میں اکثر ڈھلتی شام جھیل کنارے بیٹھ جایا کرتا۔ جھومتے پیڑوں سے چھن کر سسکتی دھوپ خاموش و تنہا جھیل کے بوسے لیتی تو شرمائی ہوئی جھیل کا ارتعاش دلی کیفیت کو مرتعش کر دیتا۔ دور جھیل میں ڈولتی نائو تند و تیز ہوائوں کے زور پر ہچکولے کھاتی، اس میں سوار انسان نہایت معمولی مخلوق محسوس ہوتے۔ فیملیاں مختلف گاڑیوں میں جوق در جوق اپنے ذوق طبع کا ساماں کرنے اس طرف کھنچے چلے آتیں۔ پانی میں خوب اٹھکھیلیاں کرتے۔ کچھ جوان غوطے لگاتے دور تک چلے جاتے اور جیسے ہی دور کسی جانب وہ ابھرے جھیل کے قہقہے میرے دل کو سکون بخشتے۔ بچے بھی کھلکھلا کر تالیاں بجاکر داد دیتے اور کوئی تو اپنے بڑوں کی تقلید پر مائل ہوجاتا مگر دوسرے ہی لمحے جھیل کا پانی اس کے نتھنوں اور منہ کے ذریعے اس کو تنبیہ کرتا تو وہ خوفزدہ ہو کر رونے لگتے۔ میرا دل اس وقت فرط جذبات سے گومگو کی کیفیت سے محظوظ ہوتا۔ مگر افسوس جوان بوڑھے بچے اس خوبصورت جھیل سے اپنے دلوں کو آسودہ کرنے کے بعد جاتے جاتے اسے آلودہ کرجاتے، اور اس کا کنارہ محض پانی کے جوہڑ کی تصویر محسوس ہونے لگتا۔ اس وقت مجھے محسوس ہوتا جیسے جھیل سسک رہی ہو۔ ان سسکیوں کی آواز پر پرندے لبیک کہہ رہے ہوں اور دونوں مل کر اس آلودگی کو آہستہ آہستہ اپنے سے دور کرنے کی ناکام کوشش میں مگن ہوں۔ اس جدوجہد میں درد بھری پانی کی لہریں میں اپنے دل میں محسوس کرتا۔ جیسے اپنی بانہوں میں لاتعداد مخلوق کو سمیٹے یہ جھیل فریاد کر رہی ہو کہ بخدا یہ غلاظت میرے موطنین کو بیمار کردے گی، ان کی زندگیاں پریشان ہوجائیں گی، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ایک دن حقیقی پانی کا جوہڑ بن جائوں جہاں گندے مچھر مکھے مسکن بنا لیں، کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ ہوجائوں۔ پھر تم مجھ سے رومانس کرنے جو روز آجاتے ہو وہ نفرت میں بدل جائے، بخدا یہ نفرت تم نے خود بوئی ہوگی مگر تم الزام مجھ کو دے رہے ہوگے۔
اور میرا دل لرز کر رہ جاتا۔ کیفیت میں بے بسی سی محسوس ہوتی۔ جھیل کے ساتھ خود بھی آنسو بہانے لگتا۔ جب تک اندھیرا اچھی طرح نہ پھیل جاتا میں وہیں بیٹھا رہتا۔ دم توڑتی دھوپ اپنے ساتھ روشنی کی بھی رسوائی کا سامان ہوتی۔ جھیل کی ہلکی ہلکی مرتعش لہریں جیسے انہیں الوداع کہہ رہی ہوں کہ شب بخیر کل ملیں گے، جیسے روشنی کو دلاسہ دے رہی ہوں کہ یہ رات تو بیت جائے گی، کل کا دن پھر تمہارا ہوگا ۔
تبصرہ لکھیے