ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد اب تک ایمرجنسی کا نفاذ ہے. ترک حکومت کے مطابق ابھی بھی بغاوت کے خدشات موجود ہیں، مغرب میں صف ماتم ہے کہ بغاوت ناکام ہوگئی. امریکی پلان کے مطابق فتح اللہ گولن کو استعمال کرکے جو کچھ کرنے کا خواب دیکھا گیا تھا، وہ چکنا چور ہو کر رہ گیا. ترک عوام کی ثابت قدمی اور طیب اردگان کی استقامت نے مغربی پلان پر پانی پھیر دیا، اب اردگان مغرب کے گلے کا وہ کانٹا بن چکا ہے جو نہ نگلا جاسکتا ہے، نہ اگلا جاسکتا ہے.
یورپ اور اس کے فکری غلام طیب اردگان کو اب شدت پسند یا انتقامی ذہنیت والا رہنما قرار دے رہے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ اردگان نے ترکی میں بغاوت کے معاون تمام افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا عندیہ دیا ہے. اگر یہ بغاوت کامیاب ہوتی تو سب سے پہلے مغرب اور اس کا ذہنی معتقد طبقہ طیب اردگان کو پھانسی چڑھانے کا مطالبہ کرتا. یہ وہی طبقہ ہے جس نے بغاوت کی اطلاع کے ابتدائی گھنٹوں میں جشن منایا تھا، مگر قدرت کے فیصلے بھی عجیب ہیں کہ ڈوبتے اقتدار کو دوبارہ سے طلعت بخشی، اور مخالفین کی خواہشات اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے.
اب ا نہیں موقع کی تلاش تھی کہ کیسے اردگان کی کامیابی پر بھڑاس نکالی جائے. سو اردگان کی جانب سے باغیوں کو سزا دینے پر اس طبقہ نے ہنگامہ کھڑا کردیا گیا مگر تھوڑی دیر کے لیے اس گروہ کی تاریخ دیکھی جائے تو اس گروہ نے ہمیشہ اپنے مخآلفین کو کچلنے میں کوئی تاخیر نہیں کی. اس گروہ نے اپنی فکری مخالفت کی بنیاد پر انسانیت کے پرخچے اڑانے میں کبھی کسی تامل سے کام نہیں لیا. عراق میں لاکھوں مسلمانوں کا قاتل ٹونی بلئیر ایک سوری کہہ کر بری الذمہ قرار پاتا ہے، فلسطین میں مسلمانوں کی نسلوں کی نسلیں تباہ کی گئیں مگر اسرائیلی فرعونیت کے حوالے سے دنیا پر سکوت طاری ہے. برما سے شام، چیچنیا سے بوسنیا اور کشمیر سے احمد آباد اور گجرات تک، مسلمانوں کی نسل کشی تک اس طبقے کے ہاتھوں مسلمانوں کے لاشے دیکھ کر بھی جنہیں اپنا دامن داغدار نظر نہیں آتا، وہ بھی ترکی میں بغاوت کرنے والوں کی قید کو انسانیت کے خلاف قرار دے رہے ہیں. اگر خدونخواستہ ترکی میں یہ بغاوت ناکام ہونے کے بجائے کامیاب ہوتی تو باغیوں کو دی گئی 9000 افراد کی فہرست پر عمل درآمد ہوتا تو کیا یہ طبقہ اس پر انسانیت کا درس دیتا؟ مصر میں یہ سب ہوا تو اس طبقے نے کیا کیا؟ باغیوں کے پاس 9000 افراد کی لسٹ تھی، اور منصوبے کے مطابق طیب اردگان اور اس کے حکومتی معاون، سرکاری اداروں میں موجود اردگان کے حامیوں کو تختۂ دار پر چڑھانا تھا.
پورے یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بغاوت کی کامیابی کے بعد ہونے والے مظالم پر یہ طبقہ بالکل ویسے خاموش رہتا جیسے مصر میں جنرل سیسی کے مظالم پر خاموش ہے. وجہ فقط اتنی ہے کہ اس طبقے کو کسی بھی سطح پر اسلام اور مسلمانیت قبول نہیں ہے، اسی لیے کسی اسلام پسند کی معمولی سی بات کو کئی گنا بڑھا چڑھا کر پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، جبکہ اپنے آقائوں کے ہاتھوں بہنے والے لاکھوں مسلمانوں کے خون پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں. گویا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
تبصرہ لکھیے