ہوم << اقبال بے مثال - سید ثمر احمد

اقبال بے مثال - سید ثمر احمد

سید ثمر احمد اقبال دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ گزشتہ دو، تین سالوں سے اربوں اشعار میسیجز کی صورت میں، فیس بک اور ٹویٹر پر بھیجے جا رہے ہیں۔ پڑھنے کے بعد اگلا مرحلہ ہمیشہ سمجھنے کا ہوتا ہے۔ میں نے ایک سال تک اقبال کو بےسمجھے پڑھا۔ کلیات ِاقبال کامل ایک سال تک میری بیڈ بک رہی اور جب سمجھ آنی شروع ہوئی تو ہر شعر کے بعد معانی و مفاہیم کی کثرت کی بنا پر سبحان اللہ نکلتا۔ اپنی تربیت اور کامیابی کے خواہشمندوں کے لیے میرا ایک مشورہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑی شخصیات کی زندگیوں کا مطالعہ کریں۔ہر بڑے آدمی کی زندگی میں سیکھنے اور آگے بڑھنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ اقبال بھی پچھلی صدی کے سب سے بڑے لوگوں میں شامل ہے۔ آگے کہوں تو امت مسلمہ کے بڑے ناموں کی پہلی فہرست میں شامل ہے۔ راز جاننے والے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اقبال شاعری میں اور مودودی نثر میں اگلے 500 سال تک دنیا کی قیادت کریں گے۔ ہم کنفیوژن میں گھرے نوجوان کے لیے واضح حیاتِ اقبال کے بامقصد گوشے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
عشقِ رسولﷺ:
شیخ نور محمد نے دیکھا کہ ایک کبوتر جو دائرہ بنا کے اوپر سے نیچے آتا ہے ۔ لوگ پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بچ کے اوپر چلا جاتا ہے ۔آخر کار وہ نور محمد کی جھولی میں غوطہ لگا کے آ گرتا ہے۔وہ صاحبِ اسرار تھے۔ سمجھ گئے کہ کوئی ایسی شخصیت ان کے گھر میں پیدا ہونے جا رہی ہے جو دین ِابراہیمی کی معروف خدمت گار ہو گی۔ جس کے وجود سے خیر و برکت کا ظہور ہوگا۔ اس کے بعد وہ بچہ پیدا ہوا جس کا نام محمد اقبال رکھا گیا۔ اب کون ہے جو اقبال کو رجعت پسند یا تاریک خیال یا فرسودہ ثابت کر سکے ۔ جس کو خود اہل ِ مغرب اپنا امام تسلیم کرتے ہوں ۔ اپنی شاہراہوں کے نام اس سے منسوب کرتے ہوں۔ جس سے منسلک ہونے کو مادرِعلمیاں اپنا فخر گردانتی ہوں۔ٹیگرٹ، نکلسن، آرنلڈ، برائون جیسے استاد جس کے قائل ہوں۔ لندن اور جرمنی کی فضائیں جس کی گفتگو کی سے مہک رہی ہوں۔ وہ خود رسول ِمحترمﷺ کا امتی ہونے کو باعثِ ناز سمجھتا ہے۔
1920ء کی بات ہے ۔ گمنام خط موصول ہوا ۔ لکھا تھا ، اقبا ل حضور ِاقدس کے ہاں تمہارا خاص مرتبہ ہے ۔ لیکن تم اپنے مرتبے سے لاعلم ہو۔ درجہ ذیل وظیفہ پڑھا کرو تو اپنے مقام سے آگاہ کردیے جائو گے۔اقبال نے اسے دل لگی سمجھا اور اہمیت نہ دی کیوں کہ لکھنے والے نے اپنا نام نہیں لکھا تھا۔ کچھ ماہ بعد ایک نوجوان حاضر ہوا ۔ دیکھتے ہی زار و قطار رونے لگا۔ اقبال سمجھے کوئی ضرورت مند ہے کوئی ایسی کوئی وجہ سامنے نہ آئی۔ جو بات بیان کی اس نے اقبال کی آنکھیں کھول دیں۔ کہا،میں سری نگر سے آیا ہوں اور آپ کا دیدار کرنا مقصد ہے۔مجھے کشف ہوا اور میں نے دربارِرسالت دیکھا۔ نماز تیا رتھی اور حضور اعلی خود موجودتھے۔ پوچھ رہے تھے کہ اقبال کہاں ہے؟ ایک بزرگ آپ کو لینے کے لیے چلے گئے ۔ وہ واپس آئے تو میں نے ایک شیو کیا ہوا نوجوان ان کے ساتھ دیکھا۔ اور وہ نوجوان آپ کے دائیں جانب آکے کھڑا ہوگیا۔