ہوم << من مصوّرم - ذہین احمق آبادی

من مصوّرم - ذہین احمق آبادی

جب سے لکھنا شروع کیا ہے تب سے ہی ڈیجیٹل مصوّری کا بھی کسی حد تک شوق پروان چڑھا ہے. ایک آدھ ہاتھ مار ہی لیتا ہوں. مزہ اس وقت آتا ہے جب مجھ سے کوئی خوش نما تصویر سرزد ہو جاتی ہے. اکثر جو سوال آتا ہے اس پر، وہ یہ ہوتا ہے کہ
”آپ کون سا سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں؟“
اور میں مسکرا کر رہ جاتا ہوں. اس سادگی پر کیوں نہ قربان جائیے. یہ سوال کتنا عجیب ہے، اور انوکھا بھی. یہی گمراہ کر سکتا ہے اور ہدایت یاب بھی. کیا مستعمل چیز ہی حقیقتِ محض ہے؟ مصور خود کچھ نہیں ہوتا کیا؟ میرا مطلب ہے کہ یہ سوال اتنا ہی انوکھا ہے، جتنا یہ کہنا کہ فلاں ٹائپ رائٹر نے بہت اچھا ناول لکھا. یاللعجب.!
زمانہ آیا ہے بےحجابی کا، عام دیدارِ یار ہوگا
سُکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا
میں خود بھی ایسے ہی سوالات کِیا کرتا تھا لیکن جب سے یہ احساس ہوا ہے تب سے کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہوا ہے کہ ”مصوّر“ ہونے کا کیا مطلب ہے. اس کے مختلف درجے ہی ایسے پیچیدہ ہیں کہ بس. پہلے خیال کی نشو و نما، پھر خاکہ، پھر متناسب ہونے کا اہتمام، مدوّر کی گولائی، مخروط کی اسطوانیت (taper-ness)، موزوں لمبائی، متناسب (symmetrical) قالب، پھر سہ جہتی (تھری ڈی) تاثّر، پھر روشنی کا منبع، پھر اس کی نسبت سے سایہ، پھر رنگوں کا امتیاز و امتزاج، گہرا، ہلکا، تیز، شوخ، خوشنما، بدنما، چبھتا ہوا، مدغم و ضم، پانی میں، ہوا میں، شیشے کے پار، دھندلا، گدلا، ہیولا، خوش، اداس، مضمحل، منعکس، منعطف، آبی لہر میں مرتعش، بُعد و نزد کی منظر کشی، دھوپ، چھاؤں، دن، رات، شام، گجر دم، افق، شفق، خیرگی و تیرگی، اور اس کے بعد مزید نامعلوم مراحل تاآنکہ ایک مکمل عمدہ تصویر آ موجود ہو جو کہ آج تک کوئی انسان نہیں بنا پایا. یہ میرا دعوی ہے.!
ہمارے ارد گرد ہر وقت تصویریں بن رہی ہیں، بگڑ رہی ہیں، ہر زاویے سے، اور ہر طرف سے ان کا منظر بھی میسر ہے، ہر آن، ہر لمحہ ارتقاء پذیر، ہر وقت سائے کی تبدیلی، ہر لحظہ حالت میں تنوّع، اور اس سب کے باعث ان کے اردگرد کی اشیاء کی تصویر، سایہ وغیرہ میں تبدّل، وہ بھی ہر ناظر کے لیے جدا، ایک کے لیے ایک طرف سے شوخ تو دوسرے کے لیے گدلا، ہر ایک کے لیے پسِ منظر جدا، دُور والے کے لیے علیحدہ، قریب والے کے لیے انوکھا، آنسو بھری آنکھ اور معنّک چشم کے لیے الگ الگ، چلتی پھرتی متحرّک تصاویر جو اپنی حالت میں ہر دم تخریب و تعمیر کا نمونہ بخود ہیں. جہانِ کون میں یہ شِش جہتی متحرّک (Moving Six dimensional) تصاویر کس کی تخلیقی طاقت کی مظہر ہیں!؟ یہ ہر لمحہ، ہر آن فی الواقع تبدّل (real-time editing) کون کر رہا ہے؟ ہر قسم کے سُقُم (glitch) سے مبرّا تبدّل. جیسی آواز نکل رہی ہے مُنہ کی حرکت بھی اسی کی موافقت میں ہے. ایک تو تصویر ایسی کہ کثیر الجہات (multi-dimensional) ہے، اوپر سے جو آنکھ دکھا رہی ہے وہ بھی اس کا احساس رکھتی ہے. رنگ میں فرق کرتی ہے، فاصلہ ماپتی ہے، اور نظارگی میں حائل اشیاء کے متعلقہ فاصلے (relative distance) کے ذریعے ان میں فرق (distinction) کرتی ہے کہ کون سی چیز قریب ہے اور کون سی دور. اس پر طرفہ کاری یہ کہ اُسی رفتار سے معکوس کی ترسیل کرتی ہے جس رفتار سے تصاویر کی نشست و برخاست واقعتاً عمل میں آ رہی ہے، اور اس کا معیار (quality) کیا کمال ہے. تم سیوَن ٹُوَنٹی (720p)، تھاؤزنڈ اینڈ ایٹی پی (1080p) اور فور کے (4k) کی بات کرتے ہو؟ یہ اس سے بہت اعلی و ارفع ہے کہ یہ ان میں تمیز کرتی ہے. یہ خود کتنی نمایاں (High Definition - ultra HD) ہوگی؟ اس کا عروض (resolution) کتنا ہوگا؟ اس کی عمدگی کا تو کہنا ہی کیا.!
