آج کا پاکستان سب کے سامنے ہے۔ ٹی ٹی پی کی قوت عملاً ختم ہوچکی ہے۔ اس کا محفوظ اور مضبوط ترین مستقر شمالی وزیرستان آزاد ہوچکا، قبائلی ایجنسیوں اور خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک تباہ کیا جا چکا۔ پنجاب اور کراچی میں سب سے زیادہ خطرہ تھا کہ یہاں لشکر جھنگوی اور سابق جہادی تنظیموں کے سپلنٹر گروپوں کے سلیپنگ سیل موجود تھے، گن فائٹ کرنے والے جنگجو اور سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں ان کے سہولت کار۔ ڈیڑھ دو برسوں کے دوران ان سب کا صفایا ہوگیا۔ القاعدہ کا نیٹ ورک مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ جو گروپ اس کے لیے کام کرتے تھے، وہ نیست ونابود ہوگئے۔ سکیورٹی اداروں کی اپنی رپورٹس کے مطابق یہ خدشہ تھا کہ آپریشن ضرب عضب کا انتہائی خوفناک اور خونی ردعمل ہوگا اور پنجاب سمیت ملک بھر کے بڑے شہروں میں صورتحال شائد سنبھالی نہ جا سکے۔ اللہ کی مہربانی اورفورسز کی قربانیوں کے باعث ایسا نہیں ہوسکا۔ ہزاروں دہشت گرد پکڑے اور مارے گئے ۔یہ غیر معمولی کامیابی تھی۔ اتنے بڑے اور پھیلے ہوئے نیٹ ورک ، جس کی ایک خاص دینی حلقے میں پذیرائی اور ہمدردی موجود تھی، عوامی سطح پر ان کے سہولت کار بھی کم نہیں تھے، مگر ان سب کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیاگیا۔ کراچی کا جلتا جہنم بڑی حد تک پرسکون ہوگیا۔ شہر کی رونقیں لوٹ آئیں۔ دہشت گرد گروپوں، فسطائی جماعتوں کے مسلح ونگز اور ٹارگٹ کلرز کا بڑی حد تک خاتمہ ہوگیا۔ بھتہ خوری میں نمایاں کمی ہوئی۔
آپریشن ضرب عضب کی کامیابی میں ظاہر ہے سب سے بڑا اور نمایاں ترین حصہ فورسز اور ان کے جوانوں کا ہے۔ عسکری قیادت اس کا کریڈٹ لیتی ہے اور اسے اس کا حق بھی پہنچتا ہے۔ یہ اپنی جگہ درست بات ہے کہ وفاقی حکومت نے آپریشن ضرب عضب کو کامیاب بنانے کے لیے جس نیشنل ایکشن پلان کا ذکر کیا تھا، اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ بعض شقوں پر کچھ عمل درآمد ہوا، مگر کئی شقوں کو تو لگتا ہے کسی نے چھیڑنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ نیکٹا جیسے ادارے کی بات ہوئی، یہ قائم بھی ہوا، فنڈز بھی کچھ ملے، مگر کسی کو علم نہیں کہ آج نیکٹا کیا کام کر رہا ہے، کس قدر فعال یا غیر فعال ہے؟ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس کے نظام کو اس طرح مضبوط اور موثر نہیں بنایا گیا، جیسا کہ ضرورت تھی۔ پولیس اب صوبائی معاملہ ہے، اس لحاظ سے اس ناکامی میں مسلم لیگ ن کے ساتھ پیپلزپارٹی، بلوچستان کے پشتون اور بلوچ قوم پرست اور کسی حد تک خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بھی شامل ہے۔ یہ ناکامیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ، مگر بہرحال سویلین حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی کامیابی کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے۔ سیاسی حکومت نے اس آپریشن کی اونر شپ لی اور آئین میں فوجی عدالتوں کے قیام جیسی ترامیم کیں، جن کا سیاسی معاشروں میں تصور تک نہیں۔ ویسے بھی منتخب سیاسی حکومت کی چھتری کے بغیر یہ پیچیدہ اور حساس نوعیت کا آپریشن کامیاب ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ دوسری طرف حق تو یہ ہے کہ فوج کی کامیابی حکومت اور ریاست کی کامیابی ہے۔ فوج ہوں یا ایجنسیاں یہ ریاستی ادارے ہی ہیں۔ اس نازک موقع پر سول اور ملٹری میں تقسیم کا تاثر دینا دانش مندی نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے سول، ملٹری یکسوئی بہت ضروری ہے۔ ہمارے فوجی جوانوں نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں، ان کا پوری قوم کا احساس ہے، ان شہدا اور غازیوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، مگر ایسا سویلین حکومت اور انتظامیہ کو شرمندہ یا پیچھے کیے بغیر بخوبی احسن طریقے سے ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے۔
پارلیمنٹ میں جس بے رحمانہ انداز سے آپریشن اور فورسز کو نشانہ بنایاگیا، وہ نہایت افسوس ناک ہے۔ نرم سے نرم لفظوں میں جناب اچکزئی کے بیان کو نہایت غیر ذمہ دارانہ اور عاقبت نااندیشانہ کہا جا سکتا ہے۔ سینئر سیاستدانوں سے ایسی بچگانہ، تھڑا ٹائپ جذباتی تقریروں کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مولانا شیرانی کی تقریر سے بھی مایوسی ہوئی۔ جو تقریر انہوں نے فرمائی، اس میں خلا موجود تھے اور انہیں خود اس کا احساس ہونا چاہیے۔ جناب محمود اچکزئی کو بھی سوچنا چاہیے کہ چادر کندھے پر ڈال دینے سے رومن دانشور سسرو کا تاثر نہیں بن سکتا، عملاً ان کا رویہ بروٹس والا تھا، ایک فرق کے ساتھ کہ اس بار نشانہ سیزر نہیں بلکہ پاک فوج تھی۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ ہمیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ نہیں تقسیم کرنا چاہیے، کسی کی حب الوطنی میں شک کرنا بھی مناسب نہیں، مگر محمود اچکزئی جیسے رہنمائوں کی جانب سے اس ملک کے لیے کبھی کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی تو آنا چاہیے۔ کیا ہر بار یہ عملاً پڑوسی ممالک کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے رہیں گے؟ کبھی ان کی شعلہ بیانی، ذہانت اور طراری کا فائدہ ملک کو بھی پہنچنا چاہیے۔ افسوس کہ جناب اچکزئی جب بھی ایسے موقع پر تو لے گئے، ہمیشہ ہلکے ثابت ہوئے۔ بلوچستان میں را کی سازشیں اب جانی پہچانی بات ہے، مگر یہ فقرہ کبھی اچکزئی صاحب اور ان کے ہمنوائوں کی زبان پر نہیں آئے گا۔
آخر میں ایک بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ کوئٹہ میں دہشت گردی کرنے والے بدبخت جو چاہتے تھے، ہم نے وہی کیا۔ ان کی سینکڑوں کارروائیاں ناکام ہوئیں، ایک منحوس لمحہ ہمیں بھاری پڑا، مگر ہم نے آپس میں الجھ کر، الزام تراشی کر کے دہشت گردوں کو سکون ہی پہنچایا۔ وہ ہماری قومی یکسوئی اور یکجہتی پاش پاش کرنا چاہتے تھے، ہم نے انہیں مایوس نہیں کیا۔ اس اعتبار سے ناکامی کسی ادارے یا سویلین حکومت کی نہیں بلکہ من حیث القوم ہمارے اجتماعی رویے کی ہوئی ہے۔ ہم حالت جنگ میں ہیں، غلطیاں بھی ہور ہی ہیں، کمزوریاں بھی موجود ہیں، مگر مایوس ہونے یا حوصلہ ہارنے کے بجائے ان غلطیوں کو سدھارنا، کمزوریوں کو دور کرنا اور دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ ہمارے پاس یہی ایک آپشن ہے۔ قوموں کی زندگیوں میں آزمائشیں آتی ہیں، مگر چیلنج کے لمحات ہی انہیں اٹھاتے اور سربلند کرتے ہیں۔ ہم اپنے شہیدوں کے لہو کے چراغ جلا ئیں گے، اپناآگے بڑھنے کا سفر مگر کھوٹا نہیں کریں گے۔
کون ناکام ہوا ہے؟ محمد عامر خاکوانی

تبصرہ لکھیے