ہوم << ’’ک سے کشمیر اور ک سے کراچی‘‘ - احسان کوہاٹی

’’ک سے کشمیر اور ک سے کراچی‘‘ - احسان کوہاٹی

یہ ایک جنازے کا جلوس تھاجس میں شریک کچھ نوجوانوں نے اپنے چہرے بڑے رومال سے چھپا رکھے تھے اور کچھ اس مصلحت سے بے نیاز دیوانہ وار نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ،جوں جوں یہ نوجوان آگے بڑھتے جارہے تھے ان کی تعداد میں اضافہ ہوتاجا رہا تھا جو بھی ان نوجوانوں کے کاندھوں پر دھرا جنازہ دیکھتا وہ بھی نعرے لگاتا ہوا ساتھ ہو لیتا،ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ نوجوان جادوگر ہیں طلسم گر ہیں یاکوئی سحر پھونکنے والے ہیں کہ جو بھی دیکھتا ہے ساتھ چل پڑتا نتائج کی پرواہ کئے بغیر۔
سیلانی آپ کو بتائے کہ وہ نوجوان جادوگر تھے نہ سحر پھونکنے والے البتہ ان کے پاس طلسم ضرور تھا اور و ہ تھا ان نوجوانوں کے کاندھوں پر رکھے جنازے کا جسے سبز ہلالی پرچم نے ڈھانپ رکھا تھا ،اس سبز ہلالی پرچم کومیں اور آپ نظر انداز کر سکتے ہیں کوئی کشمیری نہیں کرسکتا اور جب یہ پرچم کسی جسد خاکی پر ہو توپھر کشمیریوں کو ڈوگروں کی لاٹھیاں روک سکتی ہیں نہ گورکھوں کے بندوقیں ،پاکستانی پرچم میں ڈھکے جنازے کا مطلب ہی آزادی ء کشمیر پر قربان ہونا والے کسی شہید کے جنازہ کاہوناہے پھرکوئی کشمیریوں کو روک کر تو دکھائے اور یہ تو پھر سری نگر تھا وہ سری نگر کہ جہاں کشمیریوں نے اپنی گھڑیاں بھی پاکستان کے وقت کیے ساتھ ملا رکھی ہیں
سری نگر میں سولہ سالہ قیصر حمید صوفی شہید کے جنازے کے ساتھ کشمیری بڑے ہی جذباتی انداز میںساتھ چل رہے تھے ،فضاپاکستان ،پاکستان اور آزادی کے نعروں سے گونج رہی تھی،یہاںپرجوش نعرے کشمیریوں کو لہو گرما رہے تھے اوردوسری طرف سامنے کھڑے بھارتی سرکار کے تنخواہ دار پیچ وتاب کھا رہے تھے شالیمار کا رہائشی دسویں جماعت کا طالب علم قیصر حمیدصوفی ان نوہزار کشمیری بچوں میں سے ایک تھا جسے سیکیورٹی فورسز نے سلاخوں کے پیچھے دھکیل رکھا ہے ان کی نظر میں یہ بچے حریت پسنداوربھارت سے باغی ہیