ہوم << فتنہ انگیزی بھی جرم ہے - احمد خلیق

فتنہ انگیزی بھی جرم ہے - احمد خلیق

احمد شروع میں ہی یہ وضاحت ضروری ہے کہ مجھے کسی بھی درجے میں عالم دین ہونے کا دعوی نہیں ہے، سو اگر اس میں کچھ صواب ہے تو وہ من جانب اللہ ہے اور خطا کی صورت میں میرے نفس کا دھوکہ ہے۔ دوسری صورت میں علماء حضرات سے اصلاح کی درخواست ہے۔
جیسا کہ آج کل قندیل بلوچ کے قتل کا معاملہ زور و شور سے زیر بحث ہے اور ہر دو جانب سے کافی لکھا جا چکا اور ابھی مزید لکھا جائے گا۔ اس حوالے سے جو اعتراض دوسری جانب سے بڑی شدو مد سے دہرایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ لوگ اس قتل کی اگر، مگر، چونکہ، چناچہ وغیرہ سے الگ کر کے بغیر کسی لگی لپٹی کے مذمت کریں، یعنی قتل کے پیچھے محرکات، اسباب و عوامل کا تذکرہ کرنا، مثلا قندیل کی اپنی شنیع اور قبیح حرکات یا پھر میڈیا کا بے شرمی کے ساتھ اسے گلوریفائی کرنا، با الفاظ دیگر قتل کو جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے'۔ عرض ہے کہ ایسا نہیں ہے اور نہ کبھی کسی واقعہ کو سب سے الگ تھلگ کر کے دیکھا، پرکھا اور سمجھا جاتا ہے۔
اب کیا ہوا کہ آج صبح اللہ تعالی نے تھوڑی دیر کے لیے قرآن مجید مع ترجمہ و مختصر تفسیر پڑھنے کی توفیق بخشی۔ دوران مطالعہ ایک آیت مجھے نفس مسئلہ پر منطبق ہوتی محسوس ہوئی۔ پہلے آیت مع ترجمہ اور مختصر شان نزول ملاحظہ ہو، پھر اس کی تطبیق پر بات کرتے ہیں۔ سورۂ بقرۃ کے 27ویں رکوع کی آیت نمبر 217 ہے:
[pullquote]يَسْأَلونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ
[/pullquote] "آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو اس میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے، اور اللہ کے راستہ سے روکنا اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو اس میں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بڑا گناہ ہے، اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے."
ایک موقع پر آپﷺ نے چند صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کی جماعت کو کفار کے ایک قبیلہ کی نقل و حرکت کی خبر لانے کا فرمایا۔ مقصد لڑائی کرنا نہ تھا لیکن وہاں جا کے حالات کچھ ایسے ہوئے کہ مڈ بھیڑ ہو گئی اور مسلمانوں کے ہاتھوں ایک کافر مارا گیا۔ سوئے اتفاق سے یہ جمادی الثانی کی 29ویں تاریخ شام کا وقت تھا کہ ساتھ ہی رجب کا چاند نظر آگیا۔ اب چونکہ رجب قبل از اسلام سے ہی حرمت والے مہینوں میں شمار ہوتا تھا اور ہر دو فریق اسے خوب جانتے تھے تو کفار نے واویلا مچا دیا کہ دیکھو ان مسلمانوں کو حرمت والے مہینے کا تقدس پامال کرتے ہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو حق پرست کہتے ہیں۔ اگرچہ حقیقت یہی تھی کہ ایسا غلطی سے ہوا تھا نہ کہ جانتے بوجھتے سے لیکن مذکورہ جماعت پھر بھی شرمندہ اور پشیمان ہوئی کہ یہ ہم سے کیا ہوگیا!! واپس ہوئے تو بار گاہ نبویﷺ میں قصہ اور کفار کے طعن و طنز کا اظہار ہوا، تو جوابا مذکورہ بالا آیت بطور وحی الہی نازل ہوئی۔
آئیے اب نفس مسئلہ کو آیت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوچھا گیا کہ حرمت والے مہینے میں قتال کرنا کیسا ہے؟ چونکہ دین اسلام میں بھی رجب کی حرمت و تقدیس باقی تھی تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اس میں جنگ و جدل کرنا بڑے گناہ کا کام ہے۔ لیکن غور کریں کہ اللہ جل جلالہ نے صرف یہ کہہ کر بات ختم نہیں کر دی بلکہ آگے صراحت کی ہے کہ قتل کرنا تو گناہ ہے ہی، پر اللہ کی راہ سے روکنا، اس کا انکار کرنا، مسلمانوں کو مسجد الحرام میں جانے سے روکنا اور مکہ مکرمہ سے بے دخل کرنا اللہ کے نزدیک اس سے بڑھ کے گناہ ہیں، اور بلا شبہ فتنہ و فساد پھیلانا قتل سے زیادہ بڑا جرم ہے۔
اب دیکھیے کہ قندیل بلوچ کے قتل کو کوئی جائز یا مباح نہیں کہہ رہا۔ یقینا جو ہوا غلط ہوا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ اسلام کسی فرد واحد کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اٹھ کر کسی کو بھی قتل کر دے بلکہ یہ صرف ریاست ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرم و سزا پر عمل درآمد کروائے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ قندیل بلوچ جیسی حرکتیں قابل دست اندازی جرم ہونی چاہییں۔ کیوں؟؟ کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ ایسی حرکتیں معاشرے میں ہیجان اور فتنہ انگیزی کا باعث بنتی ہیں اور خصوصا نوجوان نسل اس سے متاثر ہوتی ہے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
[pullquote] مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ" (متفق عليه)
[/pullquote] ترجمہ: میں نے اپنے بعد امت کے مردوں کے اوپر سب سے بڑا جو فتنہ چھوڑا ہے وہ عورتوں کا ہے۔ علمائے کرام اس حدیث کی بہتر تشریح کر سکتے ہیں لیکن یہاں موضوع کے اعتبار سے مناسبت ہے کہ عورت کا بے پردہ بن سنور کر نکلنا اور اس مستزاد یہ کہ اپنی نمود و نمائش کرنا اور لوگوں کو دعوت گناہ دینامسلمان کےلیے ایک فتنہ ہی ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نسل انسانی کا اس غلط روش پر چل نکلنا خاندان اور معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے، سو اس پر پہلے سے ہی بند باندھنے کی اشد ضرورت ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ موجودہ حالات میں ہم اس پر افسوس ہی کر سکتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فحاشی و عریانی کی روک تھام سے متعلق کوئی مؤثر قانون نہیں ہے، اگر ہے بھی تو عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
زاہد صدیق مغل صاحب اور استاد گرامی محمد مشتاق صاحب نے اس جانب صحیح رہنمائی فرمائی کہ اولا ان دو اصطلاحات کی تعریف فوجداری قانون میں طے اور واضح ہو جانی چاہیے اور پھر قتل عمد کے مثل اس جرم کے مرتکب افراد، اسباب و عوامل (میڈیا وغیرہ) کو بھی قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، تاکہ ردعمل میں غیرت کے نام پر کیے جانے والے قتل کا سد باب ممکن ہو۔ اللہ تعالی دین و دنیا کا صحیح فہم اور سمجھ عطا کرے. آمین!

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment