ہوم << میرا کوئٹہ ۔۔۔ میرے یار - آصف محمود

میرا کوئٹہ ۔۔۔ میرے یار - آصف محمود

شفاء ہسپتال میں چیک اپ کروا رہا تھا کہ کوئٹہ میں قیامت صغریٰ کی خبر ملی۔ کتنے ہی پیاروں، دوستوں اور ہم جماعتوں کے چہرے نظروں میں گھوم گئے۔ یار طرح دار علی احمد کرد ، نصراللہ خان اچکزئی،اسد اللہ کاکڑ ،آصف بلوچ ، ولی خان ، فیصل مینگل۔۔۔اتفاق دیکھیے بلوچستان میں جتنے دوست ہیں سب کے سب وکیل ہیں ۔موبائل فون اٹھایا تو دل سے ہوک سی نکلی۔آج کسی ایک کا نمبر بھی میرے پاس نہیں تھا۔وقت انسانوں کو یوں ہی بدل دیتا ہے۔
یادوں نے ہجوم کیا۔ نصر اللہ خان اچکزئی کے باتیں یاد آنے لگیں ۔یونیورسٹی میں میرے اور اس کے درمیان گولڈ میڈل کا مقابلہ تھا۔ پہلے سمسٹر میں وہ آگے، دوسرے میں میں۔وہ ریگولر طالب علم تھا ۔وہ کلاس میں باقاعدہ نوٹس لیتا تھااور میں کلاسیں بنک کرنے کا عادی ، کلاس میں بیٹھ کر بھی توجہ کہیں اور ہوتی تھی۔امتحانات سر پر آتے تو میں اسی کے نوٹس لے کر تیاری کرتا۔عجیب اعلی ظرف انسان تھا۔خوب یاد ہے ایک سوال کسی طور سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ایک دوست نے بتایا صرف نصر اللہ کے پاس اس روز کی کلاس کے نوٹس ہیں ۔مجھے تھوڑا عجیب سا لگا کہ اب میں اس سے کیسے مانگوں۔صبح پیپر تھا۔رات گئے دروازے پر دستک ہوئی۔سامنے نصر اللہ کھڑا تھا۔کہنے لگا : تمہارے پاس سنا ہے فلاں لیکچر کے نوٹس نہیں ہیں۔میں نے تیاری کر لی ہے یہ لو تم بھی ایک نظر ڈال لو۔شاید کسی دوست نے اسے بتا دیا تھا کہ آصف کے پاس فلاں کلاس کے نوٹس نہیں ہیں۔میں ٹک ٹک اسے دیکھتا رہا۔اس کی جگہ میں ہوتا تو اس کشادہ دلی کا مظاہرہ کبھی نہ کر پاتا۔اس روز سے بے تکلفی کا ایک رشتہ قائم ہو گیا۔وہ محنت کرتا کلاسیں اٹینڈ کرتا نوٹس تیار کرتا۔۔۔۔۔اور میں اس کے نوٹس سے پیپر تیار کر لیتا۔ہمارے درمیان مقابلہ بھلے آ خری سمیسٹر تک تھا لیکن اخلاقی فتح اسی پہلے ہی دن حاصل ہو چکی تھی۔بعد میں گولڈ میڈل بھی اسی کو ملا کہ اسی کا حق تھا۔اس نے یونیورسٹی کا کئی سالہ ریکارڈ توڑ دیا تھا۔
آصف بلوچ، بی ایس او کا وائس چیئر مین اور ہمارا یار۔روز وفاق کے شکوے کرتا۔وفاق نے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ایک روز ہم نے بھی آگے سے دو چار سنا دیں۔اور کہا کہ اچھا ہے بلوچستان ہم سے الگ ہو ہی جائے۔مہر رضا نے جیسے ہی یہ کہا مجھے خوب یاد ہے آصف بلوچ کو جیسے کرنٹ لگ گیا۔غصے میں پھٹ پڑا : ’’ یہ پاکستان کیاپنجابی کے باپ کا ملک ہے جو یوں کہہ رہے ہو ٹوٹ جائے۔یہ میرا ملک ہے۔کیوں الگ ہو جائیں ہم اس سے۔یہ کیا جاگیر ہے کسی کی۔یہ میرا ملک ہے‘‘۔
مہر صاحب کا نسخہ کامیاب رہا۔ یہی نسخہ ہم نے ولی خان پر آزمایا۔انتہائی پیارا دوست تھا۔جب ملاقات ہوتی شکووں کا اظہار کرتا۔ریاست سے ا س کے شکووں میں بہت تلخی تھی۔ہم نے اسے گھیر لیا۔وہ ایک شکوہ کرتا ہم دو کردیتے۔ایک دوست نے کہا اچھا ہے تم بلوچستان والے الگ ہو جاؤ ۔ہم بھی بھارت سے ملنا چاہتے ہیں۔۔ولی خان نے تھوڑی دیر تو برداشت کیا پھر پھٹ پڑا۔’’ تم بھارتی ایجنٹ بھارتی گماشتے ۔ملک کے خلاف بات کرتے ہو شرم نہیں آتی ‘‘جھولی اٹھا کر کہنے لگا خدا میرے پاکستان کو سلامت رکھے ۔
بلوچستان کے دوستوں سے مجھے بہت قربت رہی۔شکوے اور تلخی ان کے ہاں بہت تھی لیکن پاکستان سے محبت میں وہ ہم سے آگے تھے۔علی احمد کرد جب سپریم کورٹ بار کے صدر بنے تو ہم ایک ہی فلائٹ سے اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچے۔رات زلزلہ آیا تھا اور کوئٹہ میں اداسی تھی لیکن دوستوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے مہمان نوازی نہیں کی اس کا حق ادا کر دیا۔میں سیکیورٹی کے حوالے سے ذرا پریشان تھا ۔آصف بلوچ ایک
ایک گلی مجھے ساتھ لے کر پھرتے رہے۔ولی خان اور اسد کاکڑ نے ایک روزگاڑی میں ساتھ بٹھایا اور کوئٹہ سے باہرایک شادی میں لے گئے۔یقین کیجئے ایک لمحے کو محسوس نہ ہوا میں یہاں اجنبی ہوں۔
آج کوئٹہ لہو میں نہا گیا۔مجھے اپنے دوست یاد آنے لگے۔سبھی وکیل تھے ۔لیکن کسی ایک کا نمبر میرے پاس محفوظ نہ تھا۔وقت ہمیں کتنا تبدیل کر دیتا ہے۔ہم ایک دوسرے سے کتنا دور ہو جاتے ہیں۔
بڑی مشکل سے آصف بلوچ کا نمبر ملا۔رابطہ ہوا تو اس وقت آصف ایک دوست کی لاش پر کھڑے تھے اس نے ابھی ابھی دم توڑا تھا۔میں نے کہا آصف بھائی ولی خان ،کرد، نصراللہ ،کاکڑ۔مینگل۔۔ان کی کوئی خبر۔
آصف بلوچ نے ،کہ بہت ہی حوصلے والا آدمی ہے ،کہا: ’’ آصف بھائی آپ کے سارے دوست محفوظ ہیں ۔لیکن یہاں ہمارا تو کوئی دوست باقی نہیں بچا۔بار خالی ہو گئی ہے آصف بھائی‘‘
بلوچستان اور کے پی کے نے اس جنگ میں وہ سارے قرض بھی اتار دیے ہیں جو ان پر واجب بھی نہ تھے۔
اس موقع پرسانحے کے حوالے سے بہت سے سوال بہت سے احباب اٹھا رہے ہیں ۔مجھے ایک اور سوال اٹھانا ہے۔
سوال یہ ہے کیا ہم بلوچستان کے بارے میں ”پنجابی شاؤنزم“ کی بیمار نفسیات سے نکل کر سوچ سکتے ہیں؟کیا ہم نے بلوچستان کے ساتھ انصاف کیا ہے؟ کیا ہمیں بلوچستان کے ساتھ سوتیلے سلوک کے آئینی جواز تراشنا ہیں یا ہم اس شاؤنزم سے باہر آ کر ظرف کا مظاہرہ بھی کر سکیں گے؟
اس شاؤنزم پر میں بہت لکھ چکا ہوں ۔آج اس کی تکرار کا موقع نہیں ۔صرف دلوں پر دستک دینا مقصود ہے۔

Comments

Click here to post a comment