ہوم << خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی - ڈاکٹر ساجد خاکوانی

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی - ڈاکٹر ساجد خاکوانی

گزشتہ انسانی تاریخ کی بتیس بڑی بڑی تہذیبیں کتابوں میں دفن ہوگئیں، ان گم شدہ تہذیبوں کے صرف آثارہی آج باقی ہیں یا پھر تاریخ کی کتب میں ان گم گشتہ اقوام کے بھولے بسرے قصے کہیں کہیں سننے یا پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ماضی کی اندھیری بھول بھلیوں میں ان عظیم تہذیب وثقافت کی وارث انسانی بستیوں کے گم ہوجانے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ان میں سے سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ عظیم الشان اقوام پہلے اخلاقی بے راہ روہی کے نتیجے میں غلامی کے کنویں میں جاگریں اور پھر قیادت کے فقدان نے انہیں صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح اس انداز سے مٹا دیا کہ صدیوں نے اپنے ظالم ہاتھوں سے ان پر قرنوں کی خاک ڈال دی۔ جبکہ امت مسلمہ اس لحاظ سے ایک خوش قسمت ملت ہے کہ دور غلامی جیسا کڑا وقت بھی اس امت کی کوکھ کو بنجرنہ کر سکا اور اغیارکے دور استبداد میں بھی یہاں ایسی قیادت نے جنم لیا کہ جس کی اقتدامیں چلتی ہوئی یہ قوم بلآخر گلستان آزادی کی منزل سے بہار آشنا ہوئی۔ مشرق تا مغرب کل امت میں کم و بیش ایک ہی وقت پر غلامی کا آسیب حملہ آور ہوا اور پھر کل امت میں آزادی کی تحریکیں چلیں اور کہیں کم اور کہیں زیادہ قربانیوں کے نتیجے میں امت کی قیادت نے بےسروسامانی کی حالت میں اس بچے کھچے سرمایہ ایمان کے سفینے کو ڈوبنے سے بچاتے ہوئے کنارے تک لے ہی آئے۔ کہیں تو یہ قیادت میدان سیاست میں نمودار ہوئی تو کہیں مکتب و مدرسہ میں اس قیادت کی رونمائی ہوئی اور کہیں منبر و محراب اور جبہ قبہ و دستار نے اس قیادت کی فراہمی کافریضہ اداکیا اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ ایوان ادب کے شاہسواروں نے بھی اپنے قلم کی نوک سے اس میدان کارزار میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔
علامہ محمد اقبال، دورغلامی کے لق و دق ریگستان میں لالہ صحرائی کی مانند ایک کھلتا ہوا پھول ہے۔ علامہ نے اس وقت امت کی قیادت کا سامان فراہم کیا جب چاروں طرف اندھیرا گھپ تھا از شرق تا غرب امید کی کوئی کرن باقی نہ تھی۔ کل امت غلامی کے مہیب غار میں شب تاریک کے لمحات گزار رہی تھی اور علامہ محمداقبال اس بدترین دور میں قندیل راہبانی ثابت ہوئے اور اپنے شعری و خطاباتی کلام سے امت مسلمہ کے تن مردہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ یہ وہ دور تھاجب شعرا کے قلم لب و رخسار سے آگے نہیں بڑھتے تھے اور غزل کا دامن زلف گرہ گیر کا اسیر محض تھا۔ علامہ محمد اقبال نے جہاں غزل کے دامن وسعت میں کل آفاق کو سمیٹ لیا وہاں اپنے زور کلام سے کل امت کی بیداری کا سبب بھی پیدا فرمایا۔ علامہ محمد اقبال کے قلم کے باعث مسلمانوں کے شاندار ماضی کو درخشاں مستقبل سے آشنائی نصیب ہوئی، علامہ نے امت مسلمہ پر غلامی کے تسلط کے شعری تجزیے پیش کیے اور مایوسیوں کی جگہ امت کے دامن امیدوں کے چراغ سے بھر بھردیے۔ آپ کے شعری کلام نے کل ہندوستانی مسلمانوں کے جام حصول منزل کی امنگ و تڑپ و جستجو سے لبالب بھر دیے۔ تحریک آزادی کا سیل رواں علامہ محمد اقبال کے کلام سے سالوں کا سفر ہفتوں میں طے کرنے لگا۔ جس جگہ بھی علامہ محمد اقبال کا کلام پڑھا جاتا، قوم کے جذبات بھڑک اٹھتے اور غلامی کی پژمردہ قوم میں زندگی کے آثار پیدا ہونے لگ جاتے۔ نوجوانوں کا ایک جم غفیرتھا جس کے جذبات میں اقبال صاف نظر آتا تھا اور قیادت کی حق ادائیگی میں اگر کچھ کسر باقی تھی تو قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے وہ کمی بھی پوری کر دی۔
