ہوم << عظیم سلجوقوں کی آمد - فہد کیہر

عظیم سلجوقوں کی آمد - فہد کیہر

ترکمنستان کے دارالحکومت عشق آباد میں نصب سلجوق سلطنت کے بانی طغرل بیگ کا مجسمہ

ہم نے وسطِ ایشیا کو اِس حال میں چھوڑا تھا کہ ماورا النہر پر قرا خطائی قابض ہو چکے تھے جبکہ خراسان و خوارزم پر محمود غزنوی کا راج قائم تھا۔ لیکن ہم نے محمود کے لشکر کے ساتھ افغانستان اور ہندوستان کا رخ کیا اور پھر ہند کی تقریباً دو صدیوں کی تاریخ بیان کر کے رضیہ سلطان کے نقشِ قدم پر شجر الدُر کے مصر پہنچے۔ اس طویل عرصے میں وسطِ ایشیا میں جو کچھ ہوا، اس نے مسلم تاریخ کا دھارا پلٹ کر رکھ دیا۔

مسلم دنیا میں افراتفری کا زمانہ

گیارہویں صدی کے اوائل کا زمانہ وہ تھا جس میں مسلم دنیا مکمل افراتفری کا شکار تھی۔ بغداد میں عباسی خلیفہ بنی بویہ خاندان کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلی بنا ہوا تھا، دُور تمام تر ہنگاموں سے پرے اسپین میں بھی بنو امیہ کی حکومت کی جگہ طوائف الملوکی لے چکی تھی، سب کی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تھی اور یہاں، وسط ایشیا سے ہندوستان تک غزنویوں کی ملک گیری تھی کہ ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔

محمود غزنوی امتِ مسلمہ کو درپیش کئی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، کم از کم وہ اس خطے میں سیاسی بے یقینی کا تو خاتمہ کر ہی سکتا تھا لیکن اس نے اپنا مقصد کچھ اور بنا لیا۔ ہندوستان میں پے در پے فتوحات حاصل کیں لیکن کوئی مضبوط مرکزی حکومت قائم نہیں کی، مشرق کی سمت قدم اٹھائے تو ایسا کچھ نہ کیا کہ ملتِ اسلامیہ کو کوئی اجتماعی فائدہ پہنچتا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ محمود کے جاتے ہی اُس کی اپنی سلطنت کی چولیں بھی ہل گئیں۔ یہاں تک کہ غزنوی ہمیشہ کے لیے وسطِ ایشیا سے باہر ہو گئے۔ اک ایسی قوم کے ہاتھوں جو بعد میں چین کی سرحد سے لے کر مغرب میں اناطولیہ تک اور شمال میں بحیرۂ ارال کے ساحلوں سے جنوب میں یمن تک، حکمران بنی۔ وہ آخری قوم جس نے مسلم دنیا کے بہت بڑے حصے کو متحد کیا، یہ سلجوق تھے، جسے سلجوقیان یا سلاجقہ بھی کہتے ہیں۔

سلاجقہ کا اصل وطن

سلاجقہ کا اصل وطن بحیرۂ ارال کے شمال کے میدان تھے۔ سامانی دور میں اُن سے فوجی خدمات حاصل کی جاتی تھیں، یہاں تک کہ محمود غزنوی کے دور میں اُنہیں خراسان میں آباد ہونے کی اجازت تک مل گئی۔ گو کہ محمود نے یہ قدم مصلحتاً اٹھایا تھا کیونکہ وہ سلجوقیوں سے خطرہ محسوس کرتا تھا، اس لیے انہیں شہروں اور نواح میں بسا نا چاہتا تھا کہ یہاں سے انہیں با آسانی کنٹرول کیا جا سکے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ فیصلہ غزنویوں کی بہت بڑی غلطی تھی۔

غزنویوں کے مقامی عہدیداروں کی سختی سے نالاں ہو کر، تنگ آمد بجنگ آمد، سلجوقیوں نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور یوں ریاست کے لیے براہِ راست چیلنج بن گئے۔ محمود اور اس کے بعد مسعود غزنوی کے دور میں انہیں مختلف طریقوں سے رام کرنے کی کوشش کی گئی۔ کبھی سختی سے پیش آکر، کبھی صلح اور امن کی باتیں کر کے لیکن غزنوی حکمرانوں کی نااہلی اور کوتاہ اندیشی تھی کہ انہوں نے سلاجقہ کو ہمیشہ بجائے حلیف کے اپنا حریف سمجھا۔ اس کا نتیجہ بالآخر براہِ راست تصادم کی صورت میں نکلا اور جہاں سلاجقہ نے غزنویوں کو ایسی شکست دی کہ پورا خراسان ہی اُن کے ہاتھوں سے نکل گیا۔

وسطِ ایشیا کی فیصلہ کُن جنگ

جنگ دندانقان، ایک مصور کی نظر سے

سن 1040ء میں مرو کے قریب دندانقان کا فیصلہ کن معرکہ ہوا، جس میں عظیم کامیابی نے غزنویوں سے ہمیشہ کے لیے خراسان اور وسطِ ایشیا چھین لیا۔ باوجود اس کے کہ غزنوی لشکر 50 ہزار پر مشتمل تھا جبکہ سلجوق صرف 16 ہزار تھے لیکن کامیابی ایسی حاصل کی کہ مسعود غزنوی اپنا تخت تک میدان میں چھوڑ گیا۔ سلجوق سردار طغرل بیگ اسی تخت پر بیٹھا اور خود کو امیرِ خراسان قرار دیا۔ مرو، نیشاپور اور پھر بلخ اور ہرات جیسے شہر ان کے قدموں میں گرے اور یہیں سے سلجوقیانِ اعظم کا دَور شروع ہوا یعنی The Great Seljuks کا۔

پانچ مشہور سلجوقی خاندان

مختلف سلجوق خاندان اور ان کی حکومتیں

تاریخ میں سلجوق سلسلے کے پانچ خاندانوں نے شہرت پائی: ایک یہی وسطِ ایشیا کے The Great Seljuks یعنی سلجوقیانِ اعظم تھے۔ پھر اس خاندان کی عراق، کرمان، شام اور روم (یعنی اناطولیہ) میں بھی حکومتیں قائم ہوئیں۔

سلاجقہ اعظم کی حکومت 1157ء تک رہی، یعنی ایک صدی سے زیادہ عرصے تک۔ سلاجقہ اعظم کا پہلا دارالحکومت ہمدان تھا، جس کے بعد انہوں نے اصفہان کو مرکز بنایا۔

1092ء میں ملک شاہ کے بیٹوں کے درمیان خانہ جنگی سے اس حکومت کے زوال کا آغاز ہوا تھا، اور کچھ ہی سال بعد صلیبیوں نے اسلامی دنیاکے قلب میں خنجر گھونپ کر بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔

سلاجقہ عراق کی حکومت نسبتاً کم مضبوط تھی، 1194ء تک قائم رہی جبکہ سلاجقہ شام کا خاتمہ 1117ء ہی میں ہو گیا۔

سلاجقہ اعظم کے بعد سب سے مشہور سلاجقہ روم تھے۔ انہوں نے بہت عجیب زمانہ دیکھا۔ پہلے صلیبی لشکروں کا سامنا کیا، کبھی ہارے، کبھی جیتے، حتیٰ کہ 1097ء میں اپنا دارالحکومت نیقیا (موجودہ ازنیق) تک ان کے ہاتھوں کھو بیٹھے۔ حکومت قونیہ منتقل ہوئی اور پھر منگول طوفان کا بھی سامنا کیا۔ یہاں تک کہ باہمی انتشار کا شکار ہو کر سلاجقہ روم ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے لیکن جاتے جاتے سلطنتِ عثمانیہ کا تحفہ ضرور دے گئے۔ جی ہاں! انہوں نے ہی ارطغرل کو وہ جاگیر عطا کی تھی جو بعد میں پھیلتے پھیلتے سلطنت عثمانیہ بن گئی۔

سلجوقی، سب سے مختلف، سب سے جدا

چشمِ فلک نے دیکھا کہ سلجوقیوں میں وہ غارت گری اور لالچ و طمع نہیں تھی، جو اُس زمانے کے دیگر حملہ آوروں میں عام تھی۔ سلجوق باقی سب سے الگ اور سب سے جدا تھے۔ سامانیوں سے غزنویوں تک سب نے پچھلی حکومتوں کے ماتحت کام کیا تھا اور سیاست اور شجاعت کے میدان میں کارنامے دکھائے تھے، لیکن سلجوق تو براہِ راست خانہ بدوشی سے سیاست کے میدانِ کارزار میں اترے۔ ان کے اسی مزاج کی وجہ سے سب نے سلاجقہ کے لیے اپنے دروازے کھول دیے کیونکہ مفتوحہ علاقوں میں بھی ترکوں کا انداز خانہ بدوشانہ ہی تھا۔ انہوں نے شہروں سے کنارہ رکھا، انہیں مقامی اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہی رہنے دیا اور خود خیمہ بستیوں میں رہتے۔

خلیفہ بغداد کی نظر

سلاجقہ کی اسی مختلف فطرت اور طرزِ عمل کی وجہ سے خلیفہ بغداد کی نظر بھی اُن پر گئی اور اسے ایک موقع نظر آ گیا۔ کہنے کو تو وہ خلیفہ تھا لیکن حقیقی راج خاندانِ بنی بویہ کا تھا۔ اس کام کے لیے خلیفہ محمود غزنوی کو بھی آزما سکتا تھا، لیکن شاید قیمت بہت زیادہ ہوتی۔ سلجوق تو محض خلیفہ کے احترام ہی میں ہر طرح کی مدد کرنے کو تیار تھے۔ اس لیے عباسی خلیفہ کو طغرل کی صورت میں ایک بہتر متبادل مل گیا۔ اسے ایک نجات دہندہ کی حیثیت سے بغداد آنے کی دعوت دی گئی اور پھر وسطِ ایشیا سے عراق تک بنی بویہ کی طاقت کے تمام مراکز کا خاتمہ کرتے ہوئے سلاجقہ 1055ء میں بغداد میں داخل ہو گئے۔

