
کہتے ہیں فیض صاحب کو کسی غیرملکی سفر میں ایک سکھ قدردان نے بہت خوبصورت انگوٹھی دی۔ انگوٹھی پر بہت خبصورتی سے لفظ “اللہ” نقش تھا۔ فیض صاحب درویش انسان تھے۔ شاید آپ کو علم ہو نہ ہو کہ حافظ بھی تھے اور ایم اے عربی بھی۔ مگر کمیونسٹ پارٹی سے نسبت اور محافل ناؤ نوش سے رغبت کی وجہ سے “یاروں” نے دہریہ مشہور کر رکھا تھا۔ احباب نے انگوٹھی دیکھی تو شرارت سوجی اور کہا چلئے شکر ہے فیض صاحب کسی نے تو آپکو مسلمان سمجھا۔ فیض نے اپنی مشہور کھوں کھوں کی، سگریٹ کا کش کھینچا اور مسکرا کر بولے ” بھئی، کون جانے لوگ اسے بھی سکھ قوم کا لطیفہ ہی سمجھیں”۔
محترم عاصم اللہ بخش سے میری پرانی محبت ہے۔ فیس بک پر تین طبقات ہیں۔ “کمنٹیا”، “پوسٹیا” اور “لکھاری”۔ ارے ہاں کچھ خاموش بھی ہوتے ہیں جو بس اپنی موجودگی کا احساس دلائے بغیر ہوتے ہیں اور اکثر فائدے میں ہوتے ہیں۔ تو جب میں کمنٹیا تھا، تب عاصم بھائی سے تعلق بنا۔ انکے جوابات نے مجھے پوسٹ لکھنے کا حوصلہ دیا۔ اور ان پر ان کے مزے مزے کے کمنٹ، جنھیں میں اپنی پوسٹ پہ لگا “تڑکا” کہتا ہوں، مجھے باقاعدہ لکھنے کی طرف مائل کرتے رہے۔ مجھے اردو لکھنے کی طرف بھی عاصم بھائی نے ہی لگایا۔ سو صاحبو، جو جو میری تحریر سے تنگ ہے، “ایصال ثواب” کیلیے بندے کا اشارہ دے دیا ہے۔ عاصم بھائی کا حکم ہے کہ “دلیل” کیلیے کچھ پیش کروں۔ بھائیو، ستائس رمضان میرا یوم پیدائش ہے۔ سو اس رات/دن جو بھی پیدا ہو مجھے محبوب ہوتا ہے۔ خواہ قرآن، خواہ پاکستان اور خواہ میں خود؛ اور اب اس فہرست میں دلیل بھی شامل ہے۔ سائیٹ سے جڑا اہم نام عامر خاکوانی کا ہے۔ عامر بھائی انتہائی نفیس انسان ہیں جنکو مخالف کے ساتھ بھی ہمیشہ دلیل اور شائستگی کے ساتھ بات کرتے پایا۔ میں کئی سالوں سے انکا قاری اور فین ہوں۔ عامر بھائی نے فیس بک کے میڈیم کی اہمیت کو تب سمجھا اور استعمال کیا جب بڑے لکھاری اسے “بچوں کی کھیڈ” ہی سمجھتے تھے۔ مگر عامر بھائی نے تلخ تجربات کے باوجود اس میڈیم کے زریعے نوجوانوں سے رابطہ قائم رکھا اور مکالمے کا رواج ڈالنے والوں میں انکا نام اولین ناموں میں ہے۔ جس سائیٹ کے ساتھ عامر خاکوانی اور عاصم اللہ بخش سے “خدائی گھیرو” منسلک ہوں، اسکی کامیابی انشاللہ یقینی ہے۔ یہ بندے کو گھیر گھار کر خدا تک لے جاتے ہیں، اگے تیرے بھاگ لچھیے۔
“دلیل” ایک واضح ایجنڈے کے ساتھ آ رہی ہے۔ یہی “دلیل” کی قوت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ اپنے ایجنڈے کے اس واضح اعلان کی وجہ سے اسے کچھ لوگ شروع سے بطور دشمن لیں گے اور اسکی ناکامی کے دن گنیں گے، حملے کریں گے۔ امید ہے کہ راہی رکے گا نہیں۔ دوسری طرف اسی ایجنڈے کی وجہ سے اس سے ایسی توقعات وابستہ کر لی جائیں گی کہ بس “دلیل” صرف “امت” کا انٹرنیٹ ایڈیشن بن کر رہ جائے یا ایک “ای۔غزنوی” بنے جو روز لیفٹ، سیکیولرزم اور الحاد کے بت توڑتا کشتوں کے پشتے لگا دے۔ میری دعا ہے کہ “دلیل” ان دونوں طبقات کو مایوس کرے۔
