عقل پر پتھر پڑ جانا تو شاید پتھروں کے زمانے کا محاورہ ہوگا کیوں کہ آج کل تو ہماری عقلوں پر کھانا پڑا ہوا ہے. جی ہاں یہ کھانا کبھی دسترخوان پر چنا جاتا تھا، پھر ترقی کی منازل طے کرتا ہوا ٹیبل پر رکھا جانے لگا، ماڈرن ہوا تو گھر سے باہر ریسٹورانٹ کی زینت بنا اور جب سے الٹرا ماڈرن ہوا ہے تو ٹیلی ویژن پر آنا شروع ہو گیا ہے، اور صرف خواتین ہی نہیں بلکہ بچے اور حضرات سبھی window eating کے چسکے لینے لگے.
چسکا بھی عجیب چیز ہے. جس چیز کا لگ جائے خواہ وہ زبان کو مختلف ذائقوں کا ہو یا نگاہوں کو مختلف ڈیجیٹل سکرین کا. سکرین بھی عجیب چیز ہے، دن بھر اے سی میں بیٹھ کر گھیراؤ جلاؤ دیکھتے رہیں، کبھی گھر میں آگ نہیں لگتی پر خدا لگتی بات یہ ہے کہ اس سے نکلنے والے لچر کلچر نے ہماری اقدار کو جلا کر را کھ کر دیا ہے اور بدبختی ہماری یہ رہی کہ اول تو برائی کو برا سمجھا ہی نہیں اور اگر سمجھا بھی تو محفوظ ہونے کے بجاۓ اسی سے محظوظ ہوتے رہے، یہاں تک کہ بدنصیبی گلے کا ہار بن گئی اور ضمیر و نفس کی جنگ تک ختم ہو گئی. نفس بھی عجیب شے ہے اسے دباؤ تو بہت برا مانتا ہے اور نہ دباؤ تو بہت ہی برا کر گزرتا ہے، جاگتی آنکھوں کو سبز باغ دکھاتا ہے. آنکھیں بھی عجیب ہیں، اپنی ہوں تو ان میں تنکا بھی شہتیر لگتا ہے، جہاں جھکنا چاہیے جھکتی نہیں، نگاہ بلند ہوتی نہیں، دیدہ وری جنم لے کر دیتی نہیں، بند ہونے سے قبل کھل کے دیتی نہیں، جبکہ دوربینی کا عالم یہ کہ اپنی ہی ناک کے نیچے دیکھنے پر دسترس نہیں لیکن دوسرے کے عیب، بخوبی دکھتے بھی ہیں نگاہ میں کھٹکتے بھی ہیں.
دوربین سے یاد آیا کہ کچھ دن قبل نگاہوں نے دھوکہ دینا شروع کیا تو eye test کے لیے جانا پڑا، معاملہ ذرا گڑبڑ لگنے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ ایک قطرہ فی آنکھ ڈال کر تفصیلی معائنہ کرنا چاہتے ہیں، جس کے پندرہ منٹ بعد تک پتلیاں ساکت رہیں گی، نگاہ کو تو کچھ نہ ہوگا لیکن کوئی بھی چیز ٹکرا جاۓ تو آنکھیں سن ہونے کی وجہ سے بے خبری میں بڑا نقصان ہو سکتا ہے، سو میں وہیں کلینک میں باہر کی ہوا اور گرد و غبار سے بچ کر بیٹھی رہی. شروع میں تو واہ سبحان اللہ کرتی رہی کہ کیا نعمت بنائی ہیں آنکھیں بھی رب العزت نے، پھر جب سائیڈ سین دیکھنے میں دقت ہوئی تو دھیان اس سمت گیا کہ کتنی ہی بڑی نعمت تو ان کا بنا کسی مشقت کے گھومتے رہنا بھی ہے، پھر خیال آیا کہ آنکھیں بنا اجازت بلا ضرورت بھی بہت گھومتی ہیں اور ہمیں پرواہ ہی نہیں ہوتی ان کی جوابدہی کی، ندامت ہوئی تو دل ہی دل میں توبہ کی، دل سے توبہ کی تو دھیان دل کی طرف چلا گیا اور یہ بات بڑی دیر تک دل کو دہلاتی رہی کہ جب موت آتی ہے تو دل ساکت ہو جاتا ہے، بالکل اسی حالت میں جس میں انسان مرتا ہے یعنی انسان اگر ناشکری، نافرمانی اور بدمستی کی حالت میں مرگیا تو جب بھی اٹھایا جائے گا،بندہ دل کی اسی کیفیت پر اٹھے گا جس پر موت واقع ہوئی تھی، اس لیے ہمیں اپنے دل کی حالت پر کنٹرول کرنے کی سخت ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان کی بہترین حالت میں اپنے پاس بلائے لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی... پندرہ منٹ؟ جی وہ تو کب کے ختم ہو گئے تھے، لیکن میرے اعصاب، آنکھوں کے ساتھ جو سن ہوئے تھے، وہ اس وقت ضمیر کی بپتا سن سن کر سن ہوئے جا رہے تھے ... ماتم تھا یا فریاد، یہ اب تو نہیں یاد لیکن سوال کچھ یوں تھا کہ صرف ایک قطرہ آنکھوں میں پڑنے سے آپ کو خطرہ پڑ گیا کہ ساکت آنکھوں کو کوئی کنکر نقصان نہ پہنچا دے.
