجھائے! زبیر منصوری

کاش کوئی عمران خان کو سمجھائے! زبیر منصوری

زبیر منصوری مجھے عمران خان ایک محب وطن انسان لگتا ہے، وفادار ہے اور جی دار بھی. ’’تبدیلی‘‘ اس کے لیے ایک نعرہ ہی نہیں دل کی گہرائیوں سے پھوٹنے والی شدید خواہش بھی ہے اور وہ اپنی اس پہلی اور آخری محبت کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتا ہے، ہر طریقہ اور ہر حربہ، جو بھی جیسے بھی ممکن ہو!
وہ بہادر پٹھانوں کی طرح لمبی اننگ کھیلا اور آگے بھی کھیلنے کو تیار ہے.
حکمت عملی اور فیصلوں کی غلطیاں کس سے نہیں ہوئیں؟ اس سے بھی ہوئی ہیں اور ہوں گی۔
مگر مجھے دکھ ہے کہ وہ ’’فرینڈلی فائرنگ ‘‘ کا شکار ہوا اور ہوتا رہےگا. مجھے دکھ ہے کہ ایک محب وطن انسان کے خواب اپنوں ہی کے ہاتھوں ’’شب خون‘‘ میں مارے جائیں گے.
مجھے افسوس ہے کہ وہ جب جب بھی تیر کھا کر کمین گاہ کی طرف دیکھے گا تو اس کی ملاقات اپنے ہی ’’دوستوں‘‘ سے ہو جائے گی.
عمران جیسے شیر دلوں کو کبھی نواز و شہباز جیسے پیسے کے پجاری ’’کاغذی شیر‘‘ نہیں ہرا سکے.
عمران جیسے مخلص لوگوں کو زرداری جیسی لومڑیاں بھی شکست سے دوچار نہیں کرتیں.
اس جیسے لوگوں کو مشکلیں ہرا نہیں پاتیں، باد مخالف تو انہیں اونچا اڑاتی ہے مگر یہ اکثر اپنی سادہ لوحی میں عمران اسماعیل، نعیم الحق اور شاہ محمود قریشی اپنی’’آستین‘‘ میں خود پال لیتے ہیں اور یہی ان کے انجام کے لیے کافی ہوتے ہیں.
کاش عمران اس قوم کا اردگان بن پاتا، کاش اسے امام قاضی جیسا کوئی اتالیق میسر رہتا جس کی صحبت کے لیے وہ چل کر منصورہ جایا کرتا تھا.
کاش عمران کے گرد کوئی اسی جیسے محب وطن لوگ جمع ہو پاتے.
کاش عمران کو کچھ اسٹرٹیجک پلانرز مل جاتے.
کاش کوئی محبت، نرمی اور خلوص کی آنچ سے عمران کی شخصیت میں موجود کجیوں کے نقصان کم کرتا اور اس کی شخصیت کے کرشمہ سے خیر کا کوئی بڑا کام لیا جا سکتا.
اس بڑے آدمی کے ساتھ کرک کے سفر میں جب میں نے کہا کہ قائد کی کامیابی میں دوسرے اور تیسرے Tier کی قیادت اہم ہوتی ہے تو اس نے کار کی اگلی سیٹ سے پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا اور بولا ’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو‘‘. میں اس کی آواز میں موجود درد کو صاف محسوس کر رہا تھا. پھر کافی دیر تک گاڑی میں گہری خاموشی چھائی رہی۔
عمران کی جدوجہد کی اننگ بھی ختم ہونے کو ہے، ایک پوری نسل اس کے عزم اور حوصلہ کے سائے میں پروان چڑھ کر جوان ہوئی، اس نسل نے اس شخص سے حوصلہ اور امید کشید کی، امنگ اور تڑپ پائی، اسے معاشرے کے ہر طبقہ سے پذیرائی ملی.
کارپوریٹ کلچر کے عادی لوگ اس کے لیے بروئے کار آئے، مقتدر قوتوں نے اس کے سر پر دست شفقت رکھا، غیرت مند پٹھانوں کی عورتوں تک نے اس کے لیے گھر سے نکل کر ووٹ ڈالا
مگر افسوس عمران کی شخصیت کی خامیاں
مگر افسوس دوسرے اور تیسرے درجہ کی قیادت کا غلط انتخاب
مگر افسوس سیاسی حکمت اور جوڑ توڑ کے اسرار و رموز سے لاعلمی
مگر افسوس پلاننگ کی اہمیت نہ جاننے کے سبب
یہ قیمتی امکان بروئے کار نہ آ سکا، اور نہ ہی شاید آ سکے گا۔
افسوس ایک پوری نسل پھر مایوسی کے سمندر کی طرف بڑھ کر بانجھ ہونے کو ہے۔
آنے والے کل کا اداس سورج ہر درد مند انسان کی طرح قوم کے اس نقصان پر افسردہ ہے۔