عزیز و اقارب، دوستوں اور ڈاکٹروں کے درمیان لیٹا مریض، جانکنی میں مبتلا اس انسان کے آس پاس محتلف سوچیں محو پرواز تھیں. کوئی گھڑی دیکھ کر اگلی اپائٹمنٹ کے ٹائم کا حساب لگارہا تھا، کوئی جنازے اور اس کے لوازمات کا، کوئی وصیت میں اپنے حصے کا، کوئی ’’عیادت کو کون کون آیا‘‘ کا حساب لگا رہا تھا. کوئی قبرستان میں پہلے سے دفن عزیزوں کے ساتھ دستیاب قبر کا اندازہ کررہا تھا. تو کوئی اس مریض سے منسلک تلخ و شیریں لمحات سوچ رہا تھا.
مگر یہ بسترِ مرگ پر لیٹا آخری ہچکی کا مسافر کیا سوچ رہا تھا. اس کی کمزور نظریں کیا کھوج رہی ہیں؟
ایک آخری نظر، اس دنیا پر جہاں اس نے زندگی کے نام سے ماہ و سال گزارے، جہاں یہ روتا ہوا بند مٹھیاں آیا تھا، جہاں یہ بڑا ہوا، رشتے سمجھے، جینا سیکھا، رشتے بنائے، زندگی میں حاصل کی دوڑ پر بےتاب دوڑنے کی مشقت کی. جہاں اس سراب سرائے میں اُس نے اپنی مشقت کی دیواریں بنائیں. پر آج وہ مقام آیا، زندگی کا ابدی سچ. موت
ایک ہچکی ایک ٹوٹی پھوٹی سانس اس بدن کی آخری ڈور جو کھبی صحتمند تھا، جو کبھی مغرور تھا، دنیا کو اپنی ٹھوکر پر رکھتا تھا، انا کا بھاری بھرکم بوجھ اس کے کاندھوں پر ہر وقت لدا رہتا تھا.
اس ایک ہچکی میں دستیاب لمحۂ حیات میں اس کے سامنے پوری زندگی پلک جھپکتے نگاہ کے سامنے گزر گئی. ادراک ہوا، فہم ملا کہ بس یہ تو پلک جھپکنے جتنا عرصہ ہی تھا.
کیا زندگی کیسی زندگی؟ بس یہ پلک جھپکنے کا لمحہ ہی زندگی تھا؟
اس ہچکی کے دوران زندگی کا میزان آنکھوں کے سامنے آگیا. کیا پایا؟ کچھ نہیں کہ ہاتھ خالی ہیں. وہ دولت جس کی طلب میں صبح شام ایک کیے. یہاں رہ گئی. وہ طاقت جس کے حصول کےلیے مشقت اٹھائی، یہاں رہ گئی. وہ رشتے جن کے کےلیے یہ سب کیا، یہاں رہ گئے، وہ بدن جس کے اطمینان کےلیے یہ دکان سجائی، لاغر کمزور بستر مرگ پر آخری ہچکی کا ہچکولا کھا رہا ہے.
تو کیا پایا، کیا حاصل کیا. جواب کچھ نہیں، اور آخری ہچکی میں مٹھیاں کھل گئیں. پھیلی ہوئی ہھتیلیاں، خالی ہاتھ سوالی بن گئے.
یہ بندہ خالی ہاتھ جارہا ہے. سوالی جا رہا ہے. اس اعمال کے بھروسے جو پہلے بھیج چکا. حاصل چھوڑ کر جا رہا ہے.
آخری ہچکی نے منظر دھندلا دیا. بندہ اپنے رب کے روبرو ہونے چل پڑا. یہ ادراک ہوا کہ یہ سب سراب ہے، سرائے ہے، اپنا نام بھی یہاں چھوڑ گیا. نام تو ہمھاری پہچان کے لیے تھا. ورنہ اس آخری ہچکی کے بعد وہ بدن نام نہیں میت کہلاتی ہے.
تبصرہ لکھیے