ہوم << چانکیہ، اور کراچی کا ارتھ شاستر! ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

چانکیہ، اور کراچی کا ارتھ شاستر! ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

عاصم اللہ بخش کراچی میں کیا ہو رہا ہے؟ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ غالباً ان کے پاس بھی نہیں جن کے ارد گرد سب ہو رہا ہے اور جو اس سب کی وجہ و بنیاد بھی ہیں.
اس گھمبیر صورتحال میں جب مدد کے لیے ایک دوست کو پکارا جو تھڑے باز سیاست کے ماسٹر ہیں تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا، یار کوئی جوڑ توڑ کا مسئلہ ہے یا کونسلر لیول کی سیٹ جیتنی ہے یا جتوانی ہے تو بات کرو ورنہ وقت برباد مت کرو۔ یہ گیم اونچی سطح کی ہے۔ اس کے لیے چانکیہ جیسا دماغ درکار ہے ہما شما کے بس کی بات نہیں۔ کچھ حیرانی ہوئی کہ اس میں ایسا بھی کیا ہے جو سیدھا چانکیہ پر ہی جا پہنچا، اور بھی لوگ ہیں جہاں میں اچھے۔
بہرحال!
لہجہ کی تلخی کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے پوچھا، تو کہاں ملے گا یہ چانکیہ؟ یہ ہندو لوگ تو اس قدر محتاط ہیں کہ جلانے کے بعد راکھ بھی دفن نہیں کرتے، بہا دیتے ہیں۔ اور بات بھی کل کی نہیں، چندر گپت موریہ کے دور کی ہے۔ ابھی اسے کچھ سخت سست کہنے کا ارادہ پختہ کر ہی رہا تھا کہ شاید اس نے بھی بھانپ لیا، کہنے لگا، بھائی! جب یہ بڑے بڑے لوگ مر جاتے ہیں تو یہ اپنی اور دوسروں کی کتابوں میں زندہ سلامت رہتے ہیں۔ آئندہ آنے والے ان سے پھر وہیں ملاقات کرتے ہیں، سوالات پوچھتے ہیں اور علم کی پیاس بجھاتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے کتاب پڑھنے کا شوق ہونا چاہیے۔ اچھا، اب کون سی کتاب پڑھوں؟ میں نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے دریافت کیا۔ یار میں سیاسی کارکن ہوں پروفیسر نہیں۔ تم کسی پڑھے لکھے سے معلوم کرو نا۔ اب ان دنوں گوگل بابا سے بڑا پروفیسر کون ہے بھلا۔ بس میں گھر پہنچا اور کمپیوٹر آن کر کے سرچ کا بٹن دبا دیا. معلوم ہؤا کہ ”ارتھ شاستر“ چانکیہ صاحب کی ایک معرکۃ الآرا کتاب ہے جس میں انہوں نے ریاست اور سیاست کے سب ہی داؤ پیچ لکھ ڈالے ہیں۔
ارتھ شاستر کے سرورق کی ایک تصویر ساتھ ہی بنی ہوئی تھی۔ اس کو کلک کیا تو اچانک ایک چٹیا بردارصاحب کی تصویر سامنے آ گئی۔ نیچے لکھا تھا چانکیہ مہاراج۔ مجھے ایک دھچکا سا لگا کیونکہ تصویر میں چانکیہ صاحب کے عین عقب میں مزارِ قائد نمایاں تھا۔ یہ کیا جعلسازی ہے، میرے منہ سے نکلا۔ جعلسازی، کیا مطلب برخوردار؟ آواز کی سمت متعین کرنے کے لیے میں نے دائیں بائیں دیکھا۔ ادھر ادھر مت دیکھو، میری طرف دیکھو، میں یہاں ہوں، اِدھر، کتاب میں۔ لیکن آپ تو کراچی میں ہیں؟ میں نے استفسار کیا۔ بس کیا بتائیں؟ آدیش ہوا کہ ریفریشر کورس پر فوراً کراچی پہنچوں، یہاں پر راجنیتی (سیاست) کا ایک رومانچک (سنسنی خیز) کھیل چل رہا ہے۔ اسے دیکھوں اور اس پر اپنی رپورٹ تیار کروں۔
کھیل؟ یہ کیا بات ہوئی۔ آپ کی شہرت ایک سنجیدہ انسان کی ہے، کھیل کود سے آپ کو کیا نسبت؟ اب جزبز ہونے کی باری چانکیہ صاحب کی تھی۔ سیاست کی بساط بھی شطرنج کی طرح ہی ہوتی ہے، اس میں پیادے اور گھوڑے بھی ہوتے ہیں، کھلاڑی بھی اور ان کھلاڑیوں کی چالیں بھی۔ یہاں بساط بچھائی بھی جاتی ہے اور پھر لپیٹی بھی جاتی ہے۔ اس میں فتح وشکست بھی ہوتی ہے، البتہ اس میں ایک رخ اور بھی ہے، یہاں فتح و شکست کے نام پر دھوکہ بھی ہو جاتا ہے، لیکن یہ دھوکہ تماشائیوں کے ساتھ ہوتا ہے، کھلاڑی تو اپنا کھیل جاتے ہیں. اس لیے تماشائیوں کو زیادہ چوکنا رہنا چاہیے۔
کراچی میں یہ بساط آپ سے کیا کہتی ہے مہاراج! میں نے براہ راست مقصد کی بات پر آتے ہوئے پوچھا۔
اس نے ایک اچٹتی سی نظر مجھ پر ڈالی اور بولا، میاں میں چانکیہ ہوں، چارلی چیپلن نہیں. میرا کام منصوبہ اور اسٹریٹجی ترتیب دینا ہے، فرمائشی پروگرام پورے کرنا نہیں. میں نے جو کہنا ہے وہ اپنی اس رپورٹ میں لکھ چکا ہوں، اس نے اپنے بریف کیس کی طرف اشارہ کیا. نہیں مہاراج! آپ گرو ہیں میں تو محض ایک ودھیارتی (طالب علم)، کچھ تو بتائیے آپ نے کیا اندازہ لگایا؟ میں نے ضد کرنے کے سے انداز میں کہا.
