دنیا میں ترک ڈرامے بڑے پسند کیے جاتے ہیں. اس کی وجہ ان کا سکرپٹ، اداکاری اور ان ڈراموں پر انویسٹ کی جانے والی وسیع لاگت ہے. سکرپٹ جاندار ہو تو اداکاروں کی اداکاری ڈرامے میں جان ڈال دیتی ہے اور اس پر آنے والی لاگت ڈرامے کو حقیقت کے قریب تر لے آتی ہے
'عشق ممنوع' جیسے واہیات کامیاب ڈرامے کے بعد 'میراسلطان' والی کامیاب تاریخی سیریل شاید ہی کوئی بھلا پایا ہو
لیکن
بلاشبہ ناکام فوجی بغاوت ڈرامہ نہیں بلکہ حقیقت ہے.
جبکہ
اس بغاوت پہ قابو پانے کے بعد ہماری سادہ لوح عوام کی اکثریت کا رویہ نہایت احمقانہ ہے.
کوئی طیب اردگان کو صلاح الدین ثانی قرار دے رہا ہے، اور کوئی اس کو خلیفۃ المسلمین بنانے پہ تُلا ہوا ہے.
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
اردگان کے ترکی میں مغرب جتنی مادرپدر آزادی ہے، اور اردگان اس مادرپدر معاشرے کا دس سالہ حکمران ہے. اس بغاوت کو ناکام کرنے کے بعد اس کی حکمرانی مزید مضبوط ہوئی ہے.
سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیوز میں وہ عام لوگوں کو سگرٹ نوشی سے منع کرتا تو نظر آتا ہے لیکن سیاہ و سفید کا مالک حکمران اپنے ملک سے ایک بھی شراب خانہ بند نہیں کروا رہا
برما و غزہ کے مسلمانوں سے نیم دلانہ ہمدردی اور امداد تو کر رہا ہے لیکن ان پر ظلم کرنے والے ممالک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہا.
شام کے مظلوم مسلمانوں کے لیے بیانات تو دیتا نظر آ رہا ہے لیکن ساتھ میںامریکہ کو ان پر بمباری کے لیے اڈے دیتا بھی دکھائی دے رہا ہے.
قرآن پاک کی تلاوت تو کرتا نظر آ رہا ہے لیکن اس کا وزیراعظم فرانس میں گستاخانہ میگزین چارلی ایبڈو کے کارٹونسٹ کے قتل کے خلاف صلیبیوں کے مظاہرے میں جرمن خاتون چانسلر کی بانہوں میں بانہیں ڈال بھی نظر آ رہا ہے.
یعنی
ناکام فوجی بغاوت حقیقت تو ہے لیکن اس کے نتیجے میں سرخرو ہونے والا طیب اردگان ایک ڈرامے کے کردار سے بڑھ کے نہیں جو اداکاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا.
بلاشبہ ترک ڈراموں کے اداکار بے مثال ہوتے ہیں دنیا میں بہت پسند کیے جاتے ہیں
تبصرہ لکھیے