ہوم << رضیہ اور شجر الدُر، مسلم تاریخ کے دو انوکھے اور المناک کردار

رضیہ اور شجر الدُر، مسلم تاریخ کے دو انوکھے اور المناک کردار

رضیہ اور شجر الدر، ایک مصور کی نظر سے

رضیہ سلطان کا ساڑھے تین سال کا مختصر دور 1240ء میں المناک انداز میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ لیکن صرف دس سال بعد ہندوستان سے دُور اسلامی دنیا کے دوسرے حصے میں ایک ایسے ہی کردار نے جنم لیا، جب ایک اور عورت کسی مسلم سلطنت کی حکمران بنی۔ نام تھا شجر الدُر یعنی موتیوں کا درخت، ایوبی خاندان کے آخری بادشاہ الصالح ایوب کی ملکہ تھیں جو بعد میں عظیم مملوک سلطنت کی بانی بنیں۔

بلاشبہ مسلم تاریخ میں کئی مشہور ملکائیں گزری ہیں، عباسی سلطنت میں ملکہ خیزران اور زبیدہ سے لے کر سلطنتِ عثمانیہ کی خرّم سلطان تک، لیکن بلا شرکتِ غیرے، سلطنت کے سیاہ و سفید کا مالک ہونا، یہ شرف بہت کم مسلم خواتین کو ملا ہے۔ رضیہ سلطان اور شجر الدُر انہی میں سے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں کا دور تقریباً ایک ہی ہے یعنی تیرہویں صدی کا وسط۔

شجر الدُر، کنیز سے سلطانہ تک

شجر الدُر، ایک مصوّر کا تصوراتی خاکہ

شجر الدُر الملک الصالح نجم الدین ایوب کی کنیز تھیں، جب وہ ایوبی سلطنت کے بادشاہ نہیں بنے تھے۔ اُن سے ایک بیٹا خلیل بھی پیدا ہوا، جو بچپن ہی میں فوت ہو گیا۔ لیکن شجر کی زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ وہ تھا جب 1249ء کے اواخر میں سلطان الصالح ایوب زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے اور ساتویں صلیبی جنگ کے لیے آنے والا فرانس کا لشکر جرّار مصر کی سرزمین پر پنجے گاڑ چکا تھا۔ ولی عہد غیاث الدین توران شاہ مصر سے کہیں دُور اناطولیہ میں تھا اور سپہ سالار فخر الدین پہلے فرانسیسی حملے میں ہی شہید ہو گئے یعنی اب مصر کا نہ بادشاہ تھا، نہ ولی عہد اور نہ سپہ سالار۔

اِن بد ترین حالات میں شجر الدُر کے فیصلوں نے مصر کو نہ صرف صلیبی یلغار سے بچایا بلکہ ایک ایسی حکومت کی بنیاد بھی رکھی جس نے اگلی ڈھائی صدی تک مصر اور ارد گرد کے علاقوں پر پوری شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔

شجر الدر کی بنائی گئی مملوک سلطنت، سن 1330ء میں اپنے عروج کے دور میں

شجر الدُر کے کارنامے

شجر الدر کا پہلا کارنامہ تھا سلطان کے انتقال کی خبر کو چھپانا۔ اس نے چند انتہائی قریبی و اہم سرکاری شخصیات کو قائل کیا کہ وہ اس راز کو فاش نہ ہونے دیں، کیونکہ اگر سلطان کی موت کی خبر پھیل گئی تو پھر صلیبیوں کو روکنے والا کوئی نہ ہوگا۔

پھر یہ ظاہر کیا گیا کہ سلطان سخت بیمار ہیں اور کسی سے نہیں مل سکتے۔ یہ راز تین ماہ تک راز ہی رہا، یہاں تک کہ ولی عہد توران شاہ واپس مصر پہنچ گیا۔ تب تک سلطان کے نام سے تمام احکامات شجر الدر ہی جاری کرتی۔ یہاں تک کہ صلیبیوں کے خلاف ایک عظیم فتح حاصل ہو گئی اور شاہِ فرانس لوئی نہم بھی گرفتار ہوا۔

مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کے بعد صلیبی لشکر کے کئی اراکین قاہرہ لائے جا رہے ہیں

اس غیر معمولی کارنامے کے باوجود توران شاہ نے شجر الدر اور مملوکوں کے ساتھ اچھا رویہ اختیار نہیں کیا۔ اُس کے اقدامات سے مملوکوں میں سخت بے چینی پھیلی، یہاں تک کہ اہم جرنیلوں کو اپنی زندگی کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ تب ان مملوک یعنی غلام فوجیوں نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے توران شاہ کا ہی خاتمہ کر دیا۔