جب سے یہ خواب دیکھا آپ سے ملاقات کو بے چین تھا۔میں آپ کو نہیں جانتا تھا۔ کشمیر ہی کے ایک بزرگ نجم الدین سے تذکرہ کیا تو انہوں نے آپ کی بہت تعریف کی ۔ آج جب نظارہ کیا تو وہی شکل و صورت تھی ، ذرا فرق نہ تھا ۔ اس تشکر کے احساس کی وجہ سے آنکھیں بھر آئیں۔ اس واقعے کے بعد اقبال کو فوراََ خط والی بات یا د آگئی ۔ خط تلاش کیا تو مل نہ سکا۔ اور درج شدہ وظیفہ بھی بھول چکے تھے۔اقبال نے اس واقعے کی پوری تفصیل اپنے محرم ِراز باپ کو لکھ بھیجی اور رہنمائی چاہی۔
وائسرائے ہند کی دعوت پر بیٹھے اقبال سے خود وائسرائے نے کہا کہ آپ مجلس برخاست ہونے کے کچھ دیر بعد تک تشریف رکھیے گا۔ بعد میں اسے نے پوچھا کہ یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ قرآن تمہارے رسول پر اسی حالت میں اترا تھا جس میں آج موجود ہے۔ کیا یہ درست ہے ؟جواب ملا، جی بالکل۔ ’’کیا تم جیسا پڑھا لکھا شخص بھی اس بات پہ یقین کرتا ہے؟‘‘حیرت سے وائسرائے نے پوچھا۔ اقبال جوش کے عالم میں کھڑے ہوگئے اور بولے۔ وہ تو وہ ہیں۔ میں ان ﷺ کا ادنی امتی ہوں۔ مجھ پر کتنی دفعہ بنی بنائی غزلیں نازل ہوئی ہیں، میں کیسے یقین نہ کرلوں کہ ان پہ قرآن اسی صورت میں نازل ہوا ہوگا؟
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
اقبال کی پوری فکر اور شخصیت کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جاسکتا ہے تو وہ ہے عاشقِ رسولﷺ۔
مغربی تہذیب پر تنقید:
اقبال خود یورپ کے صبح و شام کا گواہ تھا لیکن بیدار مغز تھا۔ بظاہر زرق برق لیکن کھوکھلے وجود کو خوب جانتا تھااسی لیے کہا:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہئِ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک ِمدینہ و نجف
اس نے Reconsturction of Religious Thought in Islamکے آخری خطبے میں کسی لاگ لپٹ کے بغیر کہا کہ ’’انسانیت کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یورپ ہے۔یورپ کے دیے ہوئے تصورِ حیات سے جب تک انسان نجات نہیں پا جاتا، انسانی مسائل حل نہیں ہوسکتے اور اسلام کے بتا ئے ہوئے اصولوں کے مطابق کائنات کی نئی اخلاقی تعبیر، صاحب ایمان فرد کی دریافت اور اجتماعی عدل پر معاشرے کی تعمیر ، یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر دنیا کو قائم کرنا چاہیے‘‘۔ اور اسی بنا پر مسلمانوں کو نصیحت کی:
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی
اس نے جگہ جگہ نوجوانوں کو نصیحت کی کہ تم خواہ مخواہ ذہنی پسماندگی اور غلامی کا شکار نہ ہو۔ تم ایک برتر نظام ِزندگی کے حامل ہو۔ گو کہ تم نے اپنی میراث گنوائی ہے اور زوال زدہ ہوگئے ہو ۔اس نظام کو زندہ کرنے کی جان توڑ کوشش کروکہ اس کے بغیر نہ تمہارا گزارہ ہے نہ انسانیت کا۔
عروج کا راستہ:
حکیم ِمشرق کا پیغام ہے کہ دنیا کے تمام فائدہ مند علوم حاصل کرنا تمہارا دینی فریضہ ہے ۔ اس کے بغیر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ تعصب اور جاہلیت سے نجات پائو۔یہی مشورہ تھا جو بچپن میں اقبال کے مشہور استاد مولانا سید میر حسن نے اس کے والد کو دیا تھا کہ اس کو صرف مدرسے کی تعلیم تک محدود نہ رکھو۔
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
