ہوم << الحاد بھی مذہب کا مقروض ہے - رضوان اسد خان

الحاد بھی مذہب کا مقروض ہے - رضوان اسد خان

رضوان اسد خان رالف ڈوبیلی (Rolf Dobelli) اپنی کتاب، "The Art of Thinking Clearly" میں لکھتا ہے:
In conclusion: don’t cling to things. Consider your property something that the ‘universe’ (whatever you believe this to be) has bestowed on you temporarily. Keep in mind that it can recoup this (or more) in the blink of an eye.
’’نتیجہ یہ کہ: چیزوں کے ساتھ چمٹ نہ جائیں. اپنے مال و متاع کو ’کائنات‘ (یا جس کچھ پر بھی آپ اس کی جگہ ایمان رکھتے ہیں) کا عارضی تحفہ سمجھیں جو اس نے آپ پر ودیعت کیا ہے. اور ذہن میں رکھیں کہ وہ اسے (یا اس سے بھی زیادہ) چشم زدن میں آپ سے واپس بھی لے سکتی ہے.‘‘
اندازہ کریں کہ یہ ’’عقل پرست‘‘ ایک گونگی بہری کائنات کو تو نعمتیں ’’ودیعت کرنے‘‘ اور ’’واپس چھیننے‘‘ پر قادر سمجھتا ہے مگر کسی خالق و مالک اور رازق ذات پر ایمان لانے کو تیار نہیں. یہاں یہ کہا جا سکتا ہے، بلکہ عین ممکن ہے، کہ یہ محض انداز بیان ہو اور جو چیزیں انسان اپنی کوشش سے حاصل کر لیتا ہے، اسے ’’کائنات کا تحفہ‘‘ اور حادثات و قدرتی آفات کو اسی’’کائنات‘‘ کا واپس چھین لینا کہا گیا ہو. اور مقصد صرف یہ سوچ پیدا کرنا ہو کہ انسان کو اپنے اثاثہ جات کے ساتھ اس قدر جذباتی وابستگی اختیار نہیں کرنی چاہیے کہ ان کے نقصان پر اتنا دلبرداشتہ ہو جائے کہ کسی کام کا ہی نہ رہے.
چلیں ٹھیک ہے، اگر یہ بات ہے تو پھر ہم بھی اب نفسیات کے میدان میں کھیلتے ہیں:
ذرا تصور کریں کہ ایک شخص جو کسی خدا اور روز جزا پر ایمان نہیں رکھتا، جب اپنی محنت سے کچھ کمائےگا تو لامحالہ اسے اپنے زور بازو اور عقل و خرد کا انعام قرار دے گا، اس سے محبت کرے گا اور اس کے نقصان پر غمزدہ ہوگا. اب یہ کہنا تو آسان ہے کہ وہ اس مال و دولت سے کوئی بہت زیادہ لگاؤ نہ رکھے تاکہ کل کو نقصان کی صورت میں اسے زیادہ افسوس اور مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے، لیکن عملی اور نفسیاتی طور پر یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب اسے یہ یقین ہو کہ:
.. اولاً یہ کہ یہ محض اس کی اپنی کاوشوں کا نتیجہ نہیں بلکہ ’’کسی اور‘‘ کی مہربانی بھی اس میں شامل ہے اور
.. دوئم یہ کہ وہی ذات اس پر قادر ہے کہ اس سے یہ سب واپس چھین لے تو دوبارہ عطا کرنے پر بھی قادر ہو یا پھر کسی مزید بہتر صورت میں اس کی تلافی کر دے خواہ اس جہان میں ہو، خواہ اگلے جہان میں.
یوں یہ نفسیاتی حربہ اور تسلی جو انسان کی امید اور قوت کا سرچشمہ ہے، دہریے بھی مذہب سے ہی مستعار لیتے ہیں بالکل اس دعا کی طرح جسے عرف عام میں "Atheist's Prayer" کہا جاتا ہے.

Comments

Click here to post a comment