تین فروری ہفتے کے روز صبح صبح اٹھ کر لاہور کے فلیٹیز ہوٹل روانہ ہوئے۔ نگران وزیر پنجاب برائے ٹرانسپورٹ، معدنیات و لائیو سٹاک ابراہیم حسن مراد نے اپنی کامیابیوں کو میڈیا کے سامنے رکھنے کے لیے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ موصوف پنجاب کی نگران کابینہ کا سب سے مستعد وزیر سمجھے جاتے ہیں۔ نوجوان وزیر نے اعداد و شمار کا ڈھیر لگا دیا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، کدھر سے سمیٹیں۔ وزیر صاحب بولتے گئے، ہم سنتے گئے۔ خیال تھا کہ بعد میں موٹی موٹی باتیں جمع کر کے پیکج دے کر جاں خلاصی کرا لینگے۔
وزیر صاحب نے اپنی کامیابیوں کا ڈول بجایا۔ ایسے میں ایک چبھتا ہوا سوال ساتھی رپورٹر کی زباں سے ادا ہوا۔ ساتھی نے وزیر صاحب سے سوال کیا کہ آپ کا اصل مینڈیٹ صاف، شفاف اور پر امن الیکشن کا انعقاد کرانا تھا۔ براہ کرم، اس حوالے سے بھی کچھ اعداد و شمار سامنے رکھ دیں۔ وزیر صاحب جو ابھی تک زمین و آسمان کی قلابے ملا رہے تھے، چپ سادھ لی۔ ایک لمبی آہ بھری اور جب اپنے ضمیر کو مطمئن نہ کرسکیں تو گویا ہوئے کہ "ہماری پوری کوشش ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہو۔ تاہم، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن صاف اور شفاف نہیں ہونگے"۔
بھری محفل میں راز کی بات کہنے پر محفل میں بیٹھا کوئی شخص حیران نہیں تھا۔ طالب علم ہونے کے ناطے میرا خیال تھا کہ یہ سارے معاملات پس پردہ انجام دیے جاتے ہیں۔ تاریخ میں پڑھا تھا کہ اقتدار کو طول دینے کی خاطر مقتدرہ نے جو کیا پس بازار کیا۔ سر بازار محض لوگوں کا غیر محسوس انداز میں استحصال کیا۔ میں جس دور میں شعور کی منزلیں طے کر رہا ہوں وہاں حواریوں نے اپنے عزائم کو مخفی نہیں رکھا۔ یہ میری زندگی کا مشاہداتی دور ہے جس کی بنیاد پر اپنی نسلوں کی تربیت کروں گا۔
درحقیقت پاکستان کا روز اول سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ اپنی ذمہ داری کے سواء سارے کام بخوبی نبھائے جاتے ہیں۔ آج کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے علاؤہ باقی ہر کام ہوتا ہے۔ مادیت اور قومیت کے بت تراشے جا رہے ہیں۔ کہیں سرخ انقلاب کا نعرہ بلند ہوتا ہے تو کہیں سبز بہاؤ کی باتیں کی جاتی ہیں۔ یہ نعرے جن کندھوں پر سوار ہو کر فضاء میں بلند کیے جاتے ہیں، وہاں نا تو اخلاص ہے اور نا ہی دور اندیشی، محض مفاد پرستی کی بنیاد پر استوار ڈگمگاتا وجود ہے۔
پاکستان کے معرض وجود آنے کے بعد قانون ساز اسمبلی بنی۔ اس کا مقصد ملک کو متوازی اور معیاری آئین فراہم کرنا تھا۔ اس کا انجام نظریہ ضرورت پر مرتکز ہوا جس کا خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے۔ پاکستان کو سیکورٹی سٹیٹ قرار دے کر فوج کو امریکہ کا ایک مخصوص ادارہ بنا دیا گیا، جس نے عین وقت پر ہمیں پس پشت ڈال دیا۔ 1965 کے محاذ پر اپنی شروع کی ہوئی جنگ سے خود ہی دستبردار ہونا پڑا۔ کسی بھی عالمی طاقت کو خوش نہیں کر پائے۔ ہر وقت یہ تلوار سر پر منڈلاتی رہی کہ کہیں خطے میں تنہا نہ رہ جائیں۔ اس لیے کسی نہ کسی گود میں پناہ لینا از حد ضروری قرار دیا گیا۔