جو مصوری نہیں جانتے وہ بھی اتنا تو سمجھ ہی سکتے ہیں کہ باقاعدہ چیزوں کی نسبت بےقاعدہ و غیرمتناسب چیزیں بنانا زیادہ مشکل ہے. اس کی مخصوص جہت سے منظر کشی مزید مشکل، مطلب یہ کہ ٹوٹا ہوا ہاتھ بنانا جڑے ہوئے ہاتھ کی نسبت زیادہ مشکل ہے، ہڈی کیسے باہر نکل رہی ہے، لوتھڑا کیسے لٹک رہا ہے، بےجان حصہ کیسے جھول رہا ہے، خون کیسے ٹپک رہا ہے؟ پہاڑ کی چٹانیں، اور اسی نوع کی چیزوں کو قرطاس پر بکھیرنے میں جو مسائل درپیش ہو سکتے ہیں وہ کچھ ایسے اجنبی بھی نہیں، اور اس پر طرّہ یہ کہ جتنی تیزی سے تصویروں میں تبدیلی آ رہی ہے، اتنے ہی عرصے میں آنکھ من و عن دکھا بھی رہی ہے. آخر ہر چیز کتنے عکس فی لمحہ (Frames Per Second -fps) متحرک رہتی ہے؟ اور اس ایک تصویر کو دیکھنے دکھانے کو ہزار ہا کارخانے چل رہے ہیں. ذہن سمجھ رہا ہے. درد انگیز منظر تو چشمِ نم ردِ عمل. حملہ ہو رہا ہے تو ہاتھ دفاع کے لیے اٹھ رہا ہے.!
اللہ تعالی اپنے مصوّر ہونے کا بتاتا ہے، بلکہ صاف صاف دِکھلاتا ہے. کیا مصور ہونے کا محض یہی مطلب ہے کہ وہ ایک دفعہ بنا کر فارغ ہو گیا؟ نہیں، بلکہ وہ کل بھی مصوّر تھا، ہے اور رہے گا. مگر ہم ہیں کہ سمجھتے ہی نہیں. کیا ہمیں سامنے کی چیزیں نظر نہیں آتیں؟ کیا ہم اندھے، گونگے، بہرے ہو چکے ہیں؟ کیا ہم اب بھی یہی کہیں گے کہ وہ ہمیں ہر وقت کیسے دیکھ رہا ہے؟ کیا یہ سب کچھ خود بخود بن اور بگڑ رہا ہے؟ کیا یہ سب ایک حادثہ ہے؟ کیا اس کے پیچھے کوئی قوّت کارفرما نہیں ہے؟ کیا انسان میں بصارت ایک اشارہ نہیں ہے کہ وہ دور اور نزدیک، غائب اور حاضر کی تمام چیزیں کیسے اپنے روبرو پاتا ہوگا؟ کیا وہ جو اپنے آپ کو سمیع، بصیر، علیم، مصوّر اور جانے کیا کیا کچھ کہتا ہے؛ اس نے اپنے تمام اوصاف و صفات کو انسانوں اور اپنی تمام تر تخلیقات میں استعارہ نہیں کر دیا؟
~ شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوقِ تکلّم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں
کہ جس کسی میں آرزو ہو کچھ پانے کی، وہ جستجو کرے، اور پالے وہ رمزِ کتم شدہ، جو ساز ہے، زمزمہ پرداز یہیں، جو راز ہے، پر راز نہیں. یہ سب مصوّری ہمارے اردگرد 'موجود' ہے. اور اس پر بھی یہ تکلّف کہ ربِّ قیّوم اشیاء کی تصاویر ہر وقت قائم رکھے ہوئے ہے. اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ناظر موجود ہے یا نہیں، کوئی دیکھ رہا ہے یا نہیں؟ پوری رات کپڑا لٹکا پھڑپھڑا رہا ہے، کوئی نہیں دیکھ رہا، کوئی نہیں سن رہا، مگر اس سے اُس ربّ کو فرق کیا پڑتا ہے؟ وہ تو”مصور“ اور ”قیّوم“ ہے. وہ آواز کی تصویر بناتا ہے، اور تصویر کی آواز. کمال کرتا ہے. اس کا صاف اور سیدھا اشارہ یہ ہے کہ تمہاری حقیقت کچھ نہیں ہے، تم ہو یا نہ ہو، ہر چیز اسی طرح موجود رہتی ہے. وہ اپنی تخلیق سے محبت تو کرتا ہے، مگر وہ بےنیاز ہے. تمہاری ہستی و نیستی سے اس کائنات کو کوئی فرق نہیں پڑتا.
