یہ محض ایک فوجی بغاوت کی ناکامی ہے نہ اسلام پسند عوام کا اپنے من پسند لیڈر پراعتماد کا ووٹ ہے، بلکہ یہ اس ترکی کا ردعمل ہے جس کے اسلامی تشخص کو نوے سال قبل گہنا دیا گیا تھا، بقا کی جنگ کی بڑی مہنگی قیمت ادا کی تھی امت کے اس آخری حصار نے۔
ذرا بیسوی صدی کی پہلی تہائی کا زمانہ تصور کیجیے. سلطنت عثمانیہ کی بے رحم قطع و برید جاری ہے، ابھرتی ہوئی طاقتوں فرانس برطانیہ اٹلی کی حریص نگاہوں میں تقسیم کا عمل وقوع پذیر ہو رہا ہے، اسے دیکھ کرمحسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہی ترکی ابھی ساڑھے چھ سو سالہ پرشکوہ دور اقتدار گزار آیا ہے. عین ممکن تھا کہ ترکی کا وجود ہی ختم ہو جاتا اور وہ ان طاقتوں میں ضم ہو کر رہ جاتا. لیکن مصطفے کمال اتاترک ( ترکوں کا باپ) ایسے میں ترک قومیت کے نام پر ترکوں کو اکٹھا کرتا ہے. اتاترک کی اصلاحات کے کڑوے گھونٹ چاہے وہ ملک سے عربی تہذیبی و لسانی اثرات کو کھرچنا ہو، مدارس پر پابندی لگاناہو یا عورت کو مغرب کے رنگ میں ڈھالنے کے لیے سروں سے اسکارف نوچے جانا ہو، ترکوں نے بڑی مشکل ہی سے بھرے تھے.
ترکوں کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں سے جاگزیں محبت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں. حالیہ واقعے کے علاوہ بھی ترکی کا دل امت کے لیے دھڑکتا رہتا ہے. غزہ ہو یا برما، مصر ہو یا بنگلہ دیش، یا دنیا میں کوئی اور مسلم علاقہ اور مسلمان، ترکی امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے. اسلامی تاریخ بھی اس بات پر شاہد ہے کہ ترک قبائل نے کس کس موقع پر اسلام اور مسلمانوں کو سہارا دیا. لامرکزیت کا شکار زمیں بوس ہوتی عباسی خلا فت کو سہارا دینے کے ضمن میں سلاجقہ کا کردار، خلافت کے ادارے کا وقار بڑھانا، تقدس بحال کرنا ہو یا صفاری، سامانی، طولونی و فاطمیوں جیسی آزاد و خودمختار سراٹھاتی ریاستوں کے مقابل مسلمانوں کو ایک مرکز پر جمع کرنا، اس سب میں آل سلجوق، ارطغرل اور الپ ارسلان کا کردار بین دلیل ہے.
خلیفہ قائم باللہ سے رشتہ داری کے ذریعے عباسیوں کو تقویت پہنچانا ہو تو ترک
سید الانبیاء کی بشارت پر قسطنطنیہ کی فتح کا کارنامہ انجام دینا ہو تو ترک
حرمین کی تولیت آل فاطمین سے لے کر مسلمانوں کو ایک خلافت پر جمع کرنا ہو تو ترک
ایک عرصے تک تین برِاعظموں پر حکومت کر کے اسلام دشمنوں کو سہمائے رکھنا ہو تو ترک
اسپین سے جلا وطن و بے دخل مسلمانوں کو اپنے بحری جہازوں کی خدمات دینی ہوں تو ترک
کیا یہ سب اسلام و مسلم امت سے محبت کی سوا بھی کچھ ثابت کرتا ہے؟
ایسے اسلام پسندوں کے ہاں بھی بھلا مذہب بیزار کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ترکوں نے تو بس اپنی صدیوں پرانی نظریاتی عمل داری کی ہلکی سی جھلک دکھائی ہے، وہ نظریہ جس سے ہم اور آپ محبت کرتے ہیں
تبصرہ لکھیے