یہ وہ سوچ اور عمل تھی جس نے اندرونی طرز سیاست میں اپنا عکس دکھایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو دار پر چڑھایا گیا تو ارباب سیاست نے ان کندھوں کو اپنی بقا کے لیے ناگزیر سمجھا جو بذات خود عوام کے کچلے سروں پر تعمیر ہوئی تھی۔ ضیاء الحق نے آٹھ سال تک اپنے آباو اجداد کی روایت برقرار رکھی، پھر اسے آئینی جواز فراہم کرنے کا خیال سوجھا۔ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جعلی ریفرنڈم کرایا۔ ایک دن چچا کے ساتھ باتیں ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا اس ریفرنڈم میں میری ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ دوران ڈیوٹی ڈی سی صاحب آئے اور مجھے بیلٹ بکس بھرنے کا حکم صادر کیا۔ میں نے انکار کیا تو کچھ دیر بعد پورے عملے کے ہاتھ میں بیلٹ پیپرز پکڑا چکے تھے اور عملہ قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ان پر ٹپے لگائے جا رہا تھا۔
ضیاء دور میں غیر جماعتی انتخابات نے نیم آمرانہ حکومت کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مقتدرہ کو ڈرائیونگ سیٹ سے پچھلی سیٹ پر برضا و رغبت آنا پڑا۔ پہلے سے طبقاتی کشمکش کا شکار معاشرے کو فرقے، برادری، مذہب، زبان، اور نسل کی بنیاد پر مزید تقسیم در تقسیم کردیا۔ غیر جماعتی انتخابات کی دلدل سے آج تک وطن عزیز نکل نہیں پایا۔ تب سے لے آج تک ہم نیم آمرانہ دور میں زندگی کے ایام بسر کر رہے ہیں۔ براہ راست آمریت کے خلاف کسی نہ کسی صورت مزاحمت نکل آیا کرتی تھی۔ ایوب خان کے باب میں تو اسے کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ تاہم، نیم آمریت کے اس دور میں متاثر جماعت نے مزاحمت کی کوشش بس اس حد تک کی کہ ہمیں دوبارہ گود لیا جائے۔ اگلی بار ہم تابعداری اور اطاعت سے روگردانی نہیں کریں گے۔
ہم اپنے حصے کا کام کیوں نہیں کر پائے؟ ہم نے حفاظت کی بجائے پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کیوں کیا؟ نگران حکومتوں کی وساطت سے اپنے مخالف بیانیے کو کیوں زمین بوس کرنے کی کوشش کی؟ براہ راست آمریت اس ملک میں دس سال سے زائد ٹھہر نہ سکی۔ نیم آمریت کا دور پچھلے 35 سالوں سے جاری ہے۔ کوئی اس ملک کی مستقبل کے بارے میں سنجیدہ ہو تو بیٹھ کر یہ ضرور سوچیں کہ کیوں اس زہر آلود دور کا خاتمہ ممکن نہیں رہا؟ اب مقتدرہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان حالات میں استحکام اور ترقی ممکن نہیں ہے۔ عدم اعتماد نے الگ سے قوم میں مایوسی کی لہر پیدا کردی ہے۔
اب وقت ہے کہ اپنے حصے اور ذمہ داری کے کام کو سمجھ کر خود کو اس تک محدود کردیا جائے۔ اس سے پہلے کہ شعور کی سطح اس قدر بلند ہو اور آسمان سے طوفان کی صورت اس کا نزول ہو جائے۔ ایسے میں نہ آپ رہیں گے نہ آپکی نیم آمریت۔
تبصرہ لکھیے