ہوم << کیا قرآن میں سائنس ہے؟ ذی شان وڑائچ

کیا قرآن میں سائنس ہے؟ ذی شان وڑائچ

کافی عرصے سے یہ موضوع گرم ہے کہ آیا قرآن میں سائنس ہے یا نہیں۔ ہمارے بہت سارے نوجوان اس بارے میں پرجوش ہیں اور سائنس کے ذریعے قرآن کی حقانیت ثابت ہوتی ہے۔ محترم ڈاکٹر ذاکر نائک کے انداز تبلیغ کی وجہ سے یہ موضوع بہت زیادہ ہائی لائٹ ہوا ہے۔ دوسرے طرف کچھ ملاحدہ قرآن کی بعض آیات کا حوالہ دے کر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن میں واضح طور پرسائنسی غلطیاں ہیں۔ بلکہ ان کا اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کیوں اتنے غیر سائنسی انداز میں سائنسی حقائق کو بیان کرتا ہے جس کے ایک سے زیادہ معنی ممکن ہیں۔ یہ ایک نازک موضوع ہے اور اس میں توازن رکھنا ضروری ہے۔ اس موضوع کے تمام جوانب کو سمجھنے کے لیے کچھ باتیں عرض خدمت ہیں۔
یہ واضح ہونا چاہیے کہ علم وحی اور سائنس کا علم دو قطعی علیحدہ علمی فریم ورک میں کام کرتے ہیں۔ وحی ایک خبر ہے اور انبیاء کو جو وحی کا تجربہ ہوتا ہے وہ صرف ان کو ہوتا ہے۔ انہیں اس بات کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کسی اور کو وہی تجربہ کرائیں اور نہ ہی خود اپنی مرضی سے ایسا کوئی تجربہ کریں۔ اور پھر یہ بھی ہےکہ انبیاء جن کو وحی کا تجربہ ہوچکا ہے وہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ ہم ان کے وجود کے بارے میں موجودہ علم کے تاریخی تواتر اور تسلسل کی وجہ سے مانتے ہیں۔ دوسری طرف سائنس بنیادی طور پر ایک مشاہداتی اور تجرباتی علم ہے۔ سائنس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے مشاہدات ضروری ہیں اور کسی کے صرف ایک تجربے یا مشاہدے سے سائنس کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرسکتی۔ بلکہ جن علمی بنیادوں پر نتیجہ اخذ کیا گیا ہے، ان کا مشاہدہ دوسروں کو کرانا بھی ضروی ہے۔ اس کو قطعی طور پر سائنس کے اصولوں میں شامل کرنے کے لیے اس کی بنیاد پر پیش کر کے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ پیشن گوئی صحیح ہوتی ہے یا نہیں۔
علمی وحی علمیت کی جس شاخ سے متعلق ہے وہ مادی نہیں بلکہ اس کا تعلق مقصدیت (Teleology)، معاشرت، انسانی رویوں اور انسانی شعور سے ہے۔ علمی وحی انسان کی ان ضروریات کو پورا کرنے لیے ہے۔ اس علم کی ساخت ہی ایسی ہے کہ اس بارے میں سائنسی طریقہ علم (Scientific Method) ناکارہ ہوجاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اسلامی علوم کو اگر دنیاوی علوم کی کچھ شاخوں سے موازنہ کیا جاسکتا ہے تو وہ فلسفے کی شاخ میٹافزکس اور سوشل سائنس سے ہے۔ ان دونوں علوم کا تعلق تجرباتی سائنس سے نہیں ہے۔ میٹافزکس کا تعلق معقولات اور انسانی شعور سے ہے جبکہ سوشل سائنس کا تعلق انسانی رویوں سے ہے جیسے نفسیات، عمرانیات، پولیٹکل سائنس، معاشیات وغیرہ۔
قرآن ہم سے علم غیب پر ایمان کا مطالبہ کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ قیامت تک کے لیے ہے۔ دوسری طرف سائنس حسی مشاہدات کے ذریعے حاصل کیا ہوا علم ہے اور حسی علم ہمارے پانچوں حسیات میں سے کسی سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ قیامت سے پہلے یا ہمارے مرنے سے پہلے قرآن پاک جن چیزوں پر ایمان بالغیب کی دعوت دیتا ہے اس کی حیثیت علم شہادت کی سی بن جائے۔ اس لیے یہ بات تو طے ہے کہ قرآن کے لیے آپ جتنے بھی سائنسی دلائل ڈھونڈ لیں علم غیب بالکل ہی علم شہادہ بن کر ہمارے سامنے نہیں آنے والا۔ اسی طرح اللہ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں اس میں یہ بھی ہے کہ وہ الظاہر اور الباطن ہے۔ یعنی ایک طرف وہ اپنے کمالات سے ظاہر بھی ہے تو دوسری طرف اپنی مخلوقات پر پوری طرح عیاں نہیں ہے۔ اس کی پراسراریت قائم رہنے والی ہے چاہے ہم جتنی بھی سائنسی ترقی کر لیں۔ تو یہ بات ہمیں طے کر لینی چاہیے کہ قیامت سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ وحی سے حاصل شدہ علم سائنسی طریقہ علمی سے’’ثابت ہونا‘‘ شروع ہوجائے۔ ایسا ہونا بذات خود وحی سے حاصل شدہ علم کے خلاف جاتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کی مزید کچھ ’’نشانیاں‘‘ ظاہر ہوں جو ہمارے غافل شعور کو اور زیادہ اپیل کریں۔
کسی نظریے یا عقیدے کو سمجھنا، اسے قبول کرنا، اس سے متاثر ہونا، اس کے لیے قربانیاں دینا حقیقت میں انسانی شعور کا ایک باکمال اور لاینحل مسئلہ ہے۔ آپ بہت سارے نومسلموں کے واقعات پڑھیں گے تو آپ کو حیرت ہوگی کہ کیسے لوگ اس طرح سے مسلمان ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی نے مسلمانوں کو جماعت سے نماز پڑھتا دیکھ لیا اور اس کا تاثر اس کے شعور پر اتنا زیادہ ہوا کہ کچھ عرصے کے بعد وہ مسلمان ہوگیا اور پھر وہ اسلام کا داعی بن گیا۔ کسی نے قرآن کے ایک حصے کا ترجمہ پڑھ لیا اور اس کو اپنی تمام الجھنوں کا جواب مل گیا جبکہ کچھ مسلمان بچپن سے قرآن پڑھ کر بلکہ سمجھ کے بھی بعد میں ملحد ہوجاتے ہیں۔ یہاں پر ہمیں سمجھنا چاہیے کہ انسانی نیت، اس کی طلب، اس کی خواہشات ہمارے شعور پر بالکل ہی الگ طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے۔ کائنات میں پائی جانے والی چیزوں میں انسانی شعور ایک بہت بڑا اسرار ہے۔ کچھ سائنسی دانشوروں کے نزدیک پوری کائنات کو سمجھنے سے زیادہ انسانی شعور کامپلیکس ہے۔ بلکہ ہماری پوری تحقیق کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمارا شعور ہمارے محسوسات کو کس طرح سے معنی پہناتا ہے۔ کسی چیز سے تاثر لینے کا تعلق جمالیات (Aesthetics) سے بھی ہے اور تاحال سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ جمالیات کی یقینی تشریح کر سکے۔ کلام پاک نے جو اپنی بلاغت کی دلیل دی تھی اس نے پورے عرب پر بہت بڑا اثر ڈالاتھا اور کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ اس دلیل کو رد کرسکے۔ اس بلاغت کا تعلق بھی جمالیات سے ہے۔
چونکہ انسانی دماغ ایک حیاتیاتی (Biological) عضو ہے اس لیے دماغ اور ذہن کو سمجھنا سائنس کے دائرے میں آتا ہے۔ خالص مادی سائنسی دانشوروں کا اصرار ہے کہ انسانی شعور صرف انسانی حیاتیاتی دماغ کا کمال ہے۔ یعنی یہی دماغی خلیے (Neurons) کا ایک کامپلیکس جال (Complex Network) ہی انسانی شعور کو تشکیل دیتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں بھی سائنس کوئی حتمی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے کلام پاک میں جو آفاق و انفس کی نشانیاں بیان کی ہیں ان کا مقصد اور انداز سائنسی نہیں ہے۔ بلکہ یہ تذکیر اور دعورت کے لیے انسانی شعور سے اپیل کے لیے بیان کی گئی ہیں۔ جب آپ اُن آیات کی تشریح سائنسی انداز میں بیان کرنا چاہیں تو ان کے ایک سے زیادہ معنی نکل سکتے ہیں۔ یہ معنی پہنانے کا عمل بیان کرنے والے کی ذہنیت یا معلومات پر بھی منحصر ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ پانچ سو سال پہلے ایک شخص کلام پاک کی آیات سے ایک سائنسی نتیجہ اخذ کرے اور پھر آج کے دور میں کوئی اور انہیں آیات سے جدید سائنس کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ اور نتیجہ اخذ کرے۔ تو سائنس کو کلام پاک کی آیات سے جوڑنے یا map کرنے کا کام ایک انسانی عمل ہے اور اس میں غلطیوں کے بہت سارے امکانات ہیں۔ اس لیے یہ مطابقت ظنی ہوگی اور ہم بطور ایمانیات کے اس کو پیش نہیں کرسکتے۔ اس وضاحت سے یہ بات بھی سمجھ جانی چاہیے کہ ’’سائنسی حقائق‘‘ بیان کرتے ہوئے کلام پاک کا انداز اتنا غیر سائنسی کیوں ہے۔ اور یہ بھی سمجھ جانا چاہیے کہ اگر قرآن میں سائنس ہے تو قرآن پڑھ کر کوئی سائنسدان کیوں نہیں بنتا۔
دوسری طرف سائنسی علم ایک تدریجی علم ہے۔ اگرچہ سائنسی دریافتیں مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر ہوتی ہیں لیکن اس میں بہت سارے مفروضات اور تخمینے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً کچھ تجربات کر کے ایک شخص اپنے ذہن میں ایٹمی نظام کا ایک ماڈل بناتا ہے۔ اس ماڈل کی بنیاد پر مزید تحقیق اور مختلف تجربات کرتا ہے۔ جب تک نئی تحقیقیں اور تجربات اس ماڈل کے مطابق ہوتے رہیں گے اس ماڈل کو صحیح مانا جائے گا۔ جب کوئی ایک تجربہ اس ماڈل کے خلاف پڑے گا تو پھر اس نئے تجربے اور پرانے تمام تجربات کو پیش نظر رکھ کر ایک نیا ماڈل بنانا پڑے گا۔ اس قسم کی تدریج اور بےیقینی کی وجہ یہ ہے کہ سائنس اتنی کامپلیکس ہوچکی ہے کہ اس کی اکثر دریافتیں براہ راست انسانی مشاہدے کی بنیاد پر نہیں ہوتیں کہ براہ راست انسانی مشاہدات بہت ہی محدود ہیں۔ مثلاً ذراتی سطح پر یہ طے کرنا کہ الیکٹران کیا چیز ہے، ایک بہت ہی الجھا ہوا مسئلہ ہے کہ یہ بیک وقت ایک ذرے کی خصوصیات بھی رکھتا ہے اور امواج کی بھی اور ہمارا مشاہدہ ان خصوصیات کے اظہار پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح کائناتی سطح پر بگ بینگ کی تشریح ایک سربستہ راز ہے اور ہر آئے دن اس کے بارے میں کوئی نہ کوئی نئی تحقیق نکلتی رہتی ہے۔ یہاں پر واضح ہو کہ سائنس میں پائی جانے والے بےیقینی یا تخمینیت کو بیان کرنے کا مقصد سائنس کی مخالفت یا تحقیر نہیں ہے۔ سائنس تو وہ چیز ہے جس سے تقریباً دنیا کے تمام انسان بے بہا استفادہ کر رہے ہیں۔ اس بات کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کسی چیز کے حتمی اور یقینی طور پر معلوم کرنے کے بارے میں سائنس کی کیا پوزیشن ہے۔ ان وجوہات کے پیش نظر قرآن آیات کو کسی سائنسی تحقیق کے ساتھ جوڑنے کے بارے میں محتاط رہنا ہوگا۔
اب سوال ہے کہ آیا کلام پاک کی تصدیق کے لئے سائنس بالکل ہی ناکارہ ہے؟
اس بارے میں ہمارا خیال ہے کہ احتیاط کے ساتھ یہ سودمند بھی ہے۔ ایک مثال سے بات سمجھا دیتے ہیں۔ ایک میڈیکل پروفیسر میڈیسن کے موضوع پر لیکچر دے رہا ہو اور میڈیکل موضوع تھوڑا بہت انسانی اعصاب کی طرف مڑتا ہے تو وہ پروفیسر انسانی نفسیات پر بھی تھوڑی بہت بات کر لیتا ہے۔ سامعین میں سے ایک ماہرنفسیات مذکورہ پروفیسر کی نفسیات پر مختصر سے بحث سن کر حیران ہوجاتا ہے اور نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ پروفیسر نفسیات کے بارے میں بھی اتنا کچھ جانتا ہے حالانکہ اس کے لیکچر کا موضوع نفسیات تھا ہی نہیں۔
کلام پاک میں انسانوں کے شعور سے اپیل کرنےکے لیے اللہ تعالی اپنی نشانیاں بیان کر رہا ہے اوران نشانیوں کو بیان کرنے کے دوران کوئی بھی ایسی بات بیان نہیں کرتا جو کہ طے شدہ سائنسی حقیقت کے خلاف ہو۔ اور وہ سائنسی حقیقت نزول قرآن کے وقت طے شدہ طور پر معلوم نہیں تھی۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اللہ تعالی علیم و خبیر ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اس نے کیا کچھ پیدا کیا اور قرآن اسی خالق کائنات کا کلام ہے۔ ان باتوں میں قرآن پاک میں بیان شدہ جینیات (Embryology)، بادلوں اور بارش کا نظام (Water Cycle) جیسی کچھ چیزیں شامل ہیں۔ یہ سائنسی حقائق ایسے ہیں کہ آج کے دور میں ان کو سائنسی آلات کے استعمال سے براہ راست مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں محترم ذاکر نائک صاحب بکثرت کائنات کی تخلیق کا نظریہ بگ بینگ تھیوری بھی بیان کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں واضح طور پر ہے کہ پہلے زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے اور یہ بھی کہ اللہ آسمانوں کو پھیلا رہا ہے۔ اگرچہ یہ مطابقت بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن بگ بینگ تھیوری کے بہت سارے اور تقریباً یقینی دلائل کے باوجود یہ صرف ایک تھیوری ہے اس بات کا امکان ہے کہ کل کو کوئی متبادل تھیوری آجائے۔ ایسے میں یہ بھی ہوگا کہ نئی تھیوری کو کسی اور انداز میں قرآن کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی جائے اور اس میں ہم کامیاب بھی ہوجائیں۔ اس وجہ سے اس مطابقت کی حتمیت پر پوری طرح مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ ورنہ پھر یہ مطابقت ایمان کا حصہ بن جائے گی اور کچھ Zealous قسم کے مسلمان دلائل کے باوجود نئی تھیوری کو رد کردیں گے۔ اس بارے میں ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جن چیزوں میں مسلمان قرآن اور سائنس میں مطابقت ثابت کرتے ہیں، وہ علوم اور آئیڈیاز دور جاہلیت میں بھی پائے جاتے تھے اور مسلمانوں نے ان کو وہاں سے نقل کیا ہے۔ اس بارے میں صرف یہ عرض ہے کہ اس قسم کے بہت سارے دوسرے نظریے بھی پائے جاتے تھے جو کہ بعد میں غلط ثابت ہوئے۔ ایسے میں اس دور میں نبیؐ یا صحابہ کو کیسے معلوم ہوا کہ کون سا نظریہ نقل کرنا ہے اور کون سا نہیں؟ اس لیے یہ بات تو یقینی ہے کہ قرآن پاک میں کسی ثابت شدہ سائنسی حقیقت کا بیان اور ان تمام نظریوں کا بیان نہ کرنا جو بعد میں غلط ثابت ہوئے اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کلام علیم و خبیر خالق کائنات کا ہی ہے۔