یورپی و مغربی تہذیب جو کہ گزشتہ تین چار صدیوں سے پروان چڑھ رھی تھی. پوری دنیا یورپ کے تسلط کے چنگل میں ہونے کی وجہ سے آج ان کی تہذیب sole supreme ہو کر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے. یورپی تہذیب کے نمایاں اجزا سیکولرزم، ڈیموکریسی، دین و مذہب سے بغاوت اور سود و ربا پر مبنی معیشت ساری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہیں، یا پھر پنجے گاڑ رہی ہیں.
یورپی تہذیب کے اہم اہداف میں سے ایک ہدف فحاشی وعریانی کو ترویج دے کر مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل بھی ہے. یہ ایک حصہ اگرچہ یورپ کی حد تک مکمل گلوبلائز ہو چکا. اور مسلم دنیا میں اگرچہ منظم اور مستحکم کوششوں کے ساتھ اس کو فروغ دینے کی کوششیں جاری ہیں، تاہم اب بھی کچھ pockets of resistence موجود ہیں، جو اپنی تہذیبی و دینی پس منظر کی وجہ سے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے تیار نہیں، بلکہ الٹا اس کے سامنے بند باندھنے کی تگ ودو میں مصروف عمل ہیں.
معاشرتی تعمیر نو کے تحت یورپ کے منصوبوں میں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جہاں اخلاق و قانون اور تہذیب و تمدن کی پابندیاں سدراہ سمجھ کر ٹھکانے لگا دی جائیں، جس میں شرم و حیا اور عفت و عصمت نامی چیزوں کا تصور بھی نہ ہو، جہاں صنف نازک مشترکہ مال بن جائے، ہم جنس پرستی کو نارمل مزاج اور اپنی جنس سے شادی کو لیگل تسلیم کیا جائے، سیکس آرگنز کو دیگر اعضاء کی طرح قابل انتفاع اور قابل اجرت رواج دیا جائے، حرام کاری کو مہذب پیشہ تسلیم کیا جائے، فیشن کا جھانسا دے کر نیم برہنہ بلکہ فل برہنہ کر دیا جائے، اور خاندانی نظام کو بنیادوں سے ڈھا کر مرد و عورت کو شتر بےمہار کی طرح چھوڑ دیا جائے.
وطن عزیز میں سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی کارستانیاں ہوں، یا پھر ثقافت و کلچر کے نام پر منعقد ہونے والے پروگرامز اور خاکے، تحفظ حقوق نسواں بل ہو یا تحفظ خواتین بل، گذشتہ عشرے کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے اصطلاحات کی بھرمار ہو یا موجودہ لبرلزم کے نعروں کی صدائے بازگشت، میراتھن ریسوں کی انعقاد ہو یا پھر موجودہ زرق برق جلسے جلوس اور ان میں شرم و حیا سے عاری حرکات و سکنات، یہ سب چیزیں ایک عام آدمی کے لیے شاید منتشر آوازوں سے زائد کچھ نہ ہو، لیکن ایک باشعور فرد کے لیے یہ سب اس سلسلے کی منظم کڑیاں ہیں، جس کے تحت ایک منظم اور سلسلہ وار انداز میں رفتہ رفتہ فحاشی و عریانی کو رواج دے کر مغربی تہذیب کے مادر پدر آزاد معاشرے کو گلوبلائز کرنا ہے.
مغربی ریشہ دوانیوں کی تاریخ سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ مغرب کا طریق کار اس سلسلے میں مسلمانوں جیسا نہیں، جو دو دن کے منصوبے بنا کر اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی سکت نہیں رکھتے. مغرب کی پالیساں ہمیشہ صدیوں پر محیط ہوتی ہیں، اور رفتار ہمیشہ مدھم، نام انتہائی خوبصورت اور ارادے اتنے زہریلے کہ بندہ کانپ اٹھے. یہ بھی یاد رہے کہ مغرب کی آج کی پالیسی براہ راست جنگ کی نہیں بلکہ تہذیب مسلط کر کے ذہنی غلام بنانے کا پلان زوروں پر ہے، کہ گڑ دیے مرے تو زہر کیوں دیجیے.
تاریخ کے اس نازک دورانیے پر ہمیں باشعور فیصلوں کی ضرورت ہے. سمجھ دار وہ ہے جو وقت پر معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تہہ تک پہنچ کر شعوری فیصلہ کرے. ناسمجھ اور نادان کو دھیرے دھیرے سمجھ آتی ہے، لیکن پھر کیا فائدہ ایسی سمجھ و شعور کا، جب پانی سر سے گزر جائے، اور پھر یہ کہنا پڑے کہ
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت
تبصرہ لکھیے