اور دل؟ جس پر دن بھر میں عمر بھر میں جتنی بےشمار بےحساب، بےحیائی، بےایمانی کی برسات ہوتی رہی تو کیا اس کے بعد دل فریز نہیں ہوا ہوگا؟ ابھی ضمیر نے تمہید ہی باندھی تھی کہ عقل آ گئی اور ہنستے ہوئے بولی کہ بابو! دل فریز ہونے کے بعد تو بندہ مر جاتا ہے لیکن ابھی تو اپن زندہ ہے ناں! ضمیر نے بےساختہ جواب دیا کہ بےشک تو رہنا پاس میرے، پاسبان عقل لیکن ابھی ذرا مجھے تنہا ہی چھوڑ دے. یوں تخلیے کے اعلان کے بعد پھر سوالات کی بوچھاڑ کر ڈالی، یہاں تک کہ پھر کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا کہ واقعی ہمارے دلوں کی حالت پرانی خستہ عمارتوں جیسی ہو گئی ہے، اور اب تک احساس صرف اس لیے نہ ہو سکا کہ دل ساکت و جامد تھا، کوئی آیت، حدیث یا واقعہ ہمیں جھنجھوڑ نہ سکا، سب کچھ سنا پڑھا، سرٹیفکیٹس حاصل کیے، حالات تازہ ترین بھی دیکھے، بدترین بھی، پچھلی اقوام کے بھی، تاریخ اور جغرافیہ تو کیا کہنے، سائنس اور قرآن کا تقابل بھی اشرافیہ نے کر لیا پر عقل کی کسوٹی کسی سوٹی سے ڈرنے والی بھی تو ہو، ہاں دل کے زخم رسنے شروع ہو گئے پر کوئی کھری سچائی بار بار hit کرنے کے باوجود بھی دماغ کو کلک کرنے سے قاصر ہی رہی ....کیوں؟ جواب ملا اور شکر ہے فورن ہی ملا کہ جب لوگ برائی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں تو اللہ ان کے دل میں ٹیڑھ پیدا کر دیتا ہے، ایک قرین (شیطان) اس کے ساتھ ہو لیتا ہے جو اس کو ہر برائی آراستہ کر کے دکھاتا اور مطمئن کرتا رہتا ہے، اسی لیے آج کی سب سے بڑی برائی تو یہ ہے کہ ہم ہر برائی کو کرنے سے پہلےکمال ذہانت کے ساتھ ضمیر کو آرام سے اعتماد میں لے لیتے ہیں، کہ اس میں برا کیا ہے، بلا کے optimistic ہو گئے ہیں کہ دین کی سیدھی راہ پر چلنے کے لیے مزے سے ٹیڑھے رستے اپنا لیتے ہیں، برائی کے برے اثرات کو خوش فہمی کے mist میں چھپا لیتے ہیں، نفس شاباشی کے شادیانے اس قدر زور و شور سے بجا رہا ہوتا ہے کہ ضمیر کی آواز دب کر رہ جاتی ہے.
نفس واقعی ہی عجیب ہی ہے، جانتا ہے کہ کل نفس ذائقتہ الموت، لیکن دنیا کے ہر ذائقے ہر لذت کو چکھنے کی ہوس کے ساتھ طفل تسلی دیتا رہتا ہے کہ ابھی بہت وقت باقی ہے، کبھی غفلت کا پردہ سرکے بھی تو سستی کا مارا اسے پھر برابر کر دیتا ہے ..... ابھی تنہائی میں یہی باتیں ہوئی تھیں کہ عقل بنا پوچھے ہی آگئی، لیکن اس بار اتنے احتساب کے بعد ٹھکانے لگ کر آئی تھی اور تازہ ترین واردات قلب کے باعث ایمان کے تابع نظر آرہی تھی ... بولی کہ یوں کڑھتے رہنے سے کیا فائدہ؟ اگر احساس جاگا ہے تو پھر خود میں کوئی تبدیلی کرنی ہی پڑے گی، یوں لاحاصل سوچ کے تانے بانے اور بعد میں بہانے بنانے سے تو کچھ نہیں ہونا، چلو ایک چارٹ بناتے ہیں، اس کے کچھ حصّے کرتے ہیں اور اللہ کو حاضر و ناظر جان کر درست بات اور اپنے غلط رویوں پر نشان لگاتے ہیں، ایک کالم میں لکھیں کہ دین کیا سکھاتا ہے، اللہ کا حکم کیا ہے، معاشی اور معاشرتی حالات، آپ کی صلاحیت اس کی خیر و شر یعنی آج کے معاشرے میں اس کا درست یا غلط استعمال دین کا علم اور کٹھن موڑ پر اسی پر چلنا یا دین کو موڑ توڑ کر اپنی آخرت برباد کرنا... وغیرہ وغیرہ -
بات سمجھ میں آئی اور ادھیڑ بن پھر شروع ہو گئی کہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے وہ تو اٹل ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے لیکن اپنے حصّے کے ہر دوسرے جواب میں ہر دوسرے نشان کے ساتھ دعا نکل رہی تھی ... میرا دل بدل دے ... خدایا فضل فرما دل بدل دے ... میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے ... بدل دے، دل کی دنیا دل بدل دے
تبصرہ لکھیے