~ کس کو فرصت کہ مجھ سے بحث کرے
اور ثابت کرے کہ میرا وجود
زندگی کے لیے ضروری ہے
اور اس بات سے بہت فرق پڑتا ہے کہ تمہارے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا. تم ہر روز ایک گلی سے گزرتے ہو، بلاناغہ، اگر نہ بھی گزرو تو اس گلی کو، مکانوں اور مکینوں کو کیا فرق پڑے گا؟ تم نہیں گزروگے تو کوئی اور گزر جائے گا. کوئی بھی نہیں گزرتا، تو نہ گزرے. دنیا اسی گلی کی مانند ہے جسے اس ربّ نے قائم رکھا ہوا ہے. وہ ہمہ وقت مصوّر ہے. اب بتاؤ اصلی بادشاہ کون ہے؟ گویا آیۃ الکرسی میں جو ہے کہ
[pullquote]اللہ لاالہ الاھو الحی القیوم - لاتاخذہ سنۃ و لانوم[/pullquote] اللہ (وہ معبودِ برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں. زندہ، ہمیشہ (قائم کرنے اور) رہنے والا. اسے نہ اونگھ ہی آتی ہے نہ نیند.!
کہ اگر نیند آ جائے تو یہ سب کچھ جو ”وہ“ ہر لمحے قائم و تصویر کر رہا ہے، معدوم ہو جائے، ختم ہو جائے، یک دم تاعدم، چاہے اونگھ ہی کیوں نہ ہو. خیال ایک لمحے کے لیے ہی سہی، مر تو جاتا ہے نا؟ قبل اس سے کہ دوبارہ قائم ہو، اور قائم اگر دوبارہ ہو بھی جائے تب بھی اس بات کی کیا توثیق کہ یہ اسی مرحلے سے جوڑا گیا ہے جس پر یہ منقطع ہوا تھا. اور انھی اسالیب پر اس کی اساس ہے جن پر یہ برہم و پریشاں ہونے سے قبل وقوع پذیر تھا؟ شاید ربِّ تعالی کی لامحدود صفات وغیرہ کے بارے میں غور کر کے ہی مختلف ادیان نے اس کے شریک ٹھہرائے؛ کہ ایک خالقِ واحد اتنا سب کچھ کیسے کر سکتا ہے؟ حالانکہ وہ خدا ہی کیا جو یہ سب کچھ نہ کر سکے. وہ مخلوق جیسا بےکس اور محدود تھوڑا ہی ہے. انسان کا گمان ربّ کے شایانِ شان نہیں ہے. جانے کیوں حضرت یوسف علیہ السلام یاد آ رہے ہیں. یہ دیکھو کیا کہہ رہے ہیں
[pullquote]یاصاحِبَیِ السِّجْنِ[/pullquote] میرے جیل خانے کے رفیقو! بھلا کئی جدا جدا آقا اچھے یا (ایک) خدائے یکتا وغالب (اچھا)؟ جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ خدا نے ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ (سن رکھو کہ) خدا کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے. (یوسف - ٣٩، ٤٠)
وہ ربّ ہمیں غور کرنے کا کہتا ہے. معانی ہر سُو بکھرے پڑے ہیں. وہ تو ازل سے موجود ہیں جنھیں ہم بیان کرنے کے لیے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں. کبھی ایک زبان کبھی دوسری زبان مگر کیا معانی کا حق ادا ہوتا ہے؟ وہ کیا وسیع تر منقش معانی ہوگا جس کو ربّ نے ”مصوّر“ کا نام دیا ہے؟ کہ مفہوم تو پہلے سے موجود تھا. الفاظ تو اس کو بیان کرنے کی پیوندکاری میں بخیے کا کام دیتے ہیں. اور اگر الفاظ میں بالفرض اتنا ظرف ہو بھی کہ معانی کا احاطہ کر لیں، تو بھی کوئی وہاں تک کیونکر پہنچے؟ میں الفاظ سے ہٹ کر سراپا معانی کا شیدائی ہوں، تو میں جب ”حسن“ کی بات کرتا ہوں تو میں حسن کی بات نہیں کرتا، معانی کی بات کرتا ہوں. وہ کیا معانی ہوں گے جو اس لفظ میں بند ہیں؟ وہ کیا معانی ہوں گے جو لفظ ”دیدار“ میں قید ہیں؟ وہ کیا معانی ہوں گے جو لفظ ”سماعت“ کے پابند ہیں؟ میں اپنا تخیل جھلسا دینا چاہتا ہوں، میں سراپا حسن کا شیدائی ہوں، میں تھک گیا ہوں، یہ کتاب بہت بھاری ہے، میں ظالم و جاہل اس کا بار اٹھانے کا اہل کہاں ہوں؟. میں مر جاؤں گا، کاش کہ تم وہ دیکھ سکو جو میں دیکھ رہا ہوں. میں معانی کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا پا رہا. میرے اندر معانی گھٹ رہے ہیں. وہ نہیں مر سکتے مگر میں ان کی وسعت سے مر جاؤں گا. یہ کیسی بےکسی ہے؟ میں ہی ظالم ہوں اور میں ہی مظلوم ہوں.
