ہوم << تاریخ پاکستان کا دوسرا پہلو - دوسری قسط - دائود ظفر ندیم

تاریخ پاکستان کا دوسرا پہلو - دوسری قسط - دائود ظفر ندیم

دائود ظفر ندیم دو قومی نظریے کا جائزہ
پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنا پر وجود میں آیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اسی دو قومی نظریے کو نظریہ پاکستان میں تبدیل کیا گیا۔ اس لیے نظریہ پاکستان کی وضاحت سے پہلے دو قومی نظریے کی تشریح ضروری ہے۔ دو قومی نظریے کا سادہ الفاظ میں یہ مطلب لینا کہ برصغیر میں صرف دو قومیں رہتی تھیں، سچائی کو ایک خاص زاویے سے پیش کرنے کی کوشش ہے. اس کا مکمل سیاق و سباق نہیں بتلایا جاتا۔
دو قومی نظرییے کا پس منظر یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان میں اقلیتیں اس بات سے خوف زدہ تھیں کہ کسی آئینی یقین دہانی کے بغیر متحدہ ہندوستان کی آزادی کی صورت میں اکثریت جمہوریت اور متحدہ ہندوستانی قومیت کے نام پر اقلیتی مذاہب اور لسانی اقوام کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کرے گی۔ برصغیر میں سب سے بڑی اقلیت مسلم اقلیت تھی، اس یئے اکثریت کے جبر کا سب سے زیادہ سامنا مسلمانوں کو کرنا پڑتا تھا۔ مسلمان یہ چاہتے تھے کہ ان کی مسلم شناخت اور اردو زبان کو آئینی تحفظ حاصل ہو۔ چنانچہ اس شناخت کے اسی حق کو دو قومی نظریے کا نام دیا گیا. مسلمان برصغیر میں ایسا خطہ زمین حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ان کو اکثریت کے جبر کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور اپنے عقائد اور اپنی لسانی شناخت کے ساتھ آزادی سے زندگی گزار سکتے۔
مگر بات اتنی سادہ نہیں تھی۔ یہ بھارت کے وفاق سے الگ ایک وفاق کے قیام کی جدوجہد تھی۔ اس کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ آزادی کے بعد ایسے وفاق کو متشکل کرنے کوشش تھی جہاں اقلیتوں کو اکثریت کے جبر کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ جہاں تمام مذاہب کو اپنی مذہبی شناختوں اور تمام لسانی اکائیوں کو اپنی لسانی شناخت اور اپنے پسندیدہ رسم الخط کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع مل سکتا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد سے ایک ایسے وفاق کا قیام عمل میں آیا جس میں وادی سندھ کے بیشتر علاقے شامل تھے اور جنہوں نے مشرقی بنگال کے ساتھ مل کر ایک نیا وفاق تشکیل دیا۔ بدقسمتی میں نوزائیدہ ملک میں بنگالی اکثریت کو بھی اسی جبر کا سامنا کرنا پڑا کہ انھیں بنگالی زبان اور بنگالی ثقافت کے لیے کافی جدوجہد کرنا پڑی۔ موجودہ پاکستان وادی سندھ کی سرزمین پر قائم ایک ملک ہے۔ اس خطہ زمین کی اپنی ہزاروں سالوں کی ایک تاریخ ہے اس لیے جہاں اس سرزمین کی متحدہ ہندوستان سے الگ ہونے کی وجوہات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، اتنا ہی ضروری اس سرزمین کی اپنی جغرافیائی حیثیث اور تاریخ کو پیش نظر رکھنا بھی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ متحدہ ہندوستان میں دو خوف زیادہ نمایاں تھے، متحدہ قومیت کے نام پر اقلیتوں کی مذہبی شناخت کا مسئلہ تھا اور دوسرا متحدہ ہندی زبان کے نام پر اردو رسم الخط اور اس کے فارسی عربی اور ترکی الفاظ کے سرمائے کو خطرہ تھا، اس لیے 1919ء کے لکھنو پیکٹ سے 1946ء کے وزارتی مشن تک مسلمانوں نے پوری کوشش کی کہ انھیں متحدہ ہندوستان میں اپنی مذہبی اور لسانی شناخت برقرار رکھتے ہوئے اپنے اکثریتی علاقوں میں خود مختاری کے ساتھ رہنے کا حق مل جائے۔ مگر کانگرسی رہنمائوں یہ تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے1947ء میں بنگال اور دریائے سندھ میں بسنے والے مختلف صوبوں کو ایک ایسا الگ وفاق تشکیل دینا پڑا جہاں اقلیتی گروہوں کی شناخت کو تسلیم کیا جائے گا اور ان کی زبانوں کو تسلیم کیا جائے گا۔
یہی نظریہ پاکستان تھا کہ ایسے ملک کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں اقلیتی مذہبی گروہوں اور لسانی اکائیوں کو اپنی شناخت کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد یہ نہیں ہوسکا. ہندی کی جگہ اردو کو بالادست بنا کر باقی زبانوں کی اہمیت سے انکار کیا گیا اور متحدہ ہندی قومیت کی جگہ مسلم پاکستانی قومیت کا تصور پیش کر کے دوسری قومیتوں کا تصور مسترد کیا گیا۔ جس کی وجہ سے 1971ء میں ایک مزید نیا ملک بنا، پاکستان کو ایک ایسے وفاق کے طور پر ہی برقرار رکھا جاسکتا ہے جہاں اردو وفاقی رابطے کی زبان ہو اور دوسری تمام زبانوں اور قومیتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہو.
قائداعظم، حیات اور نظریات
قیام پاکستان کی جدوجہد کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور ان کے نظریات کو سمجھے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔ قائداعظم کے بارے میں پاکستانی سیاست میں مختلف فریق مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ ایک فریق ان لبرل اور سیکولر لوگوں پر مشتمل ہے جو قائداعظم کو لبرل اور سیکولر رہنما بنا کر پیش کرتا ہے جس کے پیش نظر ایک ایسا ملک بنانا تھا جو مغربی جمہوریت اور سیکولرازم پر اپنا نظام حکومت تشکیل دے۔ اسی میں دوسرا گروہ کٹر قسم کے قوم پرستوں اور سیکولر لوگوں پر مشتمل ہے وہ اس بیانیے کو فروغ دیتا ہے کہ قائداعظم کی سوچ اور مفروضہ ایک غلط تصور پر مبنی تھا جس نے ایک شدت پسند اسلامی بیانیے کو جنم دیا، اس لیے قیام پاکستان کو کسی طرح بھی درست ثابت نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کو ایک عملی حقیقت کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے جہاں سیکولر اور لبرل بیانیے کو فروغ دیا جائے.