وہ اساتذہ جنہوں نے اقبال کی زندگی پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے ۔ ان میں سے اکثریت انگریزوں کی ہے۔ اقبال کے تعلق داروں میں اٹلی کا مسولینی، فرانس کا ہنری برگساں جیسے لوگ شامل تھے۔
امید کا سورج:
اقبال امید کا قائد اور مایوسی کی شور ذدہ زمین سے کوسوں دور ہے۔ اس نے مسلمانوں کے سامنے 1930ء کے جلسے میں علیحدہ مملکت کی تصویر رکھی جب اس کے دھندلے نقوش بھی موجود نہیں تھے۔مغرب کے پورے نظام کا گہرائی سے جائزہ لے کر اپنی الہامی نظم کہی اور مسلمانوں کو نوید دی
سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خاموشی نے آکر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائدار ہوگا
مارچ 1923 ء میں انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے میں اپنی مشہور نظم ’’طلوعِ اسلام ‘‘ پڑھی۔ یہ نظم کیا تھی ۔مسلمانوں کے روشن مستقبل کی نوید تھی اور گویا آج کے حالات پہ تبصرہ تھی۔
دلیلِ صبح ِروشن ہے ستاروں کی تْنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی ، ذہن ہندی، نطق ِ اعرابی
قوم اور فرقہ پرستی کا دشمن:
اقبال آگاہ تھا کہ یہ دونوں بلائیں امت کے گلے پڑ گئیں تو مسلمان ایک دوسر ے کے گلے کاٹیں گے۔ اس نے دونوں کا ابطال کیا اور مسلمانوں کو ان سے کنارہ کش ہوجانے کی سخت ہدایت کی ۔قوم پرستی کے خلاف سبق دیتے ہوئے کہا۔
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصارِملت کے اتحادِوطن نہیں ہے
کہاں کا آنا کہاں کا جانا فریب ہے امتیازِ عقبی
نمود ہر شے میں ہے ہماری ، کوئی ہمارا وطن نہیں ہے
کمال اتا ترک نے اسلامی خلافت کا سقوط کیا تو بے لاگ غمگین تبصرہ کیا۔
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
ً500 سال کے سناٹے کو توڑ کے مسجد قرطبہ میں اذان دی ، مراقبہ کیا اور الہامی نظم کہی
اے حرم ِقرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
شوق میری لے میں ہے شوق میری نے میں ہے
نغمہ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے
جنرل نادر خان افغانستا ن کو بچانے اٹھے تو ہندوستان کے مسلمانوں سے ان کی مالی اعانت کی اپیل کی۔کہا’’ایک درد مند اور غیو ر ہمسائے ہونے کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ افغانستان کو بادِفنا کے آخری طمانچے سے بچانے کے لیے جس قدر دلیرانہ کوشش بھی ممکن ہو کر گزریں‘‘۔افغانستا ن کے لیے تعلیمی خاکہ مہیا کرنے کو خود وہاں چل کر گیا اور دن گزارے۔
اور…فرقہ واریت کی لعنت نے کہاں خیر بکھیرا ہے؟ سابق برطانوی جاسوس جارج ہیمفرے کے انکشافات ہی پڑھ لیے جائیں تو درد مندوں کی آنکھیں کھل جائیں۔ارضِ پاک میں اس ناسور کو زندہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو دبانا ہوگا اور اپنی پہچان صرف مسلمان اور پاکستانی بنانا ہوگی ورنہ منقسم لوگ ہمیشہ برباد ہوئے ہیں، ہوتے رہیں گے۔ اقبال نے مذہبی اور لسانی اور قبائلی بنیادوں پر امت کو تفریق کرنے کی سازش کو صحیح طور پر جانا اور پھر رہنمائی کی
یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو کہ مسلمان بھی ہو؟
……………
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
امت کی آفاقی دعوت:
