میرا ایک سوال ہے
ترکی میں ناکام ہونے والی فوجی بغاوت اگر ایران میں ہوتی تو باغیوں اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟ کیا انھیں معاف کر دیا جاتا؟ کیا انھیں ان کے عہدوں پر برقرار رکھا جاتا؟ کیا انھیں پھانسیوں پر نہ لٹکایا جاتا؟
میرا سوال یہ ہے کہ اگر یہی بغاوت امریکہ میں ہوتی تو کیا ہوتا؟ سوچیے ذرا
اگر سعودی عرب میں ہوتی تو کیا ہوتا؟ سوچیے ذرا
اگر یہی بغاوت طالبان کے افغانستان میں ہوتی تو کیا ہوتا، سوچیے ذرا
اگر دنیا کے کسی بھی پانچویں، چھٹے یا ساتویں ملک میں ہوتی تو کیا ہوتا؟ کچھ تو سوچیے ذرا۔
قریبا اسی قسم کے سوالات ترک قیادت نے امریکیوں کے سامنے رکھے تو وہ اب باغیوں کے حقوق کی باتیں چھوڑ کر فتح اللہ گولن کے بارے میں تحقیقات میں مدد دینے پر آمادہ ہوچکے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما اور امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے بیانات سامنے آچکے ہیں۔ آج کل امریکی در پر سجدہ ریز سیکولرز، لبرلز اور ملحدین یہ بیانات نوٹ فرمالیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا ضروری ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی ہر خبر پر یقین کر لیا جائے؟ بالخصوص ایک اخبار نویس اور ایک دانشور کو ہر خبر کی صحت کی ازخود تحقیق نہیں کرنی چاہیے. لیکن حیرت ہے کہ ترکی میں بغاوت کے معاملے میں یہ اخبارنویس، تجزیہ نگار اور دانشور بھی ایک جاہل قاری ثابت ہوئے ہیں۔ (اگرجاہل کا لفظ سخت محسوس ہو تو معذرت خواہ ہوں)۔ جب تک آپ دوسرے فریق کا موقف جان نہیں لیتے، تب تک آپ خبر شائع کرسکتے ہیں نہ تجزیہ کرسکتے ہیں، لیکن افسوس ہمارے ہاں بعض تجزیہ کار مسلسل بول اور لکھ رہے ہیں۔
اس باغیانہ کوشش میں 246 افراد شہید ہوئے جن میں 179 سویلین، 62 پولیس آفیسر اور 5 فوجی شامل تھے۔ 24 باغی فوجی بھی مارے گئے جبکہ 49 کو زخمی حالت میں گرفتار کیاگیا۔
بغاوت کے بعد پہلے مرحلے میں 4060 افراد کو حراست میں لیاگیا جن میں سے 2430 فوجی، 151 پولیس افسر، 1386 ججز اور 93 سویلین تھے۔ دوسرے مرحلے میں5581 افراد کو گرفتار کیاگیا۔ تفتیش کے بعد اب تک 549 افراد کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن انھیں ضرورت کے مطابق بلایا جا سکتا ہے جبکہ 220 افراد کو باعزت بری کر دیاگیاہے۔ تفتیش کا سلسلہ جاری ہے، بےگناہ افراد رہا ہوتے چلے جائیں گے۔
یوں اب مجموعی طور پر 10410 زیرحراست ہیں، جن میں 7423 فوجی، 287 پولیس افسران، 2014 ججز اور686 سویلینز ہیں۔ یاد رہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ اپنے پروپیگنڈے میں 50 ہزار کے قریب گرفتاریاں ظاہر کر رہے ہیں۔
آپ ترکی میں بغاوتوں کی تاریخ کا جائزہ لیں، فوجی اور ججز مل کر حکومت کا تختہ الٹتے تھے، اس بار بھی بڑے پیمانے پر بغاوت کی تیاری کی گئی تھی، اس میں زندگی کے مختلف شعبوں کے افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا تاکہ بغاوت کے خلاف کوئی شعبہ مزاحم نہ ہو۔ تاہم ایک تدبیر انسان کرتا ہے اور ایک تدبیر اللہ تعالیٰ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہی کی تدبیر غالب آتی ہے.
آپ غیرجانبداری اور دیانت داری کے ساتھ مغربی میڈیا کے کردار کا جائزہ لیں، آپ کو صاف نظر آئے گا کہ وہ بغاوت کے حق میں تھا اور اب باغیوں کو بچانے کے لیے پروپیگنڈا کر رہاہے۔ کون بھول سکتاہے کہ امریکی ٹی وی چینل کے سٹریٹیجک تجزیہ نگار کرنل رالف پیٹرز کی بات کو، انھوں نے بغاوت کے اگلے روز کہا تھا: ’’اگر بغاوت کامیاب ہوجاتی تو اسلام پسند ہار جاتے اور ہم جیت جاتے‘‘ انھوں نے ہی کہا تھا:’’ خدا کی رحمت ہو ان لوگوں پر جو ترکی میں بغاوت کر رہے ہیں، وہی خدا کے بندے ہیں‘‘۔ ایک امریکی چینل نے بغاوت ناکام ہونے پر کہاتھا:’’ ترکی میں امید کی آخری کرن بھی ڈوب گئی۔‘‘
اس کے باوجود مسلمان معاشروں کا کوئی دانشور طیب اردگان کے خلاف کھڑا ہے، تو اسے سوچ لیناچاہیے کہ وہ کہاںکھڑا ہے؟ اور کس صف میں کھڑا ہے؟
تبصرہ لکھیے