یوں ایوبی خاندان کا آخری بادشاہ مارا گیا اور سلطان الصالح ایوب کی واحد نشانی جو رہ گئی، وہ اس کی بیوہ شجر الدر تھی۔ اس صورت حال میں مملوک حکام نے ایک ایسا فیصلہ کیا، جس کی مثال چند سال پہلے ہندوستان کے مسلمانوں نے دی تھی یعنی ایک عورت کو حکمران بنانے کا فیصلہ، یوں شجر الدر سلطانہ بن گئیں۔ اس کی کنیت امِ خلیل خطبوں میں پڑھی جاتی اور سکّوں پر کندہ ہوئی، بالکل رضیہ سلطان کی طرح۔

شجر الدر کے عہد کا ایک دینار

سلطانہ سے ملکہ تک

شجر الدر رضیہ سلطان کی طرح ایک خوبصورت، حوصلہ مند، بہادر اور دلیر عورت تھی۔ ایسے وقت میں جب بڑے بڑے سالاروں کا پتّہ پانی ہو گیا تھا، اس نے ملک کو صلیبی یلغار سے بچایا، اک بحرانی دور میں سلطنت کو سنبھالا، لیکن یہ خنّاس ہندوستان کی طرح وہاں بھی موجود تھا کہ آخر عورت کیسے حکمران ہو سکتی ہے؟

باوجود اس کے کہ رضیہ کے مقابلے میں شجر الدر باپردہ رہتی تھی، کھلا دربار نہیں لگاتی تھی، سلطان کے تخت پر نہیں بیٹھتی تھی اور نہ ہی عوام میں نکلتی تھی۔ تمام سرکاری معاملات وہ زنان خانے ہی سے چلاتی تھی لیکن مخالفت کرنے والے تو بہرحال کسی بھی بات پر اختلاف کا پہلو نکال لیتے ہیں۔

پھر شجر الدر کی حمایت کے معاملے پر مصر اور شام دو حصوں میں بٹ گئے۔ اب ایک طرف مملکت کا اتحاد تھا اور دوسری جانب تخت، شجر نے اتحاد کو مقدم جانا اور سپہ سالار عز الدین ایبک کے حق میں دست بردار ہو گئی۔ رضیہ کا اقتدار ساڑھے تین سال رہا، شجر کا ساڑھے تین ماہ!

لیکن یہاں پر شجر نے ایک اور فیصلہ ایسا کیا، جس نے اسے سلطنت کی طاقتور ترین خاتون بنا دیا۔ اس نے عز الدین ایبک سے شادی کر لی اور یوں سلطانہ سے ملکہ بن گئی۔ اس حیثیت سے تقریباً 7 سال تک وہ مملکت کے امور میں بالواسطہ اور بلا واسطہ اپنا کردار ادا کرتی رہی۔

درد ناک انجام

شجر الدر کا قتل، ایک مصور کی نظر سے

رضیہ سلطانہ کی طرح شجر الدر کا انجام بھی بہت الم ناک تھا۔ اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ شام میں مملوکوں کے ساتھ مل کر عز الدین کے خلاف بغاوت کر رہی ہے۔ اس حوالے سے چند مؤرخ لکھتے ہیں کہ دراصل عز الدین شجر کے ساتھ شادی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امیرِ موصل کی بیٹی سے نکاح کر رہا تھا تاکہ اس کی شام پر گرفت مضبوط ہو۔ معاملات تب ہاتھ سے نکل گئے جب اپریل 1257ء عز الدین کا انتقال ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ چند لوگوں نے اسے حمام میں داخل ہوتے ہوئے قتل کر دیا تھا۔ شجر کا کہنا تھا کہ عز الدین کا انتقال اچانک اور حادثاتی وجہ سے ہوا ہے، لیکن مملوک اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ انہوں نے چند ملازمین کو مار پیٹ کر یہ منوا لیا کہ انہوں نے شجر الدر کے کہنے پر ہی عز الدین کو قتل کیا ہے۔ پھر عز الدین کی پہلی بیوی کے 15 سالہ بیٹے المنصور علی کو نیا بادشاہ بنایا گیا، جس کی ماں نے اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ شجر الدر کو قتل کر دیا جائے۔

تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ شجر کو بُری طرح مارا پیٹا گیا اور پھر محل کے ایک بُرج سے نیچے پھینک دیا گیا تھا۔ تین دن تک اس کی برہنہ لاش محل کے باہر ایک کھائی میں پڑی رہی، پھر اسے دفنا دیا گیا۔

آج رضیہ سلطان کی حقیقی قبر کا تو کچھ نہیں پتہ، دلّی میں 'رجی سجی کی قبروں' میں سے ایک کو رضیہ کی قبر سمجھا جاتا ہے لیکن کچھ مؤرخین کے مطابق وہ کیتھل میں دفنائی گئی تھی۔ لیکن ملکہ عصمت الدین امِ خلیل شجر الدُر کا خوبصورت مقبرہ اب بھی قاہرہ میں موجود ہے۔

قاہرہ میں واقع شجر الدر کا مقبرہ

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment