ہوم << موت کے ہرکارے - سجاد حیدر

موت کے ہرکارے - سجاد حیدر

سجاد حیدر باپ دل کا مریض تھا، بغرض علاج فیصل آباد کارڈیالوجی میں داخل تھا. عید نزدیک آئی تو ماں نے کہا کہ بڑی بہن کو جا کر عید دے آؤ، چھوٹی بہن نے ضد کر دی کہ مجھے بھی لے جاؤ بہن سے ملوانے ... بہنیں سہیلیاں بھی تو ہوتی ہیں ناں، اس نے چھوٹی بہن کو موٹر سائیکل پر بٹھایا اور اپنےگاؤں جو مین روڈ پر واقع تھا، سے بیس کلومیٹر دور دوسرے گاؤں، جہاں بہن بیاہی تھی، روانہ ہوگیا. عید دے کر دونوں بہن بھائی واپس آ رہے تھے کہ تیز رفتار بس کی ٹکر لگی، بھائی موقع پر دم توڑ گیا، اور بہن ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر گزر گئی. ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی، ماموں اور نانی ان بچوں کے قلوں میں شرکت کے لیے موٹر سائیکل پر آ رہے تھے کہ تقدیر نے پھر ہاتھ دکھایا، اب کی بار بہانہ آئل ٹینکر بنا، ماموں موقع پر ختم ہوگیا اور نانی معذور ہو گئی. یہ صرف ایک واقعہ ہے مگر پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے طول و عرض میں ہر جگہ ہر روز یہی کہانی دہرائی جاتی ہے. قصور کس کا ہے. مرنے والوں کا جو موٹر سائیکل کو ہر جگہ آنے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، بس ڈرائیوروں کا جو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کرنے کے چکر میں بے تحاشا رفتار سے گاڑیاں چلاتے ہیں، ٹرانسپورٹ مالکان کا جنہوں نے لمبے روٹ کی سواری کو ہی اپنا ٹارگٹ بنایا ہوا ہے، اور مضافات اور کم فاصلے کی سواری کے لیے کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ موٹر سائیکل یا چنگ چی رکشہ کو استعمال کریں. حکام بالا جو اپنے ٹھنڈے گرم کمروں میں بیٹھ کر صرف مراعات حاصل کرتے ہیں، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے.
اگر دیکھا جائے تو یہ تمام عوامل اپنی اپنی جگہ کارفرما ہیں. ایک وقت تھا کہ ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسیں چلتی تھیں، اور ایک مناسب وقفہ کے بعد ایک ایسی بس نکلتی تھی جو مضافات اور چھوٹے دورانیے کے سفر کرنے والے مسافروں کے لیے ہوتی تھی. زیادہ لمبے عرصے کی بات نہیں، جب جھنگ سے ملتان کے روٹ پر اپنے گاؤں کے لیے بس، کا ملنا مشکل ہوتاتھا لیکن ناممکن نہیں، کیونکہ ہرگھنٹے دو گھنٹے کے بعد ایک بس نکلتی تھی جو شٹل کہلاتی تھی، اب پتہ نہیں اس کا خلائی شٹل سے کوئی تعلق تھا یا نہیں لیکن ہمیں آخری سیٹ جو ستاں آلی سیٹ کہلاتی تھی کہ اس پر سات سواریاں بیٹھنے کی گنجائش بنا دی گئی تھی. اور اگر وہ بھر جاتی تو پھر کھڑے ہو کر سفر کرنا ہمارا مقدر تھا. ہمارے ایک انکل کے بقول آپ پیچھے بےشک جہاز پر بیٹھ کر آئیں لیکن آخر میں شٹل کی ستاں والی سیٹ پر ہی بیٹھنا پڑتا تھا. جب کبھی ملتان جانا ہوتا تو سب سے بڑی عیاشی اور لگژری آگے والی سیٹوں پر بیٹھنا تھا کہ عام حالات میں وہ ہمارے لیے شجر ممنوعہ تھیں. اور اگر کبھی شومی قسمت یا گاڑی خالی ہونے کی صورت میں اگلی سیٹیں مل بھی جاتیں تو راستے میں توڑ کی سواری ملنے کی صورت میں جس عزت افزائی سے ہم وہ سیٹ خالی کرتے تھے، وہ کچھ ہم جانتے ہیں یا جس نے اسے بھگتا ہے. یعنی پروٹوکول میں ہمارا نمبر سب سے آخری تھا.
