ہوم << جمہوریت: کرپشن سے ہیر پھیر سے کارپوریٹ فنڈنگ تک - محمد زاہد صدیق مغل

جمہوریت: کرپشن سے ہیر پھیر سے کارپوریٹ فنڈنگ تک - محمد زاہد صدیق مغل

زاہد مغل یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جمہوری نظام میں ”حکومت بنانا“ عام بندے کے بس کی بات نہیں، یہ امیروں کا کھیل ہے۔ یہ کھیل متعدد طرح سے کھیلا جاتا ہے۔

  • پارٹی کے لیڈران نہایت امیر لوگ ہوں۔ یہ امیر لوگ ایک پارٹی فنڈ بھی قائم کرتے ہیں جس کا مقصد الیکشن کے دنوں میں چند بااثر مگر نسبتا کم امیر امیدواروں کو سپورٹ کرنا ہوتا ہے۔ یہ جمہوریت کا بالکل ابتدائی دور ہوتا ہے۔

  • جمہوری سیاست چونکہ کل وقتی پیشہ ہے اور بہت قربانی مانگتا ہے نیز الیکشن میں لگائی گئی رقم جوئے میں لگائی گئی رقم کی طرح آر یا پار نوعیت کی ہوتی ہے (سوچیے عبدالعلیم خان نے لاہور کے ضمنی الیکشن میں کتنے کروڑ روپے ہارے!) لہذا یہ رقم انویسٹمنٹ ہوتی ہے جس پر مختلف انداز میں ریٹرن کمایا جاتا ہے۔

  • اس ریٹرن کی بعض صورتیں ”ننگی کرپشن“ شمار ہوتے ہیں، مثلا رشوت و کمیشن۔ جمہوری پراسس جوں جوں آگے بڑھتا ہے، اس قسم کی ننگی کرپشن کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ لہذا وقت کے ساتھ ”ہیر پھیر“ کی نسبتا پیچیدہ مگر قانونی شکلیں ایجاد کرنا پڑتی ہیں۔ اس کی عام صورتیں کک بیکس، ذاتی کاروبار کے ٹھیکے، سہولیات، لائسنس و قرضے وغیرہ ہوتی ہیں۔ اس قسم کی صورتیں بالعموم قانون کے دائرے کے اندر ہوا کرتی ہیں۔

  • جمہوری حکمرانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس قسم کے ”قانونی فوائد“ کو عوام سے چھپایا جائے مگرمیڈیا ”عوام کا شعور بیدار کرنے“ کے نام پر حکمرانوں کو بلیک میل کرنے کی غرض سے ایسی کہانیاں عام کرتا رہتا ہے۔ بسا اوقات ملک کے کسی ”دوسرے جمہوری ادارے“ کے لوگ خبریں عام کرنے کا یہ فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب جمہوری الیکشن کے لیے روپوں کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے، بلکہ مسابقت سخت ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے ساتھ یہ ضرورت بڑھتی چلی جاتی ہے۔

  • اس موڑ پر سیاسی انویسٹمنٹ کو فنانس کرنے کی یہ صورت سامنے آتی ہے کہ اب حکمران زیادہ تر اپنے ذاتی کاروبار کے لیے نہیں بلکہ ان کمپنیوں کو کاروباری سہولتیں اور ٹھیکے فراہم کرتے ہیں، جو ان کی الیکشن مہم کے لیے ان کے پارٹی فنڈ میں چندہ دیتے ہیں۔ چنانچہ امریکہ جیسے جمہوریت کے چیمپئن ملک میں یہ امر بالکل قانونی ہے کہ کارپوریشنز اپنے پسند کے امیدوار کی الیکشن مہم کو فنانس کریں۔ کمپنیاں یہ سب فنانسنگ فی سبیل اللہ نہیں کرتیں بلکہ اپنے مطلب کی پالیسیوں اور کاروباری فوائد کے لیے کرتی ہیں۔

  • جمہوریت کے اس سفر کو صرف پاکستان سے متعلق نہ سمجھا جائے بلکہ یہ دنیا کی ہر جمہوریت کی کہانی ہے۔ اب اگر اس بارے میں کوئی بندے کی رائے جاننا چاہتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس سفر میں کہاں کھڑی ہیں؟ تو مختصرا یہ کہ ”اس جمہوری سفر“ میں ن لیگ اس وقت ان معنی میں پاکستان کی سب سے ترقی یافتہ جماعت ہے کہ یہ آخری سطح کو بھی چھو چکی ہے (یعنی اب یہاں زیادہ زور ان کمپنیوں کو ٹھیکے دینے پر ہے جو اس کی اگلے الیکشن مہم کو فنانس کرنے والی ہیں)” پی ٹی آئی فی الوقت دوسری سطح پر کھڑی ہے جہاں جہانگیر ترین جیسے لوگ پارٹی کے جلسوں اور دھرنوں کو فنانس کرکے کے پی میں اپنے ذاتی کاروبار کو پھیلا رہے ہیں۔ پی پی پی اب بھی سب سے دقیانوسی جماعت ہے کہ یہ پہلی سطح سے بہت زیادہ آگے نہیں بڑھ سکی۔