ہوم << مغرب کی اندھی تقلید - شازیہ طاہر

مغرب کی اندھی تقلید - شازیہ طاہر

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
’’تم ضرور پچھلی امتوں کے طریقوں کی ( بعینہ) پیروی کروگے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے، تو تُم بھی ان کی پیروی کروگے۔ ہم نے عرض کیا، یارسول اللہ ﷺ! آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں، آپ ﷺنے فرمایا : اور کون؟‘‘ (صحیح بخاری )
اہلِ عرب کے ہاں یہ معروف تھا کہ گوہ کے داخل ہونے والے سوراخ کا تو پتا چل جاتا ہے، لیکن نکلنے والے سوراخ کا پتا نہیں چلتا، لہذا اسے حیرت کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺکے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ جن فتنوں میں اہلِ کتاب مبتلا ہوئے، ان کے انجام سے باخبر ہونے کے باوجود تم ان فتنوں میں مبتلا ہو گے.
ایک بہترین معاشرے کی بنیاد مضبوط خاندانی نظام پر ہوتی ہے. نسل انسانی اور بالخصوص اسلامی معاشرے کا غلط روش پر چل نکلنا خاندان اور معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے. اس وقت تمام مسلم ممالک میں مغربی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا عکس نمایاں ہے. بےحیائی اور فحاشی کو فنون و آرٹ کا نام دے کر اس کی اشاعت و ترویج کی جا رہی ہے. وطن عزیز پاکستان جس کا مطلب ہی ’’پاک جگہ‘‘ ہے اور جس کی بنیا ہی’’لا الہ الا اللہ‘‘ پر رکھی گئی تھی یعنی اس دھرتی پر اللہ اور اس کے رسول کے نظام اور قانون کے سوا اور کوئی نظام نہیں چلےگا. لیکن کیا کہیے کہ اسلام دشمن، لبرل، سیکولر اور مغربی حمایت یافتہ قوتوں نے اس پر راج کرنا شروع کر دیا ہے اور اپنی من مرضی چلا کر اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں. اس پر بند باندھنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ جیسی عوام ویسے حکمران، تو یہ سب ہمارے اپنے اعمال کی شامت ہے. جب عوام اس سب کو قبول کرتی جا رہی ہے تو مال و دولت اور شہرت کے نشے میں چور حکمرانوں کو کیا پڑی ہے ہماری حالت سنوارنے کی یا ہمارے دین و دنیا کی فکر کرنے کی؟
جب انسان کے اندر احساس زیاں مر جائے اور دلدل اور کیچڑ کو نرم و گداز بستر سمجھ کر خوب خرگوش کے مزے لیے جا رہے ہوں تو پھر ایسے لوگوں کو اللہ بھی انہی کے حال پر چھوڑ دیتا ہے. جب انسان کا دل مردہ ہو جائے یعنی اپنے لگاتار گناہوں کی وجہ سے سیاہ ہو جائے، اس کا ضمیر مر جائے تو پھر اسے اپنی کوئی برائی برائی اور کوئی گناہ گناہ نہیں لگتا اور وہ اپنے ہر برے کام کے لیے کوئی نہ کوئی دلیل نکال ہی لیتا ہے.
یہ امر انتہائی نقصان کا باعث ہے کہ آج ہم دین حق اسلام کی روشن تعلیمات کو چھوڑ کر مادر پدر آزاد اور اغیار کی بے ہودہ اور بدتہذیب عادات کے گرویدہ بنتے چلے جا رہے ہیں. ہماری نوجوان نسل مذہبی حدود و قیود کو پابندی کا نام دے کر یہود و نصاری کے نقش قدم پر چل کر روز بروز مذہب سے دور ہوتی جا رہی ہے. اور کھلم کھلا اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جا رہا ہے. اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کو دقیانوس اور تنگ نظر جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے. جس طرح یہود ونصاری نے الہامی کتابوں کے حامل ہونے کے باوجود اپنی مذہبی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا تھا اور ان میں اپنی مرضی سے تبد یلیاں کیں، اسی طرح ہم بھی اپنی مرضی کا اسلام چاہتے ہیں اور قرآن و حدیث میں سے اپنی سوچ اور ذہن کے مطابق تاویلیں نکالتے ہیں. چونکہ قرآن مجید لوح محفوظ میں ہے اور ابد تک اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا اس لیے اس کے معانی اور مطالب کو توڑ موڑ کر پیش کیا جاتا ہے. نئی تہذیب و تمدن ہمارے مسلم معاشرے پر کتنے برے اثرات ڈال سکتی ہے، اس کا اندازہ شاعر مشرق کو ایک صدی پہلے ہی ہوگیا تھا، اسی لیے آپ نے فرمایا تھا کہ:
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
اور اس نئی تہذیب سے ان کی مراد مغربی تہذیب ہی تھی.
اللہ تعالی ہمیں دوسرے مذاہب کی اندھی تقلید سے بچائے اور دور حاضر کے تمام فتنوں سے ہمیں اور ہماری ذریت کو اپنی امان میں رکھے.. آمین

Comments

Click here to post a comment