صاحبو، پاکستان ایک اہم دور سے گزر رہا ہے۔ امت کا جو تصور ہم تحریروں اور تقریروں کی وجہ سے بنائے بیٹھے تھے، متزلزل ہو رہا ہے۔ ہم نے جن بہت سی فرسودہ روایات کو مذہبی تقدس دے کر بچائے رکھا تھا، ان پہ سوال اٹھ رہے ہیں۔ سیاسی ، معاشی اور معاشرتی ابتری بڑھی ہے۔ وہ سوال جو والدین یا استاد دبا دیتے تھے اب سوشل میڈیا کے چوک پر سرعام پوچھے جا رہے ہیں۔ روائتی دایاں بازو ہو یا بایاں، وقت کا ساتھ دینے میں، سوالوں کے جواب دینے میں اور بڑھ کر علم اٹھانے میں ناکام ہو گیا۔ اس وقت پاکستان میں سوشل میڈیا سب سے مظبوط میڈیم ہے۔ مگر بھانت بھانت کی بولیوں، خبط عظمت اور عدم برداشت نے اسے بھی بدبودار کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ مکالمہ ہو، مظبوطی مگر شائستگی سے موقف پیش کیا جائے اور نئی نسل کی راہنمائی ہو۔ سوال اٹھائے جائیں، جواب دئیے جائیں اور مسائل کا حل مل کر سوچا جائے۔ بایاں ہو، دایاں یا درمیانہ، ہر بازو ہمارا اپنا ہے، پاکستانی ہے اور اہم ہے۔ ضروری ہے کہ یہ بازو ایک دوسرے کو کاٹنے کے بجائے ایک دوسرے کی قوت بنیں۔ اسی لیے مجھے خوشی ہے “دلیل” آئی ہے جو دلیل اور شائستگی سے دائیں بازو کا موقف رکھے گی، مکالمہ کرے گی، مسلک کے بجائے مذہب کی بات کرے گی اور صوبائی تعصب کے بجائے میرے پاکستان کی بات کرے گی۔ اہم مدیران کی موجودگی نئے لکھنے والوں کو تربیت دے گی کہ اپنا موقف کیسے گالی اور فتوے، تضحیک اور تحقیر کے بغیر بھی دیا جا سکتا ہے۔ اور یہی “دلیل” کی پہلی اور بڑی کامیابی ہو گی۔
تو صاحبو مبارکباد اور دعائوں کے ساتھ “دلیل” کے لیے یہ تحریر حاضر ہے۔ کون جانے “یار” اسے بھی لطیفہ ہی نہ سمجھ لیں۔


اس وقت اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسلام اور سیکولرزم کی بحث زوروں پر ہے۔ دھیمے سروں میں یہ بحث بہت پرانی اور غیرنتیجہ خیز ہے، لیکن آجکل اس میں پھر سے تیزی آئی ہوئی ہے۔ یہ بحث کسی پالیسی، بیان، واقعے یا پبلک رائے وغیرہ کے نتیجے میں اچانک دھواں دھار ہو جاتی ہے، اور کچھ عرصے کے بعد بے نتیجہ ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا ایک اثر ضرور مرتب ہوتا ہے کہ طرفین کی باہمی مخاصمت میں اضافہ ہو جاتا ہے، موقف اور پوزیشنیں سخت ہو جاتی ہیں، اور آئندہ بحث کی نتیجہ خیزی بھی موہوم رہ جاتی ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ اس بحث کو مفید اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے خود اس بحث کی نوعیت اور خد و خال، اس کے تاریخی اور علمی تناظر، طرفین کی شناخت اور ان کے موقف اور طرز استدلال کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے چند ایک گزارشات ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں۔
