ہوم << 14اگست یا 11 اگست، قائداعظم کا پاکستان کون سا ہے؟ ناصر فاروق

14اگست یا 11 اگست، قائداعظم کا پاکستان کون سا ہے؟ ناصر فاروق

ناصر فاروق وہ لوگ پرعزم تھے، پراعتماد تھے۔ جو سمجھتے تھے وہی کہتے تھے، اورجو کہتے تھے وہی کرتے تھے۔ ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں سر سید احمد خان نے سب سے پہلے یہ جانا کہ ہندو مسلمان دو مختلف تہذیبیں ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کی اسلامی ریاست کا تصور دیا۔ کانگریس میں مسلمانوں کی فلاح کا امکان نہ پاکرمحمد علی جناح نے مسلم لیگ کا پلیٹ فارم اختیار کیا اور بتایا کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیں اور تہذیبیں ہیں۔ مسلم لیگ بالاتفاق مسلمان ریاست پاکستان قائم کرنے جارہی تھی۔ یہاں یہ کہنا برمحل ہوگا کہ ہندوستان کی تاریخ و ثقافت کے مستند ماہر، اور معروف سائنسدان ابو ریحان البیرونی (973-1048) نے سب سے پہلے گیارہویں صدی کے اوائل میں یہ مشاہدہ کر لیا تھا کہ ہندو اور مسلمان تمام معاملات میں ایک دوسرے سے یکسر جدا فلسفہ حیات کے حامل ہیں۔ البیرونی کا یہی مشاہدہ تھا جو 23 مارچ 1940ء کومحمد علی جناح کے الفاظ اور لب و لہجہ میں عود آیا تھا۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں کے حامل ہیں، مخلتف معاشرتی رسوم اور اداب رکھتے ہیں، متصادم نظریات اور تصورات رکھتے ہیں، دونوں کے طرز زندگی الگ الگ ہیں اور ہزار سال تک ساتھ رہنے کے باجود دونوں کے تعلقات خوشگوار نہ ہوسکے۔
قائداعظم کے تصور پاکستان سے بندھے مہاجروں کے وہ قافلے عجیب تھے، جو صدیوں کے مسکن چھوڑ کر نامعلوم حالات سے ٹکرانے کے لیے نکل پڑے تھے۔ کوئی خاندان کوئی وجود مکمل نہ تھا۔ بکھرے ہوئے خواب اور بچھڑے ہوئے ساتھ تھے۔ عزتیں کنوئیں نگل رہے تھے، بچے نیزوں پر اُچھالے جا رہے تھے۔ وہاں کروڑوں ہندوؤں اور سکھوں کے حصار میں 'پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا للہ' کی سزا پا رہے تھے، یہاں لاکھوں بیل گاڑیوں اور تھکےتھکے قدموں اور پھٹے ہوئے تلووں پر 'ارض پاک' کی مٹی پر مرمٹنے کے لیے چلے جا رہے تھے۔ گو اسلامی ریاست کا درست فہم موجود نہ تھا، گوراست باز منتظمین کا ساتھ میسر نہ تھا، گوحالات گرفت میں نہ تھے۔ گو خامیوں کے بار سے ناتواں کاندھے بوجھل تھے۔ مگر مشیت نے فیصلہ مقدر فرما دیا تھا، اس سے مفر ممکن نہ رہا تھا۔ ہندوستان کے طول و عرض میں لاکھوں لٹیروں، زانیوں، اور کمینہ صفت ظالموں نے مسلمان آبادیوں پر دھاوا بول دیا تھا، سیکولرزم کے پیامبرگاندھی اور ابوالکلام آزاد تماشائے اہل ستم دیکھتے رہ گئے تھے۔ تہذیبی تفریق و منافرت زمینی حقیقت بن کر سیکولرزم کے دعووں پر مونگ دل رہی تھی۔ مشرقی پنجاب، دلی، اور آس پاس کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ یکا یک ٹوٹ پڑے تھے۔ غرض وہ کیا آزمائشیں تھیں، جو اس پاکستان کے لیے سہی نہ گئی تھیں. لوگ آبائی مکانات پیچھے چھوڑ آئے تھے، مستقبل کے امکانات نگاہوں سے اوجھل تھے۔ ہزاروں المناک کہانیاں ان کہی ہوچکی تھیں۔ نیم شب کے ان گنت نالے ان سنے رہ گئے تھے۔ مگر ہجرت کی شب ہجراں پر آزادی کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔
گو عالم اسلام پُرآشوب دور سے گزر رہا تھا۔ گو خلافت عثمانیہ اب قصہ پارینہ تھا۔ گو عالم عرب پر نزاع طاری تھا۔ گو صہیونی گدھ بیت المقدس پر جھپٹنے کو تھے۔ مگر یہ عجیب قافلے باد مخالف کو چیرتے ہوئے ہر طرف سے رواں دواں تھے۔ برصغیرسے عالمگیر سطح پر پاکستان کا مطلب ابھر رہا تھا۔ حالت مرگ میں مسلم امہ کی دھڑکنوں سے صدائے لا الہ آ رہی تھی۔ ہندوستان کے گلی کوچوں سے لہو کی لکیریں ارض الٰہی تک تقدیر نقش کر رہی تھیں۔ پاکستان کا مطلب اور تخلیق، تاریخ پر گزر جانے والا یوں ہی کوئی عام واقعہ نہ تھا۔ یہ وہ منشائے الٰہی تھی، جو تمام تر بےسروسامانی کے باوجود، باوسائل اور منظم شیطانی چال پر بازی لے چکی تھی۔
اسلامی ریاست پاکستان، شیطانی ریاست اسرائیل سے پہلے شہادتوں کی منزلیں طے کرچکی تھی۔ 14 اگست 1947ء کوکلمہ لا الہ کا مطلب منصہ شہود پر آ چکا تھا۔ پاکستان کے محرکات اور مقاصد میں سے جو کچھ اوپر بیان ہوا ہے، کیا حقیقت اس سے کچھ بھی مختلف تھی؟ ہرگز نہیں! بلا شبہ، اپنے نام کے ساتھ مسلم شناخت اختیار کرنے والی مسلم لیگ کی تمام تگ و دو صرف اور صرف مسلمان ریاست ’’پاکستان‘‘ کے قیام کے لیے تھی۔ قائد اعظم نے 1948ء کی ایک تقریرمیں کہا، ’’اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے، آپ (نسلا) جوکوئی بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں، آپ کی شناخت مسلمان کی ہے۔ آپ ایک (مسلمان) قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ نے ایک خطہ زمین حاصل کیا ہے، جوصرف آپ (مسلمانوں) کا ہے، نہ یہ پنجابی کا ہے نہ سندھی کا نہ پٹھان اور نہ ہی بنگالی کا، یہ صرف آپ (مسلمانوں) کا ہے۔‘‘
اب چلتے ہیں 11 اگست کی مبینہ نامعلوم تقریرکی طرف، جسے قائد اعظم محمد علی جناح سے منسوب کیا جاتا ہے، جس سے پاکستان کے سیکولر حضرات کا روزگار لگا بندھا ہے۔ اس تقریرکو ڈھال بنا کر سرمایہ دارانہ سود پرگزر اوقات کرنے والے نام نہاد سرخے اندھا دُھند تلوار چلاتے ہیں، پاکستان کے اسلامی تشخص کا مذاق اڑاتے ہیں، کبھی اسے بخشوبتاتے ہیں، کہیں اسے اسلام کا ٹھیکیدار قرار دے کرفساد کے اصل محرکات سے آنکھیں چُراتے ہیں، طنز و مزاح اور زبان کے چٹخارے چھوڑتے ہیں، مگر سچ اور حق پر ان کی زبانیں لڑکھڑاتی ہیں۔ یہاں 11 اگست کی مبینہ تقریر کے مبینہ متن کا وہ حصہ نقل کرتے ہیں، جسے نظریہ پاکستان سے خائف حضرات نے حفظ کر رکھا ہے۔
’’پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم ناگزیر تھی۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں جانب بہت سے لوگ شاید اس سے متفق نہ ہوں، جنہیں یہ (تقسیم) پسند نہ آئی ہو، مگرمجھے یقین ہے کہ اس کے سوا کوئی حل موجود نہ تھا اور مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں تاریخ اس فیصلہ کے حق میں جائے گی۔ میرے خیال میں متحدہ ہندوستان کا کوئی بھی نظریہ قابل عمل نہیں ہوسکتا تھا، ایسا ہوتا توہم مزید تباہی کی طرف چلے جاتے۔ ہوسکتا ہے وہ (متحدہ ہندوستان) کا نظریہ درست ہو، ہوسکتا ہے (پاکستان) کا نظریہ درست نہ ہو، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اس تقسیم میں دونوں طرف اقلیتوں سے گریز ناممکن تھا۔ اس کے سوا کوئی حل موجود نہ تھا۔ اس صورتحال میں ہم اب کیا کریں گے؟ اگراب ہم ریاست پاکستان کوخوشحال اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں عوام کی خوشحالی پرب ھرپور توجہ دینا ہوگی، بالخصوص غریب اکثریت پر۔ اگر آپ ماضی بھول کر باہمی تعاون کے ذریعہ کام کریں گے تو کامیابی آپ کا مقدر ہوگی۔ اگر آپ اپنا ماضی بدل کراور ساتھ مل کر کام کریں، خواہ کسی بھی کمیونٹی سے آپ کا تعلق ہو، خواہ ماضی میں آپ کے درمیان جو بھی رشتہ رہا ہو، خواہ جس کا جو بھی رنگ ہو نسل ہو اور عقیدہ ہو! تمام شہریوں کے برابر کے حقوق اوریکساں ذمےداریاں ہوں، ایسا ہوا توآپ ترقی کریں گے۔ میں اس معاملہ میں زیادہ زور نہیں دے سکتا۔ ہمیں مل جل کر کام کرنا چاہیے وقت کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کی رنجشیں ختم ہوجائیں گی۔ یوں بھی بطور مسلمان آپ پٹھان، پنجابی، شیعہ، اور سنی وغیرہ وغیرہ ہیں۔ بطور ہندو آپ برہمن، وشواناس، کھتری، بنگالی، مدراسی اور وغیرہ وغیرہ ہیں، یہ ساری تقسیم ختم ہوجائے گی۔ حقیقت میں اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو یہی (مسلمان، ہندو، وغیرہ وغیرہ کی تقسیم) ہندوستان کی آزادی میں اب تک سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ کوئی قوم کسی دوسری قوم پر قابو نہیں پاسکتی، بالخصوص چار کروڑ (مسلمان) روحوں کو غلام بنا کر نہیں رکھا جاسکتا تھا، کوئی آپ کوفتح نہیں کرسکتا تھا، اور اگر ایسا ہو بھی جاتا، تو زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکتا تھا۔ لہٰذا ہمیں اس صورتحال سے سبق سیکھنا چاہیے، آپ آزاد ہیں، آپ مندروں میں عبادت کےلیے آزاد ہیں، مساجد میں جانے کے لیے آزاد ہیں، یا ریاست پاکستان کی کسی بھی عبادت گاہ میں مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لیے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، نسل، یا عقیدے سے ہو، ریاست کوکوئی تعارض نہیں۔‘‘
سیکولر حضرات کے پسندیدہ پہلو قریب قریب اس متن میں سمٹ آئے ہیں۔ ترجمہ میں گو کہ ذرا لچک ہے، مگرمطلوبہ حصہ کا مکمل مفہوم اور مدعا سامنے آچکا ہے۔ اس متن میں موجود بیرسٹر جناح کا موازنہ قائد اعظم محمد علی جناح سے کیا جائے تولب و لہجہ اور نظریات و افکار میں مکمل تضاد نظر آتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا لب و لہجہ پریشان، شکستہ، معذرت خواہانہ، وضاحتی، اور دفاعی کبھی بھی نہیں رہا۔ قائد اعظم کی کوئی تقریر اگر، مگر، اور غیر یقینی کیفیت سے دوچار نہیں رہی۔ اس پورے متن کا انداز اور مواد مکمل جعلسازی کی چغلی کھارہا ہے۔ ممکن ہے تقریر کا بیشتر حصہ درست ہو۔ مگر مذکورہ متن سے صرف دو ہی نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ یکایک 11 اگست کوخدانخواستہ قائد اعظم محمد علی جناح پر مایوسی کا غلبہ ہوا، اور انہوں نے یہ لب و لہجہ اور خیالات ظاہر کیے، اور11 اگست کے بعد اُن کے نظریات دوبارہ پہلے جیسے ہوگئے یا لوٹ آئے۔ دوسرا نتیجہ یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تقریر کا بیشتر حصہ جعلسازی ہے یا پوری تقریر ہی نامعلوم ہے۔
متن کا تجزیہ کیا جائے تومحسوس ہوتا ہے کہ محمد علی جناح قیام پاکستان پر وضاحتیں پیش کر رہے ہیں، اور اس کے لیے تقسیم کی اصطلاح انتہائی دُکھ سے بیان کر رہے ہیں۔ کیا یہ وہی قائداعظم ہو سکتے ہیں جوتحریک پاکستان کے آغاز سے تادم حیات دوقومی نظریہ کے حق میں جدوجہد کرتے رہے ہوں؟ کیا یہ وہی مسٹرجناح ہوسکتے ہیں جنہوں نے کانگریس چھوڑ کر مسلمان ریاست پاکستان کے لیے طویل مقدمہ لڑا؟ کیا یہ وہی محمد علی جناح ہوسکتے ہیں جو سیکولر ہندوستان چھوڑ کر مسلمان پاکستان بنانے کے لیے جان لیوا بیماری تک کوبخوشی گلے لگا لیتے ہوں؟ اس متن میں نظریہ پاکستان کی کامیابی پر غیریقینی کیفیت بھی ظاہر ہوتی ہے، جس کا صدور کم از کم قائداعظم محمد علی جناح جیسے اولوالعزم شخص سے ممکن نہیں۔ اس پورے متن میں مسلمانوں کے لیے خلاف عادت’قوم‘ کے بجائے’کمیونٹی‘ کی اصطلاح کا استعمال ہوا ہے، جوازخود مشکوک ہے۔ اس متن میں ایک جگہ مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں میں علاقائی، نسلی، اور ذات پات کی تقسیم در تقسیم کوحوالہ بنا کر طنز کیا گیا ہے، اور دو قومی نظریہ غیرمؤثراور بےمعنی ظاہر کیا گیا ہے۔ عین اُس عالم میں جب ہندوستان میں مسلمان مظالم میں گھرے تھے اور مہاجروں کے قافلے شہادتوں سے گزر رہے تھے، اس متن کا خالق سُننے والوں کو تسلی دے رہا ہے کہ اگرتقسیم نہ بھی ہوتی، تب بھی ہندوستان کے مسلمانوں پر کچھ قیامت نہ گزرجاتی! سب سے زیادہ چونکادینے والی بات یہ ہے کہ متن کی ابتدا میں تقسیم ہند کے حق میں دیے گئے دلائل متن کے آخر تک دم توڑ جاتے ہیں۔ جس قائد کا پیغام تھا کہ تم سب ایک مسلمان ہو، نہ کہ پنجابی، پٹھان، اور بنگالی وغیرہ۔ وہ اس متن میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ساری تقسیم تحلیل کرنے پر تلا دکھائی دیتا ہے۔ شعیہ سنی تفریق کا ذکر بہت ہی مشکوک ہے۔ غرض تحقیق کا کوئی بھی پہلو اس متن کو قائد اعظم سے جوڑنے میں مددگار و معاون نہیں ہوسکتا۔
اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ یہ تقریر قائداعظم کی ہے، تب بھی سیکولرزم کے لیے اس میں سے کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ اس تقریر میں موجود متن سے اسلامی ریاست کے لیے بھی کسی شرانگیزی کو کشید کرنا ممکن نہیں۔ اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے جوحقوق ہیں، وہ تاریخ کا درخشاں باب ہے۔ کسی بھی دوسری تہذیب، قوم، یا ریاست میں اقلیتوں کے لیے اس کا عشرعشیر حصہ بھی نہیں ہے۔ ہندوستان میں اقلیتیں جس خوف کے سائے میں جی رہی ہیں، اُس خوف کا پاکستان میں ہندو، سکھ، یا عیسائی تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اسلامی ریاست ہرمذہب اور عقیدہ کے پیروکار کوعبادات پر عمل کی مکمل اجازت اور سہولت فراہم کرتی ہے، الایہ کہ نقص امن کا خدشہ پیدا ہوجائے۔ قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان میں اقلیتوں کو ان کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے.
سو 11 اگست کی تقریر کا واویلا بلاجواز ہے، بےبنیاد اور بے پر کا شور و غوغا ہے۔ جن کی تاریخ 11 اگست میں پھنس کر رہ گئی ہے، انہیں 14 اگست تک رسائی کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی تخلیق کا بھارت اور اسرائیل سے پہلے عمل میں آ جانا تاریخ پرگزر جانے والا یوں ہی کا واقعہ نہیں، یہ حکیم الامت کا تصور اور قائداعظم محمد علی جناح کا عزم تھا، جسے مشیت ایزدی نے صادرکیا۔

Comments

Click here to post a comment

  • پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں نہیں آیا۔ یہ بات خلاف واقعہ اور تاریخ کے ساتھ مذاق ہے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ قیام پاکستان کی سرکاری سالگرہ 14 اگست کو منائی جاتی ہے۔ ایسا کیوں کیا جاتا ہے، اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں جنہوں نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا۔
    قائداعظم کا 11 اگست 1947 کا پورا خطاب دوبارہ پڑھیے۔ یہ خطاب چلا چلا کر بتا رہا ہے کہ یہ ایک مکمل سیکولر اور ویسٹرنائیزڈ شخص کے الفاظ ہیں۔ ان الفاظ کو اور کوئی معنی پہنائے ہی نہیں جا سکتے۔