علامہ محمد اقبال نے اپنے زمانہ طالب علمی میں یورپ کا سفر کیا، اور عنفوان شباب میں یورپ کی تہذیب کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔ ان کے تجزیے محض خیالی پلاؤ یا سنی سنائی باتوں پر مبنی نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے مسلمان ہونے کے تعصب میں یورپی تہذیب پر اپنے قلم کے نشتر چلائے۔ علامہ محمد اقبال کے تجزیے، ان کے جائزے اور ان کے تبصرے فی الاصل ان حقائق پر مبنی تھے جو انہوں نے بنظر غائر اپنی آنکھوں سے بذات خود محسوس کیے۔ انہوں نے یورپ کی مادی ترقی دیکھی، اس کو تسلیم بھی کیا، یورپی اقوام کے محاسن بھی ذکر کیے لیکن ساتھ ساتھ ان کے عیوب سے بھی پردہ کشائی کی اور بعینہ یہی رویہ انہوں نے ملت اسلامیہ کے ساتھ بھی روا رکھا۔ علامہ محمد اقبال کی حقیقت پسندی تھی کہ ان کے پیمانے قوم شعیب کے پیمانے نہ تھے بلکہ انہوں نے جس ترازو میں غیروں کو تولا اسی میں اپنوں کی بھی پیمائش کی اور مسلمانوں کے زوال کے اسباب اور ملل عالم میں ان کے گرے ہوئے مقام و مرتبہ پرمسلمانوں کے بھی لتے لیے۔ لیکن آج بھی ایک بڑا ہی تکلیف دہ رویہ ملتا ہے کہ اکثر نام نہاد دانشور قرض کھائے بیٹھے ہیں کہ قوم میں مایوسیوں کے جال پھیلائیں اور تصویر کے ہمیشہ تاریک رخ ہی عوام کے سامنے پیش کریں جبکہ علامہ محمد اقبال نے دورغلامی میں امید کے چراغ روشن کیے اور قوم کے سامنے منزل کی طرف درست سمت کی نشاندہی کی۔
علامہ محمد اقبال نے قوم کو باور کرایا کہ اغیار کے رنگ میں رنگ کر ہم دنیا میں کوئی مقام حاصل نہ کرسکیں گے بلکہ اس مکروہ فعل کے نتیجے میں اپنا آپ بھی گنوا بیٹھیں گے۔علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کے اندر اس طبقے کی شدت سے مخالفت کی جو سیکولرمغربی تہذیب کے پیچھے قوم کو چلانا چاہتا تھا اور قوم کو جمہوری آزادیوں کی نیلم پری میں سبز باغ دکھاتا تھا۔ علامہ محمد اقبال نے بڑے سیدھے انداز میں بتا دیا کہ اگر کچھ تجربے مغرب میں کامیاب بھی ہوئے ہیں تو ضروری نہیں کہ مسلمانوں میں بھی کامیاب ہوں، اس لیے کہ مسلمان قوم کی ترکیب اساسی دوسری اقوام سے یکسر مختلف ہے۔ علامہ نے یورپی تہذیب، سیکولر ازم، جمہوری تماشا اور تعلیم کے نام پر ہونے والی بد دیانتیوں کو بہت پہلے پہچان لیا تھا اور اپنے شاعرانہ کلام میں انہوں نے ان سب پر بےپناہ تنقید کی ہے اور ان میں سے بعض کو تو مسلمانوں کے لیے زہر قاتل قرار دیا ہے۔ علامہ نے مسلمانوں کو شعائر غلامی سکھانے کے بجائے آداب آزادی سے روشناس کرایا ہے اور اپنے کلام میں مشرق و مغرب کی کشمکش میں کھل کر اپنا کل بوجھ مشرق کے پلڑے میں ڈالا ہے اور اہل مغرب سے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ بہت جلد تمہاری تہذیب اپنے ہی خنجرسے اپنا گلا کاٹے گی اور جس قوت سے مغربی تہذیب کی موجیں اچھل اچھل کر کناروں سے باہر آرہی ہیں یہی موجیں ہی اپنی تہذیب کو پابند سلاسل کر دیں گی۔
علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں میں فرقہ بندی کو شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ علامہ نے اپنے شاعرانہ کلام میں ایک خاص مذہبی طبقے کے تفوق کو سخت ناپسند کیا ہے۔اگرچہ مسلمانوں کے درمیان انتشار کو ایک عرصے سے ہدف تنقید بنایا جا رہا تھا لیکن علامہ محمد اقبال کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ انہوں نے اپنے خطبات میں وہ عملی تجاویز بھی پیش کر دیں جن سے ایک بار پھر مسلمانوں میں دینی شعور کی تجدید ممکن ہو سکتی ہے جس سے فرقہ بندی کا عفریت یہاں سے دفعان ہو سکتا ہے۔ علامہ کی تمام تجاویز سے بہت کم اتفاق کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ان خطبات کو تجدید و احیائے دین میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ علامہ محمد اقبال کا شاعرانہ کلام تو عوام کے لیے تھا لیکن علامہ کے خطبات دراصل اسلامی ریاست کے لیے قانون سازی کی راہیں متعین کرتے ہیں اور اتحاد امت کے لیے اولین قدم اٹھانے کی جگہ بھی ایوان ہائے اقتدار ہی ہیں۔ اب یہ قانون ساز اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ علامہ محمد اقبال کی فراہم کردہ بصیرت کی روشنی میں ملک و ملت کے لیے قانون سازی کریں اور دین و شریعت کی آفاقی کرنوں سے عوام الناس کی زندگیوں کو روشن کریں۔ علامہ محمد اقبال نے اپنے شاعرانہ اور خطیبانہ، دونوں طرح کے کلاموں میں امت کے اتحاد کو کسی بھی منزل کے حصول کاسب سے پہلا سنگ میل قرار دیا ہے۔ علامہ محمد اقبال نے تاسف کااظہار کیا ہے کہ ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک ہی حرم میں طواف کرنے والے کیونکر ایک دوسرے سے صدیوں کے فاصلوں پر ہیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اقوام کی تعمیر سونے چاندی اور ہیرے جواہرات سے نہیں ہوتی بلکہ اقوام کا وجود فی الحقیقت نظریات سے مستعار ہوتا ہے۔ تحریک پاکستان کی قیادت اور تعمیر پاکستان کاجانگسل مرحلہ اور تکمیل پاکستان کی منزل سب کچھ دو قومی نظریہ سے ہی ممکن ہوا اور ممکن ہو سکے گا۔ علامہ محمد اقبال کی ساری شاعری اسی دوقومی نظریے کی معنوی تشریح ہے۔ اگرچہ دو قومی نظریے کی تجدید 1857ء کی جنگ آزادی میں ہی ہو چکی تھی لیکن اس وقت تک بہت کم لوگ اس نظریے کی حقیقت کا ادراک کر پائے تھے۔ اس نظریے کی ترویج و تشریح کا اصل فریضہ توعلامہ محمد اقبال نے ہی ادا کیا۔ صرف ہندوستان کی حد تک ہی نہیں بلکہ کل عالم کی اقوام میں اور ایک ہزار سالہ تاریخ سے بھی زائد مدت میں علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کو جداگانہ شناخت عطا کر دی۔ آج بھی یہی دوقومی نظریہ مملکت خداداد پاکستان کے وجود کا ضامن ہے، جو لوگ اس نظریے سے انکار کرتے ہیں وہ دراصل پاکستان کے جواز سے انکار کرتے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں پورے جنوبی ایشیاکے مسلمان علامہ محمد اقبال کے نظریاتی مقروض ہیں۔ خاص طور پر ایران کے اندر دینی شعورکی بیداری میں کلام اقبال نے بڑا ہی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اہل یورپ آج بھی علامہ کو یاد کرتے ہیں۔ کیا ہی خوب ہو کہ وطن عزیز کی نسل نو کو علامہ کا کلام ذہن نشین کرایا جائے تاکہ تعمیر پاکستان کے بعد تکمیل پاکستان کی منزل بھی بہت قریب لائی جاسکے۔ بدیسی زبان کے غلبے نے نوجوانوں کو اپنی اصل سے کاٹ کے رکھ دیا ہے جس کے نتیجے میں ہمارا ملی شعور ماند پڑ گیا ہے لیکن ہر سال کا یوم اقبال ہمیں اپنا بھولا ہوا سبق یاد دلاتاہے کہ ہمیں اپنی حقیقت کو اپنی ہی خودی میں تلاش کرنا ہے۔

Comments

Click here to post a comment