بحث علمی ہو یا سیاسی، موضوع مغرب ہو یا اسلام، لیڈر اسلامسٹ ہو یا سیکولرسٹ، پارٹی مذہبی ہو یا لسانی، کسی بھی ایشو یا موضوع کو دلیل کی بنیاد “قبول” کرنا اور دلیل ہی کی بنیاد پر “رد” کرنا ہوگا ۔ اسی سے معاشرہ آگے بڑھے گا، تحمل وبرداشت کی صفات پیدا ہوں گی اور وہ مثبت تبدیلی آئے گی جس کے ہم سب بلاتفریق اسلامسٹ و سیکولرسٹ خواہشمند ہیں ورنہ جہاں ہم آج کھڑے ہیں اور سوشل میڈیا پر جیسے بحث جاری ہے، اسے دیکھ کر خوف آتا ہے اور گاہے گمان ہوتا ہے کہ یہ ایک لاوا ہے جو کسی وقت پھٹ کر معاشرے کو تباہی سے دوچار کرسکتا ہے ۔
سوشل میڈیا پر نوجوان لکھنے کے حوالے سے متحرک ہوئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ نوجوان نسل کسی مثبت اور تعمیری کام میں لگی ہے اور کتابیں پڑھنے، سوچنے اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کی طرف مائل ہوئی ہے، جو ہمارے سماج کے لیے بڑی خوش آئند بات ہے۔ کنزیومراِزم کے اس بے رحم، سفاک دور میں بے غرض قلمی جدوجہد کرنے والے مبارک اور تحسین کے مستحق ہیں۔ دلچسپی سے ان نوجوانوں کی تحریریں پڑھتا رہا ہوں، اور داد دینے میں بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔


غلام اصغر ساجد
ایک وقت تھا کہ مسلم معاشرے میں خانقاہ ایک زندہ ادارہ تھا جس میں آدم سازی اور آدم گری کا کام ہوتا تھا. صوفیا کی زندگی کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک خوبی اللہ کے بندوں کے حق میں دل کو حسد اور کینے سے پاک رکھنا تھا. اخلاق کی اس اعلی فضیلت کے باعث وہ نفرتیں کرنے کے بجائے محبت تقسیم کرنے والے لوگ تھے. انسانوں سے محبت کا محرک کبھی جنسی شہوت بھی ہو سکتی ہے، کسی کے مادی اور دنیاوی مقام کی وجہ سے کسی تعریف یا اور غرض کی لالچ بھی؛ ان محرکات کو اگر کوئی چیز سفلی مقام سے اٹھا کر بالا کر سکتی ہے تو وہ اللہ کی رضا کا سچا جذبہ اور دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے اخلاص کی نسبت ہے. صوفیا تو اپنے ہاں ایک نظم کے ساتھ سالک پر محنت کرتے تھے تاکہ اس کے من کا میلاپن دھل سکے. آج دلوں میں نہ وہ جذب باقی رہا اور نہ وہ ادارے باقی رہے تاہم مسلم دنیا میں تجدید و احیاے دین کی تحریکیں ان اداروں کا کافی حد تک بدل ہیں جنھوں نے انسانوں کو دین کے ساتھ جوڑے رکھا. بات لمبی ہو گئی. اصل میں ایک مختصر عمل کی ترغیب دینا مقصود تھا جس کے بارے میں مولانا محمد زکریا صاحب ر ح نے لکھا ہے کہ یہ اللہ کے قرب کا سب سے نزدیک ترین راستہ ہے. وہ عمل سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ و سلم پر کثرت سے درود شریف پڑھنا ہے. اس عمل سے بندہ اللہ اور فرشتوں کے عمل میں شریک ہو جاتا ہے. اس کے ساتھ گناہوں سے اپنی حفاظت کی پوری کوشش بھی کرتے رہنا چاہیے. یہ عمل انسان کی دعا اور عبادت میں بھی طاقت کا سبب بنتا ہے. ہمارا دل جتنا ایمان کے مرکز پر ٹکتا چلا جائے، یہ آج کی مادیت کے ظلماتی فتنوں کے مقابلے میں ڈھال ہے. اس کے ساتھ تھوڑی ذہانت اور تھوڑا علم بھی حفاظت کا ذریعہ ہے ورنہ دل اگر نا محکمی کے مرض کا شکار ہے تو اعلی ذہانت اور زیادہ علم کے ساتھ بھی بعید نہیں ہے کہ انسان کا دل لادینیت کے ہاتھوں مغلوب ہو کر رہ جائے. آج بعض اوقات مدرسوں کے فاضل بھی زندگی کے میدان میں آ کر جو دین کا جوہر کھو رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ طالب علمی میں دل کی دنیا پر صحیح توجہ نہیں دے سکے