دوسری طرف بھی دو قسم کے گروہ ہیں، ایک وہ لوگ ہیں جو مخصوص حوالوں اور طریقوں سے یہ ثابت کی کوشش کرتے ہیں کہ قائد اعظم ایک خالص مذہبی عالم تھے جو ایک نظریہ پاکستان کے مبلغ تھے اور برصغیر میں ایک مذہبی ریاست کے قیام کی جدوجہد کر رہے تھے، پاکستان کا قیام ایک خالص مذہبی ریاست کے طور پر عمل میں آیا تھا جہاں شریعت کو من و عن نافذ کرنا ہی قائداعظم کی خواہش تھی۔ دوسرا مذہبی گروہوں کا ہے جو قائداعظم کی زندگی میں بھی ان کی سوچ اور طریقے کار سے اختلاف رکھتا تھا اور قیام پاکستان کو غلط قرار دیتا تھا مگر اب وہ گروہ بھی پاکستان کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرتا ہے اور یہاں شریعت کی بالادستی چاہتا ہے۔
تاہم قائداعظم کے افکار اور تقاریر سے رہنمائی لی جائے جو ایک مختلف تصویر سامنے آتی ہے۔ قائداعظم نہ تو ایک سخت گیر مذہبی رہنما تھے جو ایک سخت گیر مذہبی ریاست کے قیام کی جدوجہد کر رہے تھے اور نہ ہی ایک سیکولر اور لبرل شخص تھے جو ایک سیکولر اور لبرل ریاست کا قیام چاہتے تھے۔ قائداعظم ایک اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے مگر ان کی اسلامی ریاست سخت گیر مذہبی لوگوں سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ وہ کسی خاص فرقے یا مسلک کا فہم اسلام نافذ نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ وہ تمام مسالک بلکہ تمام مذاہب کو اپنی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے اور عبادت کرنے کا حق دیتے تھے۔ قائد اعظم کے دو نہایت قریبی ساتھیوں، منڈل اور سر ظفر اللہ خان کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ قائداعظم پاکستان کو تکفیری ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے جہاں کسی مذہبی گروہ کو کافر یا مسلمان ثابت کیا جا سکے بلکہ وہ عبادات اور عقائد کو ہر شخص کا ذاتی معاملہ خیال کرتے تھے اور تمام مذہبی گروہوں کو مکمل مذہبی آزادی دینے کے حق میں تھے تاہم اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ وہ ایک سیکولر یا لبرل ریاست کے خواہاں تھے بلکہ وہ ایک معتدل اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد کررہے تھے جہاں اسلام کی آفاقی اور عدل اجتماعی کی اقدار کو نظام حکومت کا حصہ بنایا جائے اور جہاں اسلام کے بنیادی ماخذوں سے راہنمائی لی جائے۔
قائد اعظم آغا خانی فرقے سے تعلق رکھتے تھے اور وہ مذہبی طور پر ایک وسیع المشرب اور رواداری کے قائل تھے جیسا کہ ان کے مذہبی راہنما آغا خاں محمد شاہ مسلمانوں کے ایک ہمدرد اور خیر خواہ شخص تھے اور کبھی کسی فرقہ واریت کا خود حصہ بنے نہ اپنی کیمونٹی کو کسی فرقہ واریت میں ملوث ہونے دیا۔ چنانچہ قائداعظم میں وہی وسیع المشربی اور رواداری نظر آتی ہے جو ان کے مذہبی راہنما میں تھی۔ ان کی اپنے مذہبی راہنما سے عقیدت اور تعلق میں کبھی کمی نہیں ہوئی مگر قیام پاکستان کے بعد تاریخ دانوں نے اپنا فرض عین سمجھا ہے کہ قائد اعظم کو آغا خان اور ان کے مذہبی خیالات سے الگ کیا جائے اور ان کو ایک اثنا عشری شیعہ یا معتدل سنی بنایا جائے۔
قائداعظم ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں پورے بنگال کے علاوہ پورا پنجاب اور پورا کشمیر شامل ہوتا۔ یعنی وادی سندھ کا تقریبا تمام خطہ شامل ہوتا۔ وہ پاکستان سے غیر مسلموں کے اخراج اور بھارت سے مسلمانوں کی آمد کے حق میں نہیں تھے مگر ایک مخصوص سازش کے تحت بھارت اور پاکستان میں آبادیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ قائد اعظم بنگال اور پنجاب کی تقسیم روکنے اور کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے میں ناکام رہے. اس کا ایک سبب وہ سیاسی رہنما تھے جنہوں نے ان کو بنگالی ہندو رہنمائوں، سکھ رہنمائوں اور شیخ عبداللہ جیسے کشمیری رہنمائوں سے براہ راست تعلق نہیں بنانے دیے۔ قائداعظم کی خواہش کے باوجود پاکستان سے غیر مسلموں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ قائداعظم تمام تر کوشش کے باوجود نواب اسمعیل اور خلیق الزمان کو بھارت میں روکنے میں ناکام رہے تاکہ وہ اتر پردیش اور دوسری مسلمان اقلیتی ریاستوں کے مسلمانوں کو اپنے علاقوں میں رہنے پر آمادہ کر سکیں.
اگر ہم قائداعظم کو تمام تر اخلاص، تدبر اور دیانت کے ساتھ ایک انسان تسلیم کرلیں جن سے بعض غلطیاں بھی ہوئیں تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ ان کو جدوجہد کے آخر میں جو ساتھی میسر آئے، ان میں سے بہت سے مفاد پرست اور موقع پرست لوگ شامل تھے۔ ان کی بڑھتی عمر، بیماری اور ان کے بعض ساتھیوں کے مخصوص سیاسی عزائم کی وجہ سے پاکستان میں ایک مخصوص زبان اور سیاسی فکر کو فروغ دینے والے لوگ سامنے آئے۔ اگر آج ہم پاکستان کو مذہبی جنونیت، فرقہ واریت اور لسانی جھگڑوں سے الگ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قائداعظم کے افکار حوالے سے نئے سرے سے کام کرنے کی ضرورت ہے

Comments

Click here to post a comment

  • بیان کی گئی کسی بھی بات کے مبادیات سے اختلاف نہیں لیکن کچھ وضاحتیں اور تصحیحات ضروری ہیں؛
    قائد آعظم اصلاََ آغاخانی فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ خوجہ برادری سے تعلق رکھتے تھے جو ایک علیحدہ شیعہ فرقہ ہے اور آغاخانی فرقہ کی بہ نسبت اثناء عشری فرقہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ بعدہُ قائد آعظم سنی ہوگئے تھے جس کی تفاصیل کتب میں باآسانی ملاحظہ کی جاسکتی ہیں
    قائد آعظم کسی خاص ماڈل کا یا کسی نئے افکارکی حامل اسلامی طرز حکومت کے داعی نہیں تھے بلکہ وہ اسلام کے اصل نظام کے نفاذ کے خواہاں تھے اسی لیئے اپنی تقاریر میں اکثر خلافت راشدہ کا حوالہ دیا کرتے تھے جس کا مطلب خلافت کا قیام نہیں مگر اصول کا نفاذ ضرور تھا جس میں علیحدہ یہ سے یہ بتانے کی قطعاََ ضرورت نہیں رہتی کہ "وہ کسی خاص فرقے یا مسلک کا فہم اسلام نافذ نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ وہ تمام مسالک بلکہ تمام مذاہب کو اپنی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے اور عبادت کرنے کا حق دیتے تھے" کیونکہ یہ خلافت راشدہ کا محض ایک ادنیٰ سا جزو ہے اور کامل نظام اس سے کہیں وسیع اور بہت آگے کی بات کرتا ہے
    سر ظفراللہ احمدی تھے اور اُس وقت تک احمدی جماعت غیر مسلم قرار نہیں دی گئی تھی اس لیئے اس حوالے سے ان کا ذکر لایعنی ہے
    کسی فرقہ/گرہ کے افکار اگر بین طور پر اسلام کے منافی یا بگشتگی پر ہوں اور باوجود رہنمائی، تنبہ کے وہ جماعت رجوع کرنے سے صریحاََ انکار کردے تو اسی اسلامی طرز حکومت کے تحت جسے قائد آعظم نافذ کرنا چاہتے تھے متفہ علیہ طور پر تمام امور کی تکمیل کے بعد غیرمسلم قرار دیا جاتا ہے جو نصوص سے ثابت ہے، اسے مان لینے میں بھی "کوئی قیامت نہیں آئےگی" نافرمان اور ہٹ دھرم اولاد کو والدین عاق کردیتے ہیں جو عین خلاف شرعیت بھی ہے مگر اسے سماج اور قانون دونوں تسلیم کرتے ہیں وہاں تکفری ہونے کا فتوِیٰ والدین پر کیوں چسپاں نہیں کرتے؟