حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے کے سردار تھے. بعثت نبوی ﷺ کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد انھیں قبول اسلام کی سعادت حاصل ہوئی . بڑے جلیل القدر صحابی تھے. حضرت بلال رضی اللہ عنہ غلام تھے. وہ بھی مشرّف بہ اسلام ہوئے. انھیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خرید کر آزاد کردیا تھا. اسلام نے اونچ نیچ، اعلی ادنی، اشرف ارذل، ہر طرح کا فرق مٹا دیا تھا اور سب بھائی بھائی بن گئے تھے .
ایک مرتبہ کسی بات پر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ میں جھگڑا ہوگیا. ابو ذر رضی اللہ عنہ نے غصے میں آ کر انھیں 'یا ابن السوداء' (اے کالی کلوٹی عورت کی اولاد) کہہ دیا. انداز بتا رہا تھا کہ اس اظہار میں تحقیر کی آمیزش تھی. بلال رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے شکایت کردی. آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بلاکر سرزنش کی. فرمایا :"اعیّرتہ بامّہ؟ " (کیا تم نے اس کی ماں کا حوالہ دے کر اسے عار دلایا ہے؟ ) آپ نے مزید فرمایا: "انّک امرؤ فیک جاھلیۃ" (تمھارے اندر اب تک جاہلیت کی خو بو باقی ہے؟) (بیہقی فی شعب الایمان). دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا. انھوں نے جاکر حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے معافی مانگی اور جب تک انھوں نے معاف نہیں کردیا، انھیں چین نہیں آیا.
اسلام کا یہی وہ امتیاز تھا جس نے ہر ملک، ہر علاقہ اور ہر سماج کو، جہاں وہ پہنچا، شدید متاثر کیا اور لوگ جوق در جوق اس کے دائرے میں داخل ہو گئے. ہندوستان میں زمانہ قدیم سے طبقاتی نظام رائج تھا. انسانوں کو چار طبقات میں تقسیم کردیا گیا تھا اور چوتھے طبقے (شودر) کو تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا تھا اور اسے جانوروں کی سی حیثیت دے دی گئی تھی. یہاں اسلام پہنچا تو دبے کچلے طبقے نے اس کو اپنا مسیحا اور نجات دہندہ سمجھا اور اس کے دامن میں پناہ لی.
برصغیر میں یہ طبقاتی نظام اب بھی جاری ہے. نچلے طبقات پر مظالم کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں. یہ صورت حال مسلمانوں کو، جو ایک داعی گروہ ہیں، بہت اچھا موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ مساوات، عدل و انصاف اور بھائی چارہ کے بارے میں اسلام کی خالص اور بے آمیز تعلیمات پیش کریں، خود مسلمانوں میں اونچ نیچ کے جو تصورات در آئے ہیں ان کا رد کریں اور اپنے اخلاق و کردار سے مساوات کا عملی نمونہ بھی پیش کریں. اگر وہ ایسا کریں گے تو پھر انھیں اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے لمبی چوڑی تقریریں نہیں کرنی پڑیں گی اور بڑے بڑے پروگرام منعقد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ ان کا عملی نمونہ ہی ہزاروں انسانوں کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا سبب بنے گا
تبصرہ لکھیے