ہوم << اک آنسو کہہ گیا سب حال دل کا - خالد ایم خان

اک آنسو کہہ گیا سب حال دل کا - خالد ایم خان

دنیا کی تاریخ کروڑوں اربوں سالوں پر محیط ہے، بہت سی مخلوقات اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دنیا میں پیدا کیں جن میں قابل ذکر جنات اور فرشتے تھے، جنات کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا اور اُن کو ہماری زمیں میں آباد کیا، دوسری طرف فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا کیا اور آسمانوں کی وسعتیں جن کا گھرانہ تھیں، پھر اللہ نے آدم ؑ کی تخلیق اپنے مبارک ہاتھوں سے کی، اور اُسے دنیا کے تمام علوم سکھا کر دنیا میں اشرف المخلوقات قرار دیا، یعنی دنیا میں آدم علیہ السلام کی آمد سے پہلے کی جتنی مخلوقات تھیں، جنات، چرند پرند، تمام اقسام کے جانور وغیرہ، ان سب میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ شرف قبولیت بخشی کہ تمام اللہ کی تخلیقات میں سے صرف انسان ہی کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا، اسے دماغ دے کر دنیا میں سب سے اعلیٰ و ارفع بنا دیا گیا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں دے دیں جن کو استعمال کرتے کرتے انسان نے آخر کار دوسری تمام مخلوقات کو زیر کرلیا، فتح کر لیا، اپنے زیرنگیں کرلیا، اس سے دنیا میں انسان کی ترقی کا ایک نیا باب شروع ہوا، انسان پہلے پہل تو اللہ کی اطاعت، ایک اللہ کی عبادت اور انسانیت سے محبت و خلوص پر قائم رہا لیکن پھر شیطان نے جو کہ انسان کا ہمیشہ ہی سے سب سے بڑا دشمن تھا، کے بہکاوے میں آکر سب سے پہلے تو ایک اللہ کی ذات کا انکاری ہوا، اور پھر آہستہ اہستہ اپنے اصل راستہ سے دور بہت دور نکلتا چلا گیا، جس کی پاداش میں اللہ نے انسانوں پر سیلاب کی صورت عذاب نازل کیا اور حضرت نوح ؑ اور اُن کے ساتھیوں کے علاوہ پوری دنیا کو نیست و نابود کر دیا.
پھر دنیا کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے، نوح ؑ کی اولاد حام، سام اور یافث دنیا میں پھیل گئے اور ایک نئی دنیا کی ابتدا کی، ایک ایسی دنیا کی ابتدا جس میں شیطان کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، جس میں انسانیت سے محبت اور اطاعت الہٰی کو اولین فوقیت دی گئی، انسان نے صدیوں تک اس دنیا پر اللہ کی ہدایت اور اللہ کے فرمان کے مطابق راج کیا، لیکن شیطان جو ہمیشہ ہی سے انسانیت کا دشمن رہا ہے، انسان کی ٹوہ میں لگا رہا، بار بار انسان کے احساسات کے ذریعے اُن پر حملہ آور ہوتا رہا، اُنہیں بھٹکاتا رہا اور دوسری طرف اللہ ذوالجلال ہمیشہ اُن بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے، اُن کو ہدایت کی راہ کی طرف پلٹانے کے لیے اپنے انبیاء ہر دور میں دنیا کے ہر خطے میں دنیا کے تمام انسانوں کے بیچ بھیجتا رہا، جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو اللہ کی ہدایت کی راہ دکھلاتے تھے، اُن میں سے کچھ تو اللہ کی ہدایت کی جانب لوٹ آتے تھے، اور باقی شیطانیت کو اپنا سب کچھ مان کر اللہ کے غیظ وغضب کا شکار ہوکر اپنے لیے تباہی و بربادی لکھتے رہے.
پھر آج سے چودہ سو سال پہلے جب دنیا میں کُفر اور شرک کا دور دورہ تھا، جب جہالت میں ڈوبے ہوئے لوگوں نے اپنی شیطانی جبلت کو خود پر حاوی کرتے ہوئے جانوروں اور حیوانوں کو چھوڑ اپنے ہی جیسے اشرف المخلوقات کو اپنے زیر نگیں کرنا شروع کردیا تھا، اپنا غلام بنانا شروع کردیا تھا، انسانیت پر ظلم کرنا شروع کردیا تھا، ایسے ہی وقت کسی ایک مظلوم کی آنکھ سے نکلے بےبسی کے ایک آنسو نے دنیا پلٹ دی اور اللہ نے دنیا میں رحمت اللعالمین کو دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا، مرادیں غریبوں کی بر لانے والا، وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا اس دنیا کے اندر پیدا ہوتا ہے، جس کے دنیا میں آتے ہی دنیا سے جہالت کا خاتمہ شروع ہو جاتا ہے، جس نے دنیا میں آتے ہی دنیا کو امن وآشتی کا، بھائی چارے کا، محبت و اخوت کا، خلوص اور پیار کا درس دیا، جس نے دنیا کو حقوق العباد کا درس دیا، ایک اللہ کی عبادت کا درس دیا، جس کی تعلیمات انسانیت کی محبت سے شروع ہو کر اللہ کی وحدانیت پر جا کر ختم ہوتی تھیں.
آپ ﷺ نے دنیا میں محبت کے وہ پھول کھلائے کہ جن کی خوشبو تا قیامت اس پوری دنیا کو معطر کرتی رہےگی، اور دنیا کو اسلام کے نام پر ایک ایسا آفاقی دین عطا کیا کہ جس سے دنیا اور آخرت میں انسانیت کی فلاح اور نجات وابستہ ہو لیکن شیطان جس کا کام ہی انسانیت کو بھٹکا کر جہنم کی سیاہ وادیوں میں دھکیلنا ہے، کیسے خاموش بیٹھ سکتا تھا؟ اُس نے فورا دنیا کے اندر پھیلتی اس عظیم روشنی کے خلاف جنگ چھیڑ دی، جو آج اکیسویں صدی میں بھی پورے زور وشور سے جاری ہے، ایک طرف روشنی کے نمائندگان ہیں اور دوسری طرف شیطانی افواج، ایک طرف اسلام کے پیروکار ہیں تو دوسری طرف دجال کے ہرکارے. چودہ سو سالوں سے دنیا کے اندر جاری یہ جنگ آج اپنے پورے جوبن پر ہے، فرق ہے تو صرف اتنا کہ کل روشنی کے نمائندگان ایمانی قوت سے لبریز تھے، جن کے ایمان کی طاقت سے پوری دنیا لرزہ براندام تھی، جن کی ہیبت سے فارس اور روم کی سُپر طاقتوں کے ستون زمیں بوس ہو گئے تھے، لیکن آج وقت کی گردش نے ہمیں آسماں سے لا کر زمین پہ پٹخ دیا ہے، ہمارے ایمان ہمارے دلوں سے نکل کر ہمارے دماغوں میں سما گئے ہیں، دل اور دماغ کی بڑی عجیب سی کشمکش ہے، دل عشق کی آندھی میں جل جانا، آتش نمرود میں بے خطر کود جانے کا نام ہے جبکہ دماغ سوچتا ہے، دماغ کہتا ہے کہ آگ جلا دے گی، اس لیے ہچکچاتا ہے، کیوں کہا شاعر نے کہ !
بے خطر آتش نمرود میں کود پڑا عشق
عقل ہے محو تماشائے لب وبام ابھی
میں بیان نہیں کرسکتا جب شام کی ایک خاتون کی آنکھ سے بے بسی سے ٹپکتے آنسوؤں کو دیکھا، وہ بے بس تھی، مجبور تھی، اُس کے پیارے دجالی فوجوں کی بمباری سے شہید کردیے گئے تھے، ایک چھوٹا سا بچہ اُس کا دامن پکڑے کھڑا تھا، وہ بھوک سے چلا رہاتھا، تڑپ رہا تھا، اُس کی پیشانی سے خون کی ایک دھار بہتے ہوئے اُس کے سُرخ و سفید چہرے کو خونی رنگ میں رنگ رہی تھی، اُس کے جسم پر لگے زخموں پر اُس کی بھوک و پیاس غالب آچکی تھی لیکن وہ بے بس عورت کیا کرتی؟ کہاں سے لاتی وہ من و سلوی جو اُس کے پیارے کا، اُس کے لاڈلے کا پیٹ بھرتی، کچھ نہ کرسکنے کے بعد جب اُس کی آنکھ سے بے بسی کا وہ آنسو ٹپکا، تو وہ،
اک آنسو کہہ گیا سب حال دل کا
میں سمجھا تھا یہ ظالم بے زباں ہے
اس سے آگے لکھنے کی مجھ میں تاب نہیں ہے.

Comments

Click here to post a comment