مسلمانوں کا خدا ، کتاب ، رسول ایک ہیں جو انہیں معمولی سوچوں سے نکال کے کائناتی سوچ عطا کرتے ہیں۔ خدا والے ذاتوں اور قبیلوں پر نہیں لڑتے۔ان کے سامنے مقصدِعظیم ہوتا ہے جس کے لیے عمر تھوڑی اور کام زیادہ ہوتا ہے ۔ انہیں ان فضولیات کا وقت ہی کہاں ملتا ہے۔اقبال اس حقیقت کا شعور رکھتا تھا۔
یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندہئِ ساحل اچھل کے بے کراں ہوجا
اصل خانقاہی نظام کی حمایت:
جماعتی اور تنظیمی ڈھانچہ قائم کرنا، اس کے ممبر بنانایہ وسیع طور پہ آج کے دور کی پیداوار ہے۔پہلے اساتذہ یا مرشد کانظام ِتربیت عام تھا۔ اس نظام نے ہر دور میں جابر کو للکارا اور اصلاح پھریرا لہرایا۔ زوال کے دور میں دیگر شعبوں میں خرابی کے ساتھ اس میں بھی خرابی آئی۔ شاعرِمشرق اس خوبی کو جاننے والا اور اِس خرابی سے خبردار تھا۔ لہذا اس کے کلام میں کثرت کے ساتھ کج رو فکر پر سخت تنقید ملتی ہے۔
مست رکھو ذکر و فکر ِصبح گاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے
اقبال کا مرشد وہ ہے جو غزالی کے علاوہ دوسری بڑی شخصیت ہے جس نے اسلامی تاریخ میں تصوف اور شریعت کے تضاد کو دور کیا جو کم فہموں اور یونانی فلسفیوں کے زیرِاثر ہمارے ’’عقل پرستوں‘‘ میں پیدا ہوگیا تھا۔ یہ شمس تبریز کا عاشق مولائے روم ہے۔اور اقبال روم کا عاشق ہے۔ لہذا وہ اس روحانی چشمہئِ صافی کو امت کی صحت کے لیے لازم سمجھتا ہے۔
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِبیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
ولایت:
شاعری تو کرتے لیکن ابھی تک مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔ نومبر 1899 میں دوست حکیم امین الدین کے گھر مشاعرے میں لے گئے۔ نئے تھے لہذا نام مبتدیوں کی فہرست میں پکارا گیا۔ وہاں ایک ہجوم تھا۔ سکہ بند شاعر موجود تھے۔ غزل پڑھنی شروع کی۔ جب اس شعر پر پہنچے
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
مرزا ارشد گورگانی اچھل پڑے اور بے اختیار ہو کے داد دینے لگے۔یہاں سے اقبال کی شاعر کی حیثیت میں شہرت کاآغاز ہوا۔ وہ پوری زندگی اس ولایت کا دم بھرتے رہے اور اپنے پیروکاروں کو سبق بھی یہی دے کر گئے۔
اجتماعی زندگی کا حامی:
اقبال انفرادی زندگی کا قائل نہ تھا جیسے اسلام قائل نہیں۔ اس نے پوری زندگی تنہا نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ گزاری ۔ ان کے خوشی و غم میں شریک رہا۔ ان کے دکھ درد بانٹتا رہا۔ آخر پہ ڈاکٹر ظفرالحسن کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک منظم جماعت کے قیام کا خواہش مند جو مسلمانوں کی عظمت ِرفتہ کو بحال کرے اور غلط فہمیوں کی گرد صاف کرے۔ اس کے لیے فدائین کی جماعت اپنا کام شروع بھی کر چکی تھی مگر افسوس زندگی نے مہلت نہ دی۔
حقیقت پسندی:
وہ کوئی جذباتی لیڈر ، بانجھ مفکر نہیں تھا اور نہ ہی ہر بات کو بیرونی سازش کِہ کے ٹالنے والابے خبر ، کم عقل داعی ۔ اس کو امت کے مرض کی ٹھیک ٹھیک خبر تھی۔ وہ چاہنے والوں اور مسلمانوں کی خیر خواہی کرنے والوں کو روشنی بھی یہی دے کر گیا کہ بیرونی سازشوں پہ بھی نگاہ رکھو لیکن جانو کہ جب تم کمزور پڑتے ہو تو دشمن کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔چند خیالات ملاحظہ ہوں۔