ہمممم... چانکیہ نے ہنکارہ بھرا، ویسے تو شاگردی کے لیے میرا معیار خاصا بلند ہے جس پر تم پورا نہیں اترتے، پھر بھی چلو کچھ باتیں کہتا ہوں. یہ امکانات ہیں، اس سے آگے کی کہانی خود دیکھ سمجھ لینا.
کراچی آپریشن کے حوالے سے ایم کیو ایم کا مئوقف یہ ہے کہ اس آپریشن نے اسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے. کسی بھی اور جماعت یا گروہ کے برعکس، ایم کیو ایم کی افرادی قوت اور وسائل چونکہ سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی میں مرتکز ہیں اس لیے وہ ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے. اب تو یہ آپریشن اس کو اور بھی زیادہ زک پہنچانے لگا ہے جس کی بڑی وجہ اس سے متعلق افراد کی ایک بڑی تعداد میں گرفتاریاں اور ان کے گھروں پر چھاپے وغیرہ ہیں. دوسرا یہ کہ ماضی قریب میں ایم کیو ایم پر الزام رہا کہ اس کا عسکری ونگ اب درون خانہ بھی دانت تیز کرنے لگا ہے، جس کی وجہ سے اندرونی طور پر بےچینی میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا. بہت سے حلقوں کا خیال تھا کہ یہ ونگ براہ راست قائد تحریک کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنا کام کرتا ہے. ان حالات میں مصطفی کمال اور انیس قائم خانی جیسے لوگوں کا الگ سے دھڑا بنانے کا نتیجہ یہ ہو سکتا تھا کہ کراچی کے لیے ایک متبادل قیادت سامنے آ جائے. رینجرز آپریشن کے دوران ایک دو مواقع پر جب کراچی کو بند کروانے کی کوشش کی گئی تو ماضی کی نسبت یہ کام نہایت مشکل ثابت ہوا اور ناکامی ہوئی. اب جو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے یہ قدم اٹھایا کہ الطاف حسین صاحب سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، اس سے انہوں نے ایک عمدہ سیاسی چال چلی ہے. اپنے اور اپنی سیاست کے لیے گنجائش کا دعوی سامنے رکھا ہے. اس گنجائش کا مطلب اپنے محصور کارکنوں اور ان کے مقدمات کے لیے کچھ آسانی کی بات کرنا ہے. پھر یہ کہ الطاف صاحب کے برعکس پاکستان زندہ باد کہہ کر عوام کے دلوں میں بھی اپنے لیے جگہ پیدا کر لی. ایک کام اور ہوا کہ اس اعلان لاتعلقی سے انہوں نے مصطفی کمال کو اس بنیادی مقدمہ سے فارغ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ الطاف حسین صاحب کے خلاف گفتگو کو اپنی جماعت کے حق میں استعمال کر رہے تھے. اب جبکہ الطاف صاحب منظر عام سے ہٹ گئے ہیں تو اب ان کی پارٹی کا کیا جواز؟ اب تو ایم کیو ایم بھی ویسی ہی ہے، الطاف صاحب کے بغیر، بلکہ ان کے خلاف.
اچھا، پھر؟ یہ تو اچھی بات نہ ہوئی ؟ میں نے پوچھا. ہاں ہوئی، بالکل ہوئی، لیکن یہ سیاست ہے. یہاں جو نظر آتا ہے بالکل ویسا نہیں ہوتا. اس صورتحال کی ایک نہایت خطرناک شکل بھی ہے. ایم کیو ایم جس طرح بالالتزام حب الوطنی کے مظاہرے کر رہی ہے اور ساتھ میں شکایات بھی جاری ہیں، جیے الطاف کے بجائے جیے بھٹو اور جیےعمران کے نعرے لگ رہے ہیں، اسمبلی میں الطاف بھائی کے خلاف قرارداد لائے جانے کی بات ہو رہی ہے، پارٹی آئین تک تبدیل ہو رہا ہے، اس سے یہ امکان بھی ابھرتا ہے کہ یہ ایک چارج شیٹ بھی تیار ہو رہی ہے. اگر سچ میں ایسا ہی ہے تو شکایات کا لہجہ آہستہ آہستہ تلخ ہوتا چلا جائے گا اور پھر ایک ایسا بریکنگ پوائنٹ آ سکتا ہے کہ یہی فاروق ستار یا کوئی اور لیڈر پکار پکار کر کہہ رہا ہو کہ الطاف بھائی آپ سچے تھے، آپ صحیح تھے، ہم سے ہی بھول ہوئی. ہم نے تو یہ کیا، یہ کیا اور یہ بھی کیا لیکن ہمیں ریاست اور اسٹیبلشمنٹ سے کوئی گنجائش نہ مل سکی. آپ خدارا ہمیں معاف کر دیجیے اور ہمیں گلے سے لگا لیجیے. یہ ایک ڈرامائی لمحہ ہوگا اور ظاہر ہے قائد معاف کرتے ہوئے انہیں گلے سے لگا لیں گے اور اس وقت قائد کی طاقت اپنی بلندی پر ہوگی. آج اگر کچھ لوگ ان کے رویہ سے شاکی ہیں تو وہ مخالفت بھی دم توڑ جائے گی. یہ منظرنامہ اصل چیلنج ہے.
تو اب کیا ہوگا مہاراج! آواز میرے گلے میں پھنسنے لگی.
تم تو گھبرا گئے. یہ صرف ایک امکان ہے، پیشین گوئی نہیں. اور اس کی بنیاد بھی چند انہونیوں پر ہے. مثلاً، وہ مثالی اور مکمل اتفاق رائے جو اس وقت ایم کیو ایم میں نظر آ رہا ہے. اتنا پرسکون بٹوارہ تو گھر کا نہیں ہوتا، یہ تو ایم کیو ایم ہے بھایا، ایم کیو ایم. علیحدگی نہ ہوئی ڈاکڑ طاہر القادری صاحب کا دھرنا ہوگیا، ایک گملا بھی نہ ٹوٹا.
بہرحال! اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت آگے کیا کرتی ہے. ابھی تک تو دونوں اطراف نے اچھے پتے پھینکے ہیں.
حکومت نے فوراً ہی ایم کیو ایم کا وہ فیصلہ مان لیا جو 23 اگست کی پریس کانفرنس میں سامنے آیا. نہ ماننے کی کوئی وجہ بھی نہیں. لیکن آپریشن نہیں روکا، بس اتنا کیا کہ اب جو لوگ پکڑے جا رہے ہیں وہ ایم کیو ایم لندن کے ہیں. یعنی نہ یہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے لوگ ہیں اور نہ ہی وہ ان کے لیے بات کرے. ایم کیو ایم کے میئر کو جیل سے منتخب بھی کروایا، حلف بھی دلوایا اور اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی. شاید میئر وسیم اختر کو جلد پیرول پر رہا بھی کر دیا جائے. گئے روز ایپکس کمیٹی میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی بازگشت بھی سنائی دی. یہ بھی سندھ کے شہری علاقوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے. تاہم یہ نظر آتا ہے کہ اب جو ریلیف دیا جائے گا، وہ حکومت اور گورنر سندھ کی وساطت سے ہوگا تاکہ واضح نظر آئے کہ یہ کون کر رہا ہے. ساتھ ہی مصطفی کمال کے ہاتھ بھی مضبوط کیے جائیں گے تاکہ الطاف حسین کوئی ایسی لہر نہ اٹھا سکیں جو سب کچھ ہی بہا کر لے جائے.
شاید یہ سب کچھ نہ ہو، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا تو مجھے ایک خوشگوار حیرت ضرور ہوگی. غالباً یہی سب معلوم کرنے مجھے اس اسٹڈی ٹور پر بھیجا گیا ہے. اور، آخری بات! خرابی سے بچنے کے لیے چال کا درست ہونا ہی اہم نہیں، اس کا بروقت ہونا اور سامنے والے کھلاڑی کے ذہن کو پڑھنا بھی ضروری ہے.
اچھا اب میں چلتا ہوں. کہاں؟ میں نے ہڑبڑا کر پوچھا.... اور .... الطاف بھائی کا اس میں کیا فائدہ ہے، اگر یہ معاملہ یوں ہی ہے تو؟
لیکن چانکیہ غائب ہو چکا تھا.

Comments

Click here to post a comment