اُن کی نظر میں خلیفہ کے احترام کا اندازہ اس خط سے لگایا جا سکتا ہے جو جنگِ دندانقان سے پہلے انہوں نے عباسی خلیفہ قائم بامر اللہ کے نام لکھا تھا تاکہ وسطِ ایشیا پر ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔

"ہم بندگانِ آلِ سلجوق ایک ایسا گروہ ہیں جو ہمیشہ دولت عباسیہ اور حضرت مقدس نبوی کا مطیع و ہوا خواہ، پیہم غزوہ و جہاد میں مشغول اور دائماً حج و زیارت کا فریضہ ادا کرتا رہا ہے۔ ہمارا ایک چچا اسرائیل بن سلجوق نامی تھا، جو ہمارے درمیان بزرگ و محترم تھا، یمین الدولہ محمود بن سبکتگین نے اس کو بے جرم و گناہ گرفتار کر کے ہندوستان کے قلعہ کالنجر میں بھیج دیا اور سات سال قید میں رکھا، یہاں تک کہ وہیں اُس کا انتقال ہوا۔ ہمارے دوسرے ساتھیوں اور رشتہ داروں کو بھی اُس نے قلعوں میں قید رکھا۔ جب محمود کا انتقال ہوا اور اس کی جگہ مسعود تخت پر بیٹھا تو اس نے ملکی مصالح کی طرف توجہ نہ کی اور لہو و لعب اور تماشوں میں مشغول رہا۔ ناچار اعیان و مشاہیرِ خراسان نے ہم سے درخواست کی کہ ہم اُن کی نگہداشت کا کام اپنے ذمّے لیں۔ اُس کے لشکر نے ہمارا مقابلہ کیا۔ کچھ مدت تک ہمارے درمیان ہجوم و رجعت اور شکست و فتح کا معاملہ رہا۔ پایانِ کار خوش قسمتی نے منہ دکھایا اور مسعود نے آخری مرتبہ بذاتِ خود ہمارے مقابلہ پر آ کر شکست کھائی۔ خدائے عز و جل کی مدد اور حضرت مقدس مطہر نبوی کے اقبال سے ہمارا ہاتھ غالب ہوا۔ مسعود شکستہ و خاکسار، با علمِ نگونسار پیٹھ پھیر گیا اور سلطنت ہمارے ہاتھ چھوڑ گیا۔ اِس بخشش و نصرت کا شکر و سپاس بجا لانا ہم نے عدل و انصاف کا مقتضیٰ سمجھا، اور بیداد و جور کے راستے سے کنارہ کش ہو گئے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام دین کے طریقے اور امیر المومنین کے فرمان کے مطابق چلے۔"

بنی بویہ کی پے در پے شکستوں کے بعد عباسی خلیفہ پر بھی واضح ہو گیا تھا کہ اب اصل طاقت اور اقتدار کس کے ہاتھ میں ہے۔ بالآخر 1055ء میں بغداد میں جمعے کے خطبے میں طغرل بیگ کا نام لیا گیا اور رمضان کے آخری عشرے میں خود طغرل بغداد پہنچ گیا۔

ترکمنستان کے دارالحکومت عشق آباد میں نصب طغرل بیگ کا مجسمہ

سلجوق اور عباسی خاندان میں رشتہ داریاں

چند ہی ماہ بعد سلجوقیوں نے عباسی خاندان سے رشتہ بھی قائم کر لیا۔ طغرل کے بھائی چغری بیگ کی بیٹی ارسلان خاتون کی شادی خلیفہ قائم بامر اللہ کے ساتھ کر دی گئی۔ یہاں تک کہ 1060ء میں اپنی بیوی کے انتقال کے بعد طغرل نے خلیفہ کی کسی شہزادی سے نکاح کی خواہش تک ظاہر کر دی۔ اس جرات پر خلیفہ سخت ناراض ہوا لیکن خیر خواہوں کے سمجھانے بجھانے پر بادل نخواستہ راضی ہو گیا اور یوں سلجوق اور عباسی خاندان دو طرفہ مضبوط رشتوں میں بندھ گئے۔ طغرل بیگ کے لیے یہ شادی نیک شگون ثابت نہیں ہوئی کیونکہ چند ہی مہینوں بعد وہ بیمار پڑ کر انتقال کر گیا۔

طغرل کی کوئی اولاد نہیں تھی، اس لیے اُس کے بھائی چغری بیگ کے بیٹے الپ ارسلان کو سلاجقہ اعظم کا نیا حکمران بنایا گیا۔ اُس نے 1071ء تک سلجوق سلطنت کو عروج پر پہنچا دیا۔ کئی ایسی فتوحات حاصل کیں، جنہوں نے نہ صرف مسلم بلکہ عالمی تاریخ کو بھی بدل کر رکھ دیا۔

ملازکرد، ترکی میں نصب الپ ارسلان کا مجسمہ

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment