ہوم << جنسی تعلیم اور پاکستانی معاشرہ - مولوی روکڑا

جنسی تعلیم اور پاکستانی معاشرہ - مولوی روکڑا

پاکستان میں جنسی تعلیم کے حامی وہ لوگ ہیں جو قولا خود کو سیکولر کہتے ہیں لیکن عملا وہ جنس تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں تاکہ قبحہ گری مغربی کلچر کو تجارتی مقاصد کے لیے عام اور استعمال کیا جائے۔ طعنے بھی منٹو والے دیتے ہیں کہ ہماری حرکتیں گندی نہیں تمہاری سوچ گندی ہے۔ بنیادی طور پر یہ احساس کمتری کا شکار اور ترسا ہوا طبقہ ہے جو مغرب کے لائف سٹائل کو افورڈ تو نہیں کرسکتا، لیکن اس لائف اسٹائل کے ان پہلوؤں کو اپنانے کا مشتاق ہے جن کے اثرات سے خود مغرب کا خاندانی و معاشرتی نظام شدید مشکلات کا شکار ہے ـ یہ طبقہ اپنے تجارتی مقاصد کے حصول کے لیے پاکستانی معاشرے پر ایسا کلچر مسلط کرنا چاہتا ہے جو یہاں کے معاشرتی ماحول سے مطابقت ہی نہیں رکھتا. مغرب میں اس کے اثرات کیا ہیں؟ اس سے نہ تو ان کو کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی انہوں نے اس کے اثر کو کم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس انتظام کر رکھا ہے؟ یہ طبقہ پاکستان میں ان اقدامات کی سرے سے ضرورت محسوس کرتا ہے نہ ان کی غیر موجودگی سے انہیں کوئی فرق پڑتا ہے۔ ان کو بس مادر پدر آزاد ماحول چاہیے جس میں جنسی ضروریات بالکل اسی طرح پوری کی جائے جس طرح جانور کرتے ہیں.
حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان فری سیکس سوسائٹی ہے نا ویلفیئراسٹیٹ، ایسی کوئی بھی ایجوکیشن پاکستانی بچوں کے لیے بالکل بھی موزوں نہیں ہے جس کے خود مغرب میں حد سے زیادہ منفی اثرات سامنے آئے ہیں، پاکستان اس کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔
سیکولر طبقہ کہتا ہے کہ جنسی تعلیم کی مخالفت اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ مذہب اس سے روکتا ہے۔ اگر مذہب کو کچھ دیر کے لیے سائیڈ پر رکھ دیں تو بھی اس کے منفی اثرات کنٹرول کرنے کا کوئی خاطرخواہ لائحہ عمل حکومت کے پاس ہے نہ اس طبقے کے پاس۔ راقم الحروف نے ہانگ کانگ میں ایک ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں جنسی تعلیم ایک زائد از نصاب کے طور پر رائج تھی۔ سال میں چھ کلاسز ہوتی تھیں۔ عملا تو یہ بھی ایک فری سیکس سوسائٹی ہے (اگرچہ سرعام اس کی اجازت ہے نہ حوصلہ افزائی، حکومت، معاشرے اور خاندان کا خوف موجود ہے مگر یہ سب رکاوٹ نہیں ہیں)، بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کلچر رواج پا رہا ہے، پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اس کلچر کو فروغ دیا ہے، موبائل اور انٹرنیٹ نے نوجوان نسل کو اب وہ مواقع فراہم کر دیے ہیں جس کا کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا جا سکتا تھا۔ اب تو بچے چودہ سال کی عمر میں ہی اپنی جوانی کا جوش دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر عمل بھی کر گزرتے ہیں مگر اس کی وجہ سے بالخصوص لڑکیوں کےلیے بہت سی پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور غیرمحفوظ جنسی عمل کی وجہ سے نوجوان لڑکیوں کا حاملہ ہونا، پھر اسقاط حمل کروانا، یا پھر اسقاط حمل وقت پر نہ کروانے کی وجہ سے نو عمر ماں بن جانا وغیرہ وغیرہ. ہمیں جنسی تعلیم پر جو لیکچر دیے جاتے تھے، ان میں زیادہ تر انھی مسائل پر روشنی ڈالی جاتی تھی، اور یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ غیر محفوظ جنسی عمل کے بجائے حفاظتی طریقوں کا استعمال کرنا کتنا مفید ہے جس سے لڑکی کو اسقاط حمل جیسا عمل نوعمری میں نہیں کروانا پڑے گا۔
پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں شک کی بنیاد پر لڑکیاں قتل کر دی جاتی ہیں، وہاں انھیں یہ راستہ دکھانا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ اگر قتل نہ بھی ہوں تو عملا معاشرے میں ان کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے اور ان کی حیثیت ایک اچھوت جیسی ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی جلدی ماں بن جانا ایک نو عمر لڑکی کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے؟ یہ ایک لڑکی ہی جان سکتی ہے، مگر مغرب میں نہ تو حکومتیں کرپٹ ہیں نہ وہاں کے سسٹم اپنے لوگوں کو ذلیل و خوار کرتے ہیں. وہاں لڑکی نو عمری میں ماں بن جائے جو کہ اکثر ہوتا ہے تو اس کے لیے حکومت کی طرف سے ماہانہ خرچہ، صحت کی نگہداشت اور دوسری بنیادی ضروریات کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے، دوسری طرف پاکستان میں تو ویسے ہی زندگی کے لالے پڑے ہوتے ہیں کجا کہ ان باتوں کا خیال رکھا جائے.
ہماری کلاس میں لو برڈ ان چھ کلاسز کے بعد اپنی حدود کراس کرگئے کیونکہ لڑکوں نے اپنی گرل فرینڈز کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ٹیچر کے بتائے ہوئے حفاظتی طریقے اختیار کرنے سے محفوظ جنسی عمل ہوتا ہے، اس لیے اب ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے. جب ایک دفعہ یہ ہچکچاہٹ ختم ہوجائے تو پھر یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔ اس دوران ہماری ایک اسکول فیلو حاملہ ہوگئی اور لڑکے نے شادی سے انکار کر دیا۔ اس طرح سنگل مادر سامنے آتی ہیں اور مغرب میں یہ رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ سنگل مادر سے پیدا ہونے والے بچے نہ صرف باپ کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم رہتے ہیں بلکہ انھیں کئی قسم کے نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے.
اگر کچھ دیر کے لیے اس بحث سے مذہب اور معاشرے کو نکال دیں تو بھی کیا ہمارے جنس زدہ سیکولر افراد جو جنسی تعلیم اور فری سیکس سوسائٹی کے حامی ہیں، ان کے پاس اس تعلیم کے منفی اثرات سے بچائو کا کوئی ٹھوس پلان موجود ہے؟ کیا حکومت وقت ایسا ویلفیئرسسٹم متعارف کرواسکتی ہے جہاں سنگل مادر کے قتل کا خطرہ نہ ہو، جہاں اس کی زندگی حقارت سے اجیرن نہ بنا دی جائے اور جس کا ماہانہ خرچہ اور صحت و تعلیم کی بنیادی ضرویات حکومت فراہم کرے۔ ہماری سیکولر طبقے سے گزارش ہے کہ پانچ منٹ کی تسکین کی خاطر پورے معاشرے کو تباہ نہ کریں اور مذہب پر پھبتیاں کسنے کے بجائے پہلے اپنا حکومتی اور معاشرتی نظام دیکھ لیں!
مغرب کا ماحول اور ہے، ان کے معاشرتی مسائل اور ہیں، ان کو سامنے رکھ کے وہ بچوں کو جنسی تعلیم دیتے ہیں. ہمارے معاشرتی مسائل اور ہیں ان کو سامنے رکھ کے ہمیں بچوں کو آگاہی دینی ہے. یہاں بچوں کو جنسی تعلیم دینے کے بجائے والدین کو اس بارے میں جگانا اور آگاہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے بچوں کو جنسی تبدیلیوں سے آگاہ کر سکیں. والدین کے لیے ایسی ترتبیتی ورکشاپ کی ضرورت ہے جس انھیں ضروری مسائل سے آگاہی فراہم کی جائے.
بقلم مولوی روکڑا

Comments

Click here to post a comment