ہوم << قومی پرچم کا شکوہ - روبی ہاشم

قومی پرچم کا شکوہ - روبی ہاشم

روبی ہاشم جس طرح مسلمانوں کی اکثریت کے دلوں میں اسلام کی محبت ماہِ رمضان کی آمد پر جاگتی ہے، ٹھیک اسی طر ح اگست کے مہینے میں ہی پاکستانیوں میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ اب تو یوم آزادی بھی سال میں ایک بار آنے والے تہوار کی مانند ہی لگتی ہے۔ اگست کے شروع ہوتے ہی یومِ آزادی کے موقع پر سجائی جانے والی اشیاء جن میں مختلف سائز کے جھنڈے اور جھنڈیاں، انواع و اقسام کے بیجز Badges، کلائی بینڈز، ہئیر بینڈز، قومی پرچم والی شرٹس، ٹوپیاں، کُرتے، شلوار قمیص، وغیرہ وغیرہ کے سٹال لگے نظر آتے ہیں۔
کچھ دن قبل ایک سٹال پر میری ملاقات ہمارے بڑ ے قابل احترام محترم قومی پرچم صاحب سے ہوئی۔ میں نے ان کی خیریت دریافت کی اور گلہ کیا کہ موصوف کیا بات ہے؟ اب ذرا کم کم دکھائی دیتے ہیں، کہیں جناب کی طبیعت تو ناساز نہیں رہتی؟ میں نےگلہ کیا کیا، وہ موصوف تو گویا ادھار کھائے بیٹھے تھے، شکوئووں کا انبار لگا دیا۔ فرمانے لگے کسی بھی ملک کی شناخت میں اس کا قومی پرچم بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے قومی پرچم ہی اس کی شناخت ہوتی ہے اور جو چیز شناخت کا باعث ہو اس کو وہ کبھی بھی کھونا نہیں چاہتا بلکہ اس کی شناخت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ لیکن آج کل خواہ سیاسی پارٹیاں ہوں یا مذہبی، ہر کسی نے اپنے اپنے جھنڈے بنا لیے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے جلسے میں جائو تو ہر طرف سبز رنگ کے پرچم آویزاں ملیں گے۔ تحریک انصاف کے جلسے میں چاروں طرف سبز اور سرخ رنگ کے جھنڈے لہراتے ہوئے نظر آئیں گے۔ پیپلز پارٹی کے جلسے میں سبز ، سیاہ اور سرخ رنگ کے جھنڈوں سے پنڈال سجا نظر آئےگا. اب فرداً فرداً کس کس جماعت کا ذکر کروں غرض کہ جتنی سیاسی و مذہبی جماعتیں، اتنے ہی جھنڈے۔ لیکن سبز ہلالی پرچم کہیں نظر نہیں آتا۔ مجھے تو وہ اپنے پروگراموں میں بلانا تک گوارا نہیں کرتے۔ مجھے تو اب اس بات کا غم کھائے جا رہا ہے کہ آنے والی نسلیں اپنی شناخت تک کھو دیں گی۔ وہ یاد رکھیں گی تو صرف اپنی اپنی پارٹی کا جھنڈا۔ گذشتہ دہائیوں میں بچے، ایک ملی نغمہ گاتے تھے کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں، سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔ پر اب کیا گائیں کہ کس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں؟
میں نے ان کا غصہ کم کرنے کے لیے دلیل دی کہ اتنے جھنڈوں کے آ جانے سے آپ کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ ابھی بھی قومی پرچم صدر پاکستان ، وزیراعظم ہائوس، سینٹ کے چیئرمین ، نیشنل اسمبلی کے اسپیکر، چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس آف شرعی کورٹس، چاروں صوبوں کے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ، صوبوں کے وزراء، چیف الیکشن کمشنرز، ڈپٹی چیئرمین آف سینٹ ، ڈپٹی سپیکر آف قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز، چیف جسٹس آف ہائی کورٹس، ایمبیسڈرز، ہائی کمشنرز آف پاکستان، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز، کی سرکاری رہائش گا ہوں،گاڑیوں، دفتروں نیز سرکاری عمارتوں پر بھی ہمہ وقت نصب ہوتا ہے، اس کے علاوہ اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی ٹرانسپورٹ (جہا زوں،کاروں، کشتیوں) پر بھی صرف قومی پرچم لگایا جاتا ہے۔ اور تو اور جھنڈے والی گاڑیوں کے تو پروٹوکولز ہی بڑے شاہانہ ہوتے ہیں۔ جن راستوں سے جھنڈے والی گاڑی نے گزرنا ہو وہاں تو پہلے سائرن بجاتی ہوئی موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں جلوس کی صورت میں نکلتی ہیں، درمیان میں جھنڈے والی گاڑی اور اس کے پیچھے پھر گاڑیوں کی لمبی قطاریں۔
قومی پرچم نے میری بات ختم ہوتے ہی کہا کہ میں صرف اعلیٰ حکومتی عہدیداروں، وزرائے اعلیٰ، وزراء، چیف جسٹس اور کمشنرز کا نہیں، بیس کروڑ پاکستانیوں کی بھی شناخت ہوں۔ پاکستانی چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہوں، کسی بھی صوبے سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں، سندھی، بلوچی، پنجابی یا پشتو کیوں نہ بولتے ہوں، ان کی شناخت تو پاکستان سے ہی ہے۔ پہلے تو ہر تعلیمی ادارے میں اسمبلی میں قومی ترانہ لازمی پڑھا جاتا تھا اور دوران اسمبلی خاص طور پر قومی ترانہ پڑھتے وقت طالب علم سبز ہلالی پرچم کو مخصوص انداز سے پکڑ تے تھے ۔ طالب علموں کو جھنڈا پکڑنے کے آداب سکھائے جاتے تھے، اور وہ بڑے احترام کے ساتھ اسمبلی میں جھنڈا پکڑ کر کھڑے ہوتے تھے۔ اس کے بعد احترام کے ساتھ لپیٹ کر رکھ کر اس کی مخصوص جگہ پر رکھ آتے، لیکن اب کیا بتائوں، بہت سے خصوصاً پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اول تو اسمبلی ہی نہیں ہوتی، اور اگر ہوتی بھی ہے تو چیدہ چیدہ اساتذہ اکرام اور طالب علم جھنڈا پکڑنے کو اسلوب اور اس کی اہمیت کے بارے میں جانتے ہوں گے اور اکثریت کو تو قومی ترانہ بھی نہیں آتا۔ اب تو پرچم خاص خاص موقعوں پر جیبوں پر لگانے اور لہرانے کے لیے رہ گیا ہے۔ یاد ہے کسی کو کہ قومی پرچم بنانے کے بعد اس کے لیے چند آداب وضع کیے گئے تھے کہ پرچم صبح کے وقت لگائیں اور اسے شام ہونے سے قبل اتار لیں. رات کی تاریکی میں پرچم ہرگز نہ لہرائیں۔ مستول پر لگاتے ہوئے اسے بائیں طرف یعنی سفید حصہ کی جانب سے باندھیں۔ پرچم کو زمین پر نہ گرائیں اور ہر قسم کی گندگی سے محفوظ رکھیں۔ پرچم کو کبھی عمودی رُخ یا اُلٹا کر کے مت لگائیں اور نہ ہی ہلال اور ستارے کا رُخ بائیں جانب ہو۔ صوبائی، فوجی یا دیگر اداروں کے پرچموں کے ساتھ لگانے کی صورت میں قومی پرچم ہمیشہ بلند رکھیں۔ پرچم پر کسی قسم کی تحریر یا تصویر نہ لگائیں، بازار میں فروخت ہونے والے پرچم جن پر تصویر یا تحریر ہو نہ خریدیں۔ آگ یا کسی قسم کے نقصان دہ چیز سے قومی پرچم کو ہمیشہ دور رکھیں۔ پرچم کو زمین میں دفن مت کریں، پرچم والے تابوت کی تدفین سے قبل پرچم کو نکال لیں۔
میں نے ماضی کو کریدتے ہوئے سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ قومی پرچم کا ڈیزئن کس نے تیا ر کیا تھا؟ میری بات سنتے ہی ان کی آنکھوں میں خوشی سے چمک عود آئی اور انھوں نے ماضی کے اوراق الٹتے ہوئے بتایا کہ سید امیر الدین قدوائی نے 1936ء میں مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد اس کے منشور اور مقصدیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا ڈیزائن تیار کیا تھا۔ کیا سوچ تھی ان کی کہ قومی پرچم میں دو رنگ ہوں گے سبز اور سفید، سبز رنگ مسلمانوں کی اکثریت کو ظاہر کرتا ہے جبکہ سفید رنگ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی آزادی سے اپنی زندگیاں گزار سکیں گے. سبز رنگ کے حصے میں سفید رنگ کا چاند اور پانچ کونوں والا ستارہ اس کے روشن و تابناک مستقبل کی غمازی کرتا ہے۔ الگ ملک کا فیصلہ ہوتے ہی قائداعظم محمد علی جناح نے اس کے ڈیزائن کی منظوری دے دی او ر جون 1947ء میں ماسٹر الطاف حسین سے درخواست کی کہ وہ اس کو تیار کریں۔ ماسٹر الطاف حسین نے اسے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا یوں11اگست 1947ء کو پہلا پاکستانی پرچم تیار ہوا اور 15اگست 1947ء کو قائد اعظم خاص طور پر مولانا شبیر احمد عثمانی کو اپنے ساتھ پاکستان کے پہلے پرچم کی پہلی رسم کشائی کے لیے کراچی لے گئے اور مولانا شبیر احمد عثمانی نے تلاوت اور دعا کے بعد اسے لہرایا اور پاک فوج نے اسے سلامی دی۔
سبز ہلالی پرچم لمحے بھر کے لیے خاموش ہوا، ٹھنڈی آہ بھری اور بولا! پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر قیام عمل میں آیا اور یہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے خواب کی تکمیل ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح مسلمانوں کو ایک جھنڈے کے سائے تلے متحد رکھنا چاہتے تھے اور اسی دن کو دیکھنے کے لیے لاکھوں قر بانیاں دی گئی تھیں۔ قومی پرچم کی اہمیت اگر معلوم کرنی ہے تو مقبوضہ کشمیرکے باسیوں سے پوچھو جو 69سال گزر جانے کے باوجود آج تک آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں جو اپنے پیاروں کے تابوتوں کو بھی پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر آخری آرام گاہ تک لے کے جاتے ہیں۔ قومی پرچم کی اہمیت پتہ کرنی ہے تو دیارِ غیر میں بسنے والے پاکستانیوں سے پوچھو، اگر قومی پرچم کی قدر معلوم کرنی ہے تو ترکی کے صدر رجب طیب اردگان سے پوچھو جس نے ایک کانفرنس کے دوران زمین پر گرے ہوئے ترکی کے جھنڈ ے کو احترام کے ساتھ اٹھایا اور پھر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے وطن سے واقعی محبت ہے۔
میں نے انھیں پھر دلیل دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں بھی جشن آزادی کو حب الوطنی کے جذبے سے سرشاربڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں، جگہ جگہ چراغاں کیا جاتا ہے، ہر جگہ عموماً گھروں میں بھی قومی پرچم آویزاں کیے جاتے ہیں اور جھنڈیاں بھی لگائی جاتی ہیں، قومی پرچم والی شرٹس اور سوٹ زیب تن کیے جاتے ہیں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر بھی پرچم لگایا جاتا ہے۔
وہ ایک لمحے کو خاموش ہوئے اور دھیمے لہجے میں بولے، میں تو ہر خوشی غمی میں پوری قوم کے ساتھ شریک ہوتا ہوں جب بھی قوم کسی صدمے سے دوچار ہوئی تو میں بھی قوم کے ساتھ اس کے غم میں برابر کا شریک رہا اور علامتی طور پر سر نگوں رہا۔ اور رہی بات یوم ِ آزادی کو جوش و خروش سے منانے اور گھروں کو جھنڈیوں سے سجانے کی، تو 14اگست گزرنے کے بعد دیکھ لیا۔ جگہ جگہ سڑکوں پر، گلیوں میں، مٹی و کیچڑ سے لت پت اور کوڑے دانوں میں تمھیں وہی جھنڈیاں نظر آ رہی تھیں جنھیں چند روز قبل بڑے جوش و جذبے سے خریدا گیا تھا، اس سے زیادہ دکھ دینے والی کیا بات ہو گی؟ ہماری قوم کی شناخت میں، ہمارے ملک کا نام، پاکستان کا نقشہ، قومی پرچم، قومی ترانہ، کرنسی، قومی زبان سرفہرست ہے، لیکن اپنے کاموں کی وجہ سے ہم اپنے ملک کا نام بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، دہشت گردی، ا غوا، کرپشن، ملاوٹ، بےایمانی، ناجائز منافع خوری ہمارا روزمرہ کا معمول ہے۔ پاکستان کا نقشہ جس کی شہ رگ کشمیر آج بھی لہولہان ہے اور غاصبوں کے قبضے میں ہے. قومی ترانہ کتنے فی صد لوگوں کو زبانی آتا ہے یا اس کی دُھن بجائے جانے یا گانے پر کتنے لوگ احتراماً کھڑے ہوتے ہیں؟۔ 69سال گزرنے کے بعد بھی اردو زبان کر ترویج کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے یہاں تک کہ آئین ِ پاکستان ابھی تک انگریزی زبان میں ہے۔ نقلی نوٹوں پر آزادی مبارک اور عید مبارک چھاپنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ بھلے نوٹ نقلی ہے پر اس پر ہمارے قائد کی تصویر تو اصلی ہے۔
قومی پرچم سے گفتگو اختتام پذیر ہوئی تو اس کے شکوے صد فی صد درست محسوس ہوئے، کیونکہ اگر ہم اپنے قومی پرچم کی عزت نہیں کریں گے تو پھر اقوام عالم بھی اسے روندنے کے درپے ہو جائیں گی۔ لہٰذا آئندہ اس بات کا خیال رکھیں کہ جب بھی کبھی اپنےگھر پر قومی پرچم لگائیں تو شام ہوتے ہی اسے اتار لیں، اور اگر نہیں اتار سکتے تو مصنوعی روشنی کا انتظام کریں تا کہ پرچم اندھیرے میں نہ رہے. اسی طرح اول تو جھنڈیاں مت لگائیں کیونکہ یہ زمین پر گر جاتی ہیں اور اگر لگائی ہیں تو انھیں خراب ہونے سے قبل اتار لیں تا کہ قومی پرچم کی تذلیل نہ ہو۔ پرچم خریدتے وقت اپنے بچوں کو اس کے آداب و اہمیت ضرور بتائیں کیونکہ قومی پرچم کی بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی۔

Comments

Click here to post a comment