صوفی کی طریقت میں فقط مستیئِ احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی ئِ گفتار
وہ مردِمجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کی رگ و پے میں فقط مستی ئِ کردار
……………
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
……………
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
موچی دروازے میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فقیر بولا ’’مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پائوں مارنے چاہئیں…عرب کے خطے کو یورپین معماروں نے ردی اور بیکار پتھر کا خطاب دیا تھا۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں۔ مگر جب عربوں نے ہوش سنبھالا تو یہی پتھر دنیا کے ایوانِ تمدن کی محراب کی کلید بن گیا۔ خدا کی قسم ، روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی۔ یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بل پر کھڑی ہوئی‘‘۔
دنیا پرستی سے اجتناب:
1923 ء میں سر کا خطاب ملا۔ اس کے پرانے دوست میر غلام بھیک نیرنگ نے خدشہ ظاہر کیا کہ شاید اب تم پہلے کی طرح حق بات نہ کِہ سکو۔ جواباََ فرمایا۔ ’’سیکڑوں خطوط اور تار آ رہے ہیں۔ مجھے تعجب ہے لوگ ان چیزوں کو کیوں قیمتی سمجھتے ہیں۔باقی رہا وہ احساس جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے۔سو قسم ہے اس خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے، اور قسم ہے اس برتر وجود کی جس کی وجہ سے مجھے اس خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتاہوں، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق بات کہنے سے نہیں روک سکتی‘‘
دوستوں نے زور ڈالا کہ 1923ء میں ہونے والا مجلسِ قانون ساز کا الیکشن لڑیں۔ لیکن صاف معذرت کر لی کیونکہ ایک دوست میاں عبدالعزیز اسی حلقے سے اپنی امیدواری کا اعلان کر چکا تھا۔مسلمانوں کی اجتماعی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
سبب کچھ اور ہے تو خود جسے سمجھتا ہے
زوال بندہ ئِ مومن کا بے زری سے نہیں
بااصول زندگی:
پنجاب ، علی گڑھ، الٰہ آباد، ناگ پور اور دہلی یونیورسٹی کا ممتحن تھا ۔ اٹل اصول تھا کہ سفارش کسی قریب ترین دوست کی بھی قبول نہ کرتا۔ ساری زندگی اصولوں کے ساتھ گزاری اور نوجوان جنہیں زندگی خوشگوار گزارنی ہے اس نصیحت کو پلے باندھیں کہ اصولوں پر استقلال سے چلتے رہنا کامیابی کا لازمی جزو ہے۔
20 اپریل 1938ء کو حالت خراب ہونا شروع ہوئی۔ڈاکٹروں نے صبح نئے علاج کا کہا۔ رات اچانک شانوں میں شدید درد اٹھا۔ نیند اڑ گئی۔اخیر رات میں حالت غیر ہوگئی۔ فجر کی اذانیں ہوئیں ۔ دوست احباب سمجھے رات کٹ گئی۔ نماز کو چل دیے۔ پیچھے ایک خدمت گزار علی بخش رہ گیا۔ اچانک دل میں شدیدرد اٹھا ۔ علی بخش نے سہارا دیا، اللہ کہا اور روح پرواز کرگئی۔ خبر آگ کی طرح پھیل گئی ۔ بازار بند ہوگئے۔ سب لوگ اشک بار آنکھوں سے جاوید منزل کی طرف چل دیے۔ اورپچاس ، ساٹھ ہزار لوگوں نے اپنے محسن و مربی کا جنازہ اٹھا دیا۔وہ چلا گیا اس کا عکس قائم رہ گیا جو ہمیشہ بھٹکنے والو ں کے لیے چراغِ راہ کا کام دیتا رہے گا۔ اورامت کو بیدار کرتا رہے گا یہاں تک کہ نظام ِعدل کا بول بالا ہو جائے۔

Comments

Click here to post a comment