جس طرح آپ کو میری رائے سے اختلاف ہے ، مجھے اجازت دیں کہ یہ میرا حق ہے کہ میں آپ کی رائے سے بھی اختلاف کروں ۔ رائے سے اختلاف کا مطلب ذاتی دشمنی نہیں ، ہاں مکالمہ ضرور ہونا چاہیے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مجھے کہا جائے کہ تم ایک بند اور تنگ ذہن کے آدمی ہو اور میں ایک روشن خیال ۔ میں آپ کی رائے سے اختلاف رکھتا ہوں مگر اس کا احترام کرتا ہوں اور آپ سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں
تصوف سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف منارہ شریف چکوال تھا۔ 1994 میں کالج کے امتحانات سے فارغ ہو کر مجھے رمضان میں چند دن وہاں گزارنے کا موقعہ ملا تھا ۔۔۔۔ پاس انفاس کے ذکر کا طریقہ سیکھا تھا ۔۔۔ طویل القامت مولانا اکرم اعوان کے خطابات سنے تھے ۔۔۔ حاضر سروس جرنیلوں کو مولانا سے عقیدت سے ملتے دیکھا تھا ۔۔۔ وہیں مولانا اللہ یار خان چکڑالوی مرحوم کے متعلق پتہ چلا تھا ۔۔۔ ان کے صوفی سلسلے سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کی باقی سلاسل سے امتیازی خصوصیات کا پتہ چلا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچی بات ہے میں خاصا متاثر ہوا تھا ۔۔۔۔
رمضان المبارک کے دوران (۱۲ سے ۱۶ رمضان ) پانچ دن کراچی میں گزارنے کا موقع ملا۔ ماہ مقدس میں مختلف ٹی وی چینلز کی خصوصی نشریات میں سے جناب انیق احمد کا سنجیدہ اور با مقصد پروگرام ’’روح رمضان‘‘ اس سفر کا باعث بنا۔ میں عام طور پر ٹی وی پروگراموں سے گریز کرتا ہوں اور دعوت کے باوجود معذرت کر دیتا ہوں جس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے بہت سے اینکرز کی یہ پالیسی اور طریق کار ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو بات کہنے کا موقع دینے کی بجائے ان سے اپنی بات کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور خاص طور پر مذہبی راہ نماؤں کے بارے میں تو یہ بات طے شدہ ہے کہ مذہب کی نمائندگی کے لیے چن چن کر ایسے حضرات کو سامنے لایا جاتا ہے اور ان سے بعض باتیں حیلے بہانے سے اس انداز سے کہلوائی جاتی ہیں کہ مذہب کے نام پر کوئی ڈھنگ کی بات پیش نہ ہو سکے۔اور جو بات بھی ہو وہ مذہب اور مذہبی اقدار پر عوامی یقین و اعتماد کو کمزور کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ یہ بہت اوپر کی سطح پر طے شدہ پالیسی ہے اور اس ماحول میں اگر کوئی سنجیدہ شخص اپنی بات کہنے کی کوشش بھی کرے تو اسے زبردستی کرنا پڑتی ہے۔ میں خود ایسے متعدد مراحل سے گزر چکا ہوں جن میں سے چند کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