لاپتا بچوں کے حوالے سے خوف کی جو فضا قائم ہوچکی ہے، اس نے والدین کو سب سے زیادہ ہراساں کررکھا ہے جبکہ افواہ ساز فیکٹریوں کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ لوگ اپنے مخالفین کو بھی اغوا کار قرار دے کر تشدد کر نے لگے ہیں۔ ذہنی معذوروں اور مزدوروں پر تشدد تو ہوا ہی ہے، لیکن صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ خود روتے ہوئے بچے کے والد اور ماموں بھی مشتعل افراد کے ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اجنبی خاتون پر بھرے بازار میں تشدد کرتے ہوئے کپڑے تک پھاڑ دینے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں۔
اس سارے عمل میں سب سے گھنائونا کردار خود ساختہ دانشوروں نے سوشل میڈیا پر ادا کیا اور دیگر ممالک کے بچوں کی پرانی تصاویر کو لاپتا بچوں کی سمگلنگ کے عنوان سے شیئرکرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا میڈیا حقائق تک رسائی کے لیے جدوجہد کرتا ہے بلکہ اس سلسلے میں متعدد قربانیاں بھی دے چکا ہے، لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بریکنگ نیوز کلچر اور سب سے پہلے ایسکلوزیو خبر کے چکر میں ایسی خبریں بھی رپورٹ ہوجاتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیںہوتا۔ درحقیقت یہی خبریں خوف و ہراس کا باعث بن رہی ہیں اور میڈیا کی ساکھ پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔
ہم کس سمت چل نکلے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ دنوں ایک خوفناک افواہ یہ بھی پھیلائی گئی کہ بچوں کو اغوا کرکے ان کے اعضا بیچے جارہے ہیں۔ دوسری جانب جب اس بارے میں سینئر ڈاکٹرز اور سرجنز سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ایسا سرے سے ہی ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق اعضا کی منتقلی کے لیے پہلے ٹشو میچ کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر ٹشو میچ ہوجائیں تب اعضا کی منتقلی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ اغوا کار پہلے اغوا ہونے والے بچے کے ٹشو میچ کریں اور جب ان کے ساتھی ڈاکٹر گرین سگنل دے دیں تب اس بچے کو اغوا کیا جائے۔ اس سے بھی اہم اطلاع یہ ہے کہ بچے کے اعضا ابھی نمو پا رہے ہوتے ہیں اور انہیں کسی بڑی عمر کے شخص کے جسم میں منتقل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک عام شہری بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ بڑی عمر کے کسی شخص کو بچے کا جگر یا گردہ لگا دیا جائے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ بریکنگ نیوز کے چکر میں گیس سلنڈر پھٹنے کو ـــ’’دھماکے کی آواز سنائی دی ہے‘‘ کی بریکنگ نیوز جاری ہوتی رہی ہے۔ اس بریکنگ نیوز کے چکر میں عموماً تصدیقی عمل سے گزارے بنا خبر چلادی جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ بعد میں تردید بھی نشر ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے خبر سنی ہے، ان میں سے کئی ایک تردید نہیں سن سکے ہوں گے۔ آزاد صحافت ذمہ د ار انہ صحافت کا دوسرا نام ہے۔ اب ہمیں خود سوچنا ہو گا کہ جب تک خبر کی تصدیق نہ ہوجائے تب تک اسے نشر نہ کیاجائے۔
موجودہ دور میں تو خاص طور پر کرائم کا سارا ڈیٹا ہمارے ایک کلک کی دوری پر مجبور ہے۔ پنجاب پولیس کی جانب سے کرائم ریٹ اور دیگر تفصیلات سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر وہاں سے ریکارڈ چیک کرنے کے بجائے سنی سنائی خبر کی بنیاد پر کالم تک لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا رویہ صحافی سے زیادہ پولیس اور جج کا سا ہوتا ہے۔ ہم محض ایک غیر تصدیق شدہ خبر سنتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر پہلے تھانیدار بنتے ہیں اور پھر جج بن جاتے ہیں۔ ہمیں شاید اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کہیں ہمیں انجانے میں استعمال تو نہیں کیا جارہا؟ ہم نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ جن مسائل کا ہم شکار ہیں، ان سے کیسے نکلا جاسکتا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پنجاب بھر میں بچوں کے اغوا کی کہانیاں گردش کر رہی ہیں اور دوسری جانب جن بچوں کے اغوا کا بتایا جاتا ہے، ان کی اکثریت اپنے گھر میں موجود ہے۔ خبروں کے مطابق ان میں سے کوئی ناراض ہو کر گھر سے گیا تو کوئی کسی اور وجہ سے گھر سے بھاگ گیا۔ چند سال پہلے پاکستان مخالف طاقتیں بم دھماکوں کے ذریعے ملک بھر میں خوف کی فضا پیدا کررہی تھیں۔ اب حکومت کی جانب سے کالعدم گروہوں کی کوریج پر پابندی لگائی جاچکی ہے۔ اس پابندی کے بعد ہی ہمیں مسلسل ایسے پروپیگنڈے کا سامنا ہے جو عام شہریوں میں خوف و ہراس پھیلارہا ہے۔ پہلے گدھے کا گوشت بکنے کی داستانیں پھیلائی گئیں اور اب بچوں کے اغوا کی داستانیں مرچ مسالحہ کے ساتھ پھیلائی جا رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ملک میں خوف و ہراس کی فضا کون قائم کررہا ہے اور حقائق کے برعکس خبریں منظم انداز میں کیوں پھیلائی جا رہی ہیں؟ آپ اور ہم نے تو دیگر ممالک کے بچوں کی پرانی تصاویر موجودہ صورت حال کے تناظر میں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہیں کیں۔ ہم نے تو یہ خبر نہیں چلائی کہ بچوں کے اعضا نکالے جارہے ہیں اور ہم تو اپنے مخالفین کو اغوا کار قرار دے کر تشدد کا نشانہ نہیں بنارہے۔ اس کے باوجود یہ سب ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کچھ طاقتیں ملک میں خوف کی فضا قائم کرنے کے لیے انتہائی حد تک منظم ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بیرون ملک بیٹھ کر بھی ایسے کام کیے جاتے ہیں۔
اب ہمیں بھی دیکھنا ہے کہ اگر منظم انداز میں خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے تو کہیں ہم سوشل میڈیا پر ملک مخالف ایسی کسی کمپین کا حصہ تو نہیں بنتے جارہے۔ کہیں ہم انہی طاقتوں کے لیے استعما ل تو نہیں ہو رہے جو کبھی بم دھماکوں کے ذریعے خوف کی فضا قائم کرتی رہی ہیں اور اب اس میں ناکامی کے بعد سوشل میڈیا وار کو فروغ دے رہی ہیں؟
سوال ہمیں خود سے کرنا ہے۔ حقیقت پر مبنی خبریں ہم ایسوں کی پہچان رہی ہیں، لیکن تصدیق کے بنا پھیلائی جانے والی خبریں ہماری ساکھ ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں ۔
تبصرہ لکھیے