پھر یوں ہوا کہ ہائی ایس ویگنوں کا رواج آ گیا، اب وہ گاڑی جو ڈرائیور سمیت صرف 15 افراد کے لیے بنائی گئی تھی، اسے کانٹ چھانٹ کر 24 افراد کے لیے تیار کر دیا گیا. عورت مرد کی تخصیص کیے بغیر بھیڑ بکریوں کی طرح سواریاں ٹھونسنے کا عمل شروع ہو گیا، پردہ دار خواتین مجبور تھیں کہ مردوں کی ٹانگوں میں ٹانگیں گھسا کر بیٹھیں، مرد اپنی جگہ سکڑے سمٹے شرمندہ ہو رہے ہیں اور خواتین الگ خوار ہو رہی ہیں. اگرچہ ان کی رفتار بہتر تھی لیکن یہی رفتار ہی ان کی سب سے بڑی خامی بھی تھی کہ حادثے کی صورت میں کسی فرد کا بچنا معجزہ سمجھا جاتا تھا. پھر دور بدلا اور نئی نحوست چنگ چی رکشہ آ گیا. یہ ایسی بے ہودہ سواری ہے جو بریک سے بےنیاز ہے کیونکہ یہ موٹر سائیکل کو کانٹ چھانٹ کر بنایا گیا ہے. موٹر سائیکل میں جو بریک ہوتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ دو افراد اور موٹر سائیکل کے مومینٹم کو روکنے کے لیے بنائی گئی ہے. اب اس گاڑی پر جب آٹھ افراد سوار ہوں گے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتنے زیادہ مومینٹم کو روکنے کے لیے بچاری بریک کتنی لاچار و لاغر ہے. آئے دن سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی اور بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ ہر جگہ اور ہر وقت ان رکشوں کی رسائی اور استعمال ہے. آپ شہر کے اند یا باہر، دیہاتوں میں کہیں بھی چلے جائیں، آپ کو دس بارہ سال کی عمر کے بچے یہ رکشے چلاتے نظر آئیں گے. یہ بچے ہر جگہ اپنی اور لوگوں کی جان سے کھیلتے نظر آتے ہیں، نہ کسی قانون کی پرواہ، نہ کسی ظابطے کا خیال، نہ کوئی لائسنس چاہیے اور نہ تربیت کی ضرورت.. بس سواری ملے نہ ملے، سپیڈ 190. ایک طوفان بدتمیزی ہے جو ہر جگہ برپا ہے. آپ اس میں بیٹھ جائیں، مجال ہے کہ ایک لمحہ بھی سکون میسر آجائے. ہر وقت یہی دھڑکا کہ اب ٹکر ہوئی کہ اب. ایک دماغ کو دہی بنانے والا شور ہے اور بے تحاشا رفتار. لیکن کیا کیا جائے، عوام کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں، سستی اور ہر جگہ میسر آنے والا یہی ذریعہ آمد و رفت ہے، جو ملک کی 80 فی صد عوام کا مقدر ہے. ان رکشاؤں کے کم عمر ڈرائیوروں کو دیکھ کر چائلڈ لیبر کی جگہ چائلڈ کلر کا لفظ مناسب لگتا ہے، چائلڈ لیبر کا یہ پہلو کتنا خوفناک ہےکہ ایک غیر تربیت یافتہ اور انتہائی کم عمر بچے کے ہاتھ میں کئی انسانوں کی جان دے دی گئی ہے. جو موت کے ہرکارے بن کر نہ صرف اپنے رکشاً میں بیٹھنے والی سواریوں بلکہ سڑک پر چلنے والی ٹریفک کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہیں. حکومتوں کے اقدامات بھی نمائشی سے زیادہ نہیں کہ جب یہ برائی پنپ رہی تھی، اس وقت سب ادارے بےحسی کی نیند سو رہے تھے اور اب ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ کوئی بھی اقدام جو ان رکشاؤں کے خلاف اٹھایا جائے گا، وہ ایجی ٹیشن اور بدامنی پر ختم ہوگا. کراچی میں کریک ڈاؤن ناکام ہو چکا ہے کیونکہ اس طرح کا کوئی بھی کام بہت جلد مافیاز کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے. دوسری طرف متبادل میسر نہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی مجبور ہے کہ انہی چلتے پھرتے عفریتوں پر سواری کریں.