میں حدودِ ذات کی وسعت تلک آزاد ہوں
آپ ہی گویا قفس ہوں، آپ ہی صیاد ہوں
میں ادراک رقم نہیں کر سکتا. میں پاگل ہو جاؤں گا. میرا تخیل ورم آلود ہو چکا ہے، اور عنقریب پاش پاش ہو کر رہ جائے گا. میں عاجز آ گیا ہوں، یہ میرے ظرف سے فزوں تر ہے. اس قرآن نے میرے تلوّن کو شکست دے دی ہے، جو اس نہج پر ہے کہ ایک غزل میں دو قافیے ایک جیسے پڑھ لوں تو خفقانی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے، ذہن جھنجھلا جاتا ہے. میں اقرار کرتا ہوں، میں اس کے مصنّف سے ملنے کا متمنی ہوں. یاسمین مجاہد (Yasmin Mogahed) کا کہنا تھا کہ ”جب آپ کسی بہت اچھی تخلیق کو دیکھتے ہیں تو اس کے خالق سے ملنے کے متمنی ہوتے ہیں.“ میں بھی اس دنیا کے مصور سے ملنے کی شیدائی ہوں.
میں بھی اب اس دنیا میں نہیں رہنا چاہتا یاصاحب السجن. میں اُس مصوّر سے ملنے کا مشتاق ہوں جس نے مجھے کُن کے تیشے سے ضرب دے کر تراشا. میں اُس خیّاطِ ازل کا شیدائی ہوں جس نے مصنّف بن کر میری زندگی کو لوح محفُوظ میں بکھیر کر رکھ دیا. میں اُس سے ملاقات کا شائق ہُوں، میں اپنے ربّ سے ملنا چاہتا ہوں.
متاعِ بےبہا ہے درد و سوزِ آرزومندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
میں اسی معانی کی بازگشت کی تکرار پر اصرار ہوں کہ ربّ موجود ہے. تم کہتے ہو کہ یہ دنیا حادثے کا نتیجہ ہے. اور اس کے بعد انسان اور یہ تمام نظام حادثہ در حادثہ سے تعبیر ہیں؟ کیا تم نے نیوٹن کا کہا نہیں سنا؟
‏Don't doubt the Creator. Because it is inconceivable that accidents alone could be the controller of this universe.
خالق پر شک نہ کرو... کیونکہ یہ بات تصوّر سے بالا ہے کہ صرف حادثات ہی اس کائنات کو قابُو کیے ہوئے ہیں.!
اب بھی اصرار چہ معنی؟ اب بھی تم کہو گے کہ ”خالق و مصور.“ کوئی نہیں ہے؟ کیا اب بھی کوئی اشکال ہے؟ کیوں نہیں سمجھتے تم؟ کیوں شیطان کے چنگل میں آیا چاہتے ہو؟ کیوں؟ کیا یہ سب کچھ خود بہ خود نہیں ہوتا، کچھ بھی خود بہ خود. میری ماما کہتی ہیں؛ جو کہتا ہے وہ خود ہوتا ہے، سنا تم نے، تم خود، خود بہ خود... دفع ہو جاؤ ادھر سے، بد تمیز کہیں کے.
کامِل ہے جو ازل سے، وہ ہے کمال تیرا
باقی ہے جو ابد تک، وہ ہے جلال تیرا
ہے عارفوں کو حیرت، اور منکروں کو سکتہ
ہر دل پہ چھا رہا ہے، رعبِ جمال تیرا
بےگانگی میں حالی یہ رنگِ آشنائی
سن سن کے سر دھنینگے قال اہلِ حال تیرا
[pullquote]فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِر[/pullquote] تو کوئی ہے جو سوچے، سمجھے.