ہوم << مسلمانوں کی حالت ایسی کیوں؟ ماجد عارفی

مسلمانوں کی حالت ایسی کیوں؟ ماجد عارفی

مسلمانوں کی صورتحال اس وقت بہت نازک ہے۔ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی اتنے زیادہ وسائل مسلمانوں کے پاس نہیں رہے جتنے کہ آج ہیں لیکن پھر بھی مسلمان ہر جگہ پِٹ رہا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ہمیں اور عالَم اسلام کے حکمرانوں کو اجتماعی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد عزیز ہے۔ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک مسلم ممالک ایک زنجیر میں پروئے ہوئے ہیں لیکن نتیجے اور حالت کے اعتبارسے ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں۔ دنیا جہاں کی دولت خواہ وہ کسی بھی اعتبار سے ہو مسلمانوں کے پاس ہے۔ سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے بہترین خطے مسلم ممالک کے زیر نگیں ہیں۔ مگر خودغرضی اورلالچ، آپس کا حسد، فساد اور یکجہتی کا فقدان ہمیں ان کے صحیح استعمال سے روکے ہوئے ہیں۔
آج کے جدید دور میں معیشت و تجارت کو کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتاہے اور دنیا میں نوّے فیصد تجارت سمندر کے راستے سے ہوتی ہے۔ آپ دنیا کا نقشہ (Global Map) سامنے رکھیں اور دیکھتے جائیں کہ دنیا کی تمام اہم ترین سمندری شاہراہیں مسلمانوں کے پاس ہیں۔ اہم بندرگاہیں مسلم ممالک کے ہاں ہیں۔ خلیج فارس ہو یا خلیج عدن، خلیج باسفورس ہو یا پھر نہر سوئز غرض دنیا کی ہرقابل ذکر قیمتی چیز ان کے پاس ہے۔ اگر مسلمان متحد ہوکر اپنی اس طاقت کو استعمال کریں تو اپنے دشموں کے ناک میں دم کردیں، لیکن ایسا صرف اس لیے نہیں ہو رہا کہ ان تمام وسائل سے خود فائدہ اٹھانے کے بجائے دوسر ے آقاؤں کے لیے ان کے منہ کھول رکھے ہیں۔ اور اُن ’’آقاؤں‘‘ کی حالت یہ ہے کہ جس’’پلیٹ‘‘ میں وہ کھاتے ہیں اسی میں ’’چھید‘‘ کرتے ہیں۔ دلیل کے لیے پاکستان کے ساتھ ان کا 69 سالہ رویہ ہی کافی ہے۔ وہ سینہ چڑھ کر مسلمانوں سے بات کرتے ہیں کہ اب ان چراغوں میں روشنی نہیں رہی۔
بدقسمتی سے 58اسلامی ملکوں کے سربراہوں میں ایک بھی مرد جری اور مرد بحران ایسا نہیں جو مسلم امہ کی ڈوبتی ناؤ کو پار لگانے کے لیے اکیلے نہ سہی سب مسلم حکمرانوں کو ایک پیج پر اکٹھا کرسکے۔ کوئی تو ’’شاہ فیصل‘‘ سا سامنے آئے، کوئی تو ’’بھٹو‘‘ جیسا لیڈر پیداہو۔ کسی وقت تو کوئی’’صدام‘‘ ایسا جرنیل اٹھے۔ بھٹو، شاہ فیصل یا صدام کے لوگوں سے ذاتی تعلقات کیسے بھی رہے ہوں، ملکی معاملات اورپالیسیوں میں ان پر تنقید بجا، لیکن بحیثیت مجموعی ان میں امت مسلمہ کا درد تھا۔ وہ صحیح معنی میں’’اسلامی بلاک‘‘ بنانے کے خواہاں تھے، لیکن اپنوں کی بے اعتنائی اورغیروں کی سازشوں کا شکار ہوگئے کیونکہ وہ ذہنی اور فکری طورپر مفلوج قوموں کے لیڈر تھے۔ اس کے بعد یہ مفلوج اور اپاہج قوم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کسی’’مسیحا‘‘ کی منتظر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سبق حاصل کرتے۔ ہم دنیا کو بتاتے کہ گزشتہ چودہ سوسالوں میں ہزار سال سے زیادہ ہمیں نے حکومت کی ہے۔ ہمارا ہی راج تھا۔ ہمارے اندر اب بھی وہ غیرت ایمانی، وہ جوش وجذبہ ہے۔ ہم پھر اپنے پاؤں پہ کھڑے ہوں گے۔
کرنے کا کام تو کرنہ سکے،دوسرے ہی رخ پر چل پڑے۔ ہم نے کرپشن کے تلاب بنائے اوراس میں اشنان شروع کردیا۔ رشوت اورحرام خوری کے دریاؤں میں غوطہ زنی ہمارا محبوب مشغلہ بن گئی۔ جھوٹ، بددیانتی، فساد، اقرباء پروری، جہالت، فرقہ واریت، نسلی ولسانی عصبیت اور قتل وغارت گری کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی فتویٰ بازی میں ہم جُت گئے۔ ہم خود ہی مفکر بنے، نظریہ گھڑا، لانچ کیا، ساتھ ہی فتووں کی پٹاری بھی دھرلی کہ جو ہمارے نظریے سے انحراف کرے، وہ کافر۔ اُس کافر کو اس دھرتی ماں پہ جیون کا کوئی حق نہیں۔ جو ہماری رائے سے اختلاف کرے، وہ بھی مشرک و کافر اور جو رائے کو قابل اعتناء نہ سمجھے وہ فاسق۔ جو ہمارے عقیدے اور نظریے پر ایمان لائے وہ پکا سچا اور سُچا مسلمان۔ وہ دودھ کا دھلا۔ اسے سو قتل بھی معاف۔ دوسری طرف ریاست کے سربراہان ڈھنڈورا پیٹتے رہے کہ ہمارے پاس دنیا کے بہترین وسائل ہیں، آؤ ہمارے ہاں آکر سرمایہ کاری کرو۔ لیکن دوسری طرف کشکول گداگری لیے ملکوں ملکوں بھاگتے بھی رہے۔ بھیک کا پیالہ ہر دم ساتھ لٹکائے قوم کے پیسوں پر سیر سپاٹے کو نکل گئے۔
مجھے نہیں پتایہ ساری باتیں ہمارے معاشرے میں کیسے در آئیں لیکن اتنا جانتاہوں کہ باہر سے درآمد نہیں کی گئیں۔ اگر آپ کو اختلاف ہے ( جوکہ آپ کا حق ہے) توآپ میں سے کوئی بتادے۔ کیا رشوت کا سبق ہمیں’’اوباما‘‘ نے پڑھایا؟ حرام خوری کا درس ہمیں’’نیتن یاہو‘‘ نے دیا؟ کیا ’’انجیلامرکل‘‘ کی کلاس میں قتل وغارت گری اور بھائی کو موت کے گھاٹ اتارنے کا سبق دیاگیا؟ کیا ’’پیوٹن‘‘ نے ’’ماسکو‘‘ میں ورکشاپ کروائی تھی کہ بھیک کیسے مانگی جاتی ہے اور چادر سے زیادہ پاؤں کیسے پھیلائے جاتے ہیں؟ کیا ’’فرانسوا الاندے‘‘ نے لیکچر دیا تھا کہ باہم دست و گریباں کیسے ہوا جاتاہے اور دھرتی ماں کے دامن کو کیسے تاتار کیا جاتا ہے؟ اپنے ہی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کے’’گُر‘‘ کیا ’’تھریسامے‘‘ نے بتائے تھے؟ نہیں! ہرگز نہیں۔ یہ چیزیں تو ہماری ہی ایجادات کہلاتی ہیں ا ور بدقسمتی سے ان میں ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
ہم اب بھی بھول بھولیوں میں ہیں۔ بغلیں بجارہے ہیں کہ ہمارے پاس ریکوڈک جیسے ذخائر ہیں، رجوعہ کی زمین سونا اورچاندی اگلنے لگی۔ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ تقدیر بدلنے کے لیے کبھی خود بھی تقدیر لکھنی پڑ تی ہے۔ ہم اپنے کرتوتوں سے خود ہی اپنی تقدیر لکھ رہے ہوتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان کے چند خطے تو کیا، پورا پاکستان بھی سونا، تانبا اور لوہا اگلنا شروع کردے، جب تک غیرت ایمانی اورخودداری نہ ہوگی، یہ ذخائر بھی کچھ کام نہ دیں گے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے سب کے لیے بنائی ہے، یہ کسی مسلمان کی میراث ہے اورنہ کسی غیر مسلم کی جاگیر۔ جو محنت کرے گا اسے ہی پھل ملے گا۔ جو اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرے گا اسی کے دن پھریں گے۔ ہمارے دین اسلام کا بھی یہی اعلان ہے کہ صورتحال اس وقت تک نہیں بدلے گی جب تک ہم خود اپنے آپ کو بدلنے کا تہیہ نہ کرلیں۔ قرآن کا واشگاف الفاظ میں یہ اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت کو نہیں بدلتے جو قوم خود اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہ ہو۔ یہ قرآن کریم کا ارشاد ہے جو آج سے چودہ سوسال پہلے فرمادیاگیاتھا ۔ اگر ہم اپنے کرتوتوں کی وجہ سے پٹ رہے ہو توپھر ہماری پٹائی اس وقت تک ہوتی رہے گی جب تک ہم اپنے کرتوت نہیں چھوڑیں گے۔ مولانا ظفر علی خان نے اسی اصول کو یوں الفاظ کا جامہ پہنایا ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کو خیا ل آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

Comments

Click here to post a comment