دیہات اور چھوٹے شہروں میں رہنے والے مجبور ہیں کہ انھی رکشوں اور موٹر بائیکس کو استعمال کریں کیونکہ لمبے سفر پر چلنے والی آرام دہ اور ایئر کنڈیشن بسوں میں ان کی کوئی جگہ نہیں. چھوٹے روٹ پر چلنے والی بسوں کی شدید قلت اور تیز رفتار زندگی سب مل کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ انھی غیر میعاری اور خطرناک ذرائع کو استعمال کریں. مجھے خود الیکشن کے دن کوئی اور ذریعہ میسر نہ آنے کی صورت میں چنگ چی پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا. کیا آپ یقین کریں گے کہ رکشہ پر ڈرائیور سمیت 9 افراد سوار تھے اور ساتھ بونس میں ایک بکرا بھی سواریوں میں شامل تھا .. وہ آدھا گھنٹہ صدیوں پر محیط ہو گیا.
ہمارے حکمرانوں نے شاید اسے بالواسطہ طور پر خاندانی منصوبہ بندی کا ایک طریقہ سمجھ لیا ہے کہ نہ مولویوں کی مخالفت کا سامنا کرے پڑے گا اور نہ کوئی الزام آئے گا. لیکن ایسا ہمیشہ چلنے والا نہیں. عوام میں بھی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ تھوڑا سا وقت بچانے کی خاطر اس طرح اپنی اور دوسروں کی زندگی داؤ پر لگانا کوئی عقل مندی کا کام نہیں، اپنے بچوں کو یتیم بنانے اور خواتین کو بے سہارا کرنے کے بجائے اگر انتظار کر لیا جائے تو بھی گزارا ہو سکتا ہے. حکمرانوں سے بھی گزارش ہے کہ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو بیدار کر کے اور حکام کو گرم کمروں سے نکال کر چھوٹے روٹ پر چلنے والے مسافروں کی فلاح و بہبود کے لیے ٹرانسپوٹرز حضرات کے ساتھ مل کر کوئی لائحہ عمل طے کا جائے. لائسنس یافتہ شخص ہی سڑک پرگاڑی یا موٹر سائیکل لے کر آ سکے، ایک کریک ڈاؤن کیا جائے کہ بغیر لائسنس کوئی شخص گاڑی، رکشہ یا موٹر سائیکل ڈرائیو نہ کر سکے. لائسنس کے حصول کے طیقہ کار کو آسان بنایا جائے. اس وقت حالت یہ ہے کہ جو شخص پچھلے تیس سال سےگاڑی چلا رہا ہے، وہ بھی ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ٹیسٹ صرف ٹریفک پولیس کے لیے اضافی آمدنی کا ایک ذریعہ ہے نہ کہ مہارت چیک کرنے کا ٹیسٹ. والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو اپنے اور دوسروں کے لیے باعث آزار نہ بنائیں اور ان کی تربیت کی طرف توجہ دیں. اس ضمن میں ڈرائیونگ سکولوں کی فیسوں کو مانیٹر کرنے اور انسٹرکٹرز کی تربیت کا اہتمان بھی حکومت اور سماجی اداروں کی ذمہ داری ہے.
خدارا اس طرف توجہ کیجیے کہ دنیا بھر میں ٹریفک کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ، قابل رسائی اور سستا کیا جاتا ہے تاکہ لوگ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا استعمال کم سے کم کریں. اس سے نہ صرف سڑکیں محفوظ ہوتی ہیں بلکہ ایندھن کے استعمال کو کم سے کم کر کے قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جاتا ہے، لیکن اپنے وطن عزیز میں الٹی گنگا بہ رہی ہے، اور کوئی پرسان حال نہیں ہے.