ہوم << جادوگر فلاں فلاں کام کیوں نہیں کر دکھاتا؟ محمد زاہد صدیق مغل

جادوگر فلاں فلاں کام کیوں نہیں کر دکھاتا؟ محمد زاہد صدیق مغل

زاہد مغل فیس بک پر ایک تحریر نظر سےگزری جس کے مصنف پروفیسر ہود بھائی صاحب نے پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں جادو اور جنات وغیرہ سے متعلق ایک کانفرنس کو مضحکہ خیز بتایا اور ساتھ ہی پاکستانی یونیورسٹیز میں سائنس مخالف نظریات رکھنے والے اساتذہ کی سخت کلاس لی گئی ہے۔ البتہ مضمون کے آخر میں صاحب تصنیف قوم کو یہ سنہری اصول مرحمت فرماتے ہیں کہ،
”پاکستان کے تعلیمی اداروں کو روشن خیالی کا منبع ہونا چاہیے۔ کھلے ذہن کے ساتھ نئی سوچ کو جگہ دینی چاہیے۔ نہیں تو یہ جانوروں کا باڑہ بن کر رہ جائیں گے۔“
ہمارے خیال میں صاحب تصنیف کو اپنے لکھے ہوئے اس جملے کو بار بار پڑھ کر مضمون میں جو لکھا ہے، اس پر غور کرنا چاہیے کہ انہوں نے پورا مضمون کہیں عین اسی رویے کی بیخ کنی کے لیے تو نہیں لکھ مارا؟ اگر کھلے دماغ کا مطلب نئے نظریات اور آپشنز پر کھلے دماغ سے غور کرنے کے لیے تیار ہونا ہے تو آخر پروفیسر صاحب خود سائنسی نظریات پر نقد یا اس سے ماورا کسی طریقہ علم (مثلا جادو) پر کھلے دل و دماغ سے غور کرنے کے رویے کے ایسے متشدد ناقد کیوں ہیں؟ ان کا یہ فکری تضاد سمجھ سے بالا ترہے۔ اس مضمون کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہود بھائی صاحب نے فزکس پر کلام کرنے والے ایسے احباب کا سخت مذاق اڑایا ہے جو روایتی معنی میں ”ماہرین فزکس“ نہیں۔ لیکن قارئین کے لیے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ پروفیسر صاحب ”صرف ایک ماہر فزکس“ ہونے کے باجود فلسفہ، تاریخ، سیاسیات، معاشیات، بین الاقوامی مسائل، الہیات سمیت تمام مذہبی مسائل پر نہایت شرح و بسط کے ساتھ تبصرہ و نقد کرنے کو اپنا علمی حق سمجھتے ہیں، ہاں جب کوئی دوسرا شخص ”ان کی ڈومین نالج“ سے متعلق یہ کام کرے تو انہیں سخت ناگواری ہوتی ہے۔ خیر پروفیسر صاحب کے یہ تضادات متعدد ہیں اور ایک مختصر تحریر میں اس کا احاطہ بہرحال ناممکن ہے۔
ان کی اس تحریر کو غنیمت جانتے ہوئے فی الوقت اسی تناظر میں جادو کی اثر انگیزی پر کچھ کلام کرنا مقصود ہے کیونکہ ان کا یہ پورا مضمون اسی اثر انگیزی کا مذاق اڑانے والی ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔ جادو کی ماہیت کیا ہے، اس کی اثر پذیری کے اسباب کیا ہیں، ظاہر ہے جادو کے بارے میں مجھ جیسے غیر عالم کے لیے ان سوالات کا کوئی جواب دینا ممکن نہیں۔ مگر نصوص سے واضح ہے کہ جادو کسی نہ کسی حقیقت کا نام ہے جو بحکم الہی اثر انگیزی کی صلاحیت کا حامل ہے۔ جو حضرات جادو کی اس اثر انگیزیت یا حقیقت کے ساتھ اس کے کسی نوعیت کے تعلق کا انکار کرتے ہیں، ان کی طرف سے اس کی اثر انگیزی کے خلاف ایک عمومی اعتراض یا اشکال اٹھایا جاتا ہے کہ جادو اگر ایسی ہی قابل اثر چیز ہے تو جادوگر دنیا کا امیر ترین یا طاقتور ترین آدمی کیوں نہیں بن جاتا، امریکہ کے ایٹم بم کو غیر فعال کیوں نہیں بنا دیتا، صدر اوبامہ کو پاگل کیوں نہیں کردیتا وغیرہ وغیرہ۔ یہاں اختصار کے ساتھ اس اشکال کی بنیادی غلطی واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اصولی بات یہ یاد رکھنی چاہیے کہ ہر منظم انسانی علم مخصوص معاملات کی بابت مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے علت و معلول کے کسی نظام کا ایک سلسلہ قائم یا تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر انسانی علم میں کی جانے والی اس کاوش کی اپنی حدود و قیود ہوا کرتی ہیں، ایسے کسی انسانی علم کی شاخ کا وجود نہیں جو ”تمام مسائل و معاملات“ سے متعلق علت و معلول کے قواعد جان چکی ہو (اگرچہ سائنس کے بارے میں کسی دور میں یہ بلند و بانگ دعوی کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے ایسا ممکن ہوسکےگا)۔ چنانچہ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ علم کی ایک شاخ جو ایک قسم کے مقاصد یا مسائل میں اثر انگیزی کی حامل ہوتی ہے، دوسرے قسم کے مسائل حل کرنے میں بالکل بیکار ہوا کرتی ہے؛ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک ہی علم کی شاخ کے مختلف دھارے چند قسم کے مسائل میں مؤثر ہوتے ہیں تو چند دیگر میں ناکام۔ مثلا انسانی صحت کی مثال لیجیے۔ چنانچہ بہت سی بیماریاں جو ایلوپیتھ طریقہ علاج میں سوائے آپریشن قابل علاج نہیں، ہومیو پیتھ باآسانی ان کا علاج کردیتا ہے، اسی طرح بہت سے جسمانی مسائل ایسے ہیں جو صرف چائنیز طریقہ علاج (آکوپنچر) سے قابو میں آتے ہیں وغیرہ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیکل کے شعبے میں بےتحاشا ترقی ہوجانے کے باوجود آج بھی بے تحاشا لاعلاج بیماریاں موجود ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ لوگ ایسی بیماریوں کے سبب بھی ہر روز ہسپتالوں میں مر رہے ہیں جن کا علاج معلوم کی لسٹ میں شمار ہوتا ہے۔ تو اس سب پر کوئی یہ کہے کہ اگر میڈیکل سائنس واقعی مؤثر ہے تو لوگ ان بیماریوں سے کیوں مر رہے ہیں جن کا علاج معلوم ہے یا میڈیکل سائنس فلاں فلاں مسئلے کا حل کیوں نہیں کر رہی؟
پس جاننا چاہیے کہ جادو (یا اس نوع کے دیگر علوم و فنون) کی اثر انگیزی بھی دیگر علوم کی طرح محدود معاملات میں ہی مؤثر ہوتی ہے، وہ بھی ظنی طور پر نہ کہ قطعی کہ ہر ہر معاملے میں یہ لازما سو فیصدی نتائج دکھا کر رہےگا۔ عام طور پر جادوگر اپنے فن کا دائرہ عمل ”دلوں کے پھیرنے“ یا ”غیر مادی اسباب کے ذریعے احوال بدلنے“ جیسے معاملات بتایا کرتے ہیں (مثلا ناخلف اولاد کی اصلاح، محبوب قدموں میں، ساس کو قابو کرنا، رشتوں و روزگار کی بندش وغیرہم۔ قرآن میں میاں بیوی کے درمیان لڑائی ڈلوانے کے حوالے سے اس اثر انگیزی کا خصوصی ذکر موجود ہے) اور بعض اوقات بعض نوعیت کے ”مادی اثرات“ کے پیدا کرنے یا ان کے ضیاع کو بھی اس فن کے ماہرین اپنے فن کا دائرہ عمل بتاتے ہیں (مثلا بعض نہ ٹھیک ہونے والی بیماریوں کا علاج وغیرہ؛ جیسے احادیث میں رسول اللہ ﷺ پر جادو کی وجہ سے جسمانی ضعف کے اثرات مرتب ہونے کا ذکر آتا ہے)۔ چنانچہ ایسی کوئی عقلی وجہ اور دلیل نہیں جس کی بنا پر ان ”مخصوص معاملات“ میں ”مخصوص پیمانے“ پر جادو کی اثر انگیزیت ماننے سے انکار کر دیا جائے۔ ایسا انکار یا تو ہٹ دھرمی کی علامت ہوتا ہے اور یا اس فن کی ماہیت سے لاعلمیت کا اظہار۔
اس وسیع و عریض کائنات میں علل و معلول کے نجانے کتنے سلسلے موجود ہیں، ان میں سے ہر سلسلے کی اپنی جداگانہ حدود ہیں۔ انسان ان سلسلوں میں سے شاید ابھی بہت کم کو دریافت کرسکا ہے۔ جس زمانے میں ”سائبر ورلڈ“ کا تصور موجود نہ تھا اس زمانے کے انسان کے لیے فیس بک پر میرا یہ الفاظ لکھ کر ہزاروں لوگوں تک یوں باآسانی پہنچا دینا آخری حد تک ایک ناقابل فہم امر ہے (بندے کی بزرگ والدہ کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ موبائل کارڈ سے ایک نمبر موبائل میں لکھنے سے پیسے موبائل کے اندر کیسے آجاتے ہیں!)۔ پس ایک مخصوص ماحول (سائنسی علمیت کے غلبے کے دور) میں آنکھ کھولنے کی وجہ سے کسی ایک خاص سلسلہ اسباب ہی کو واحد مؤثر سلسلہ اسباب سمجھ لینا اور دیگر کی اثر انگیریت کو ان کی مخصوص حدود کی بنا پر رد کردینا صرف و صرف اپنے مخصوص تجربات کے ساتھ وابستہ اپنے تعصب کا اظہار ہے اور بس۔ نئے نظریات پر کھلے دل و دماغ سے غور و فکر کی دعوت دینے والوں کو چاہیے کہ اپنے دل و دماغ کو کبھی کبھار سائنسی تعصبات سے آزاد کروا کر کائنات پر غور و فکر کرنے کی کوشش فرمایا کریں۔

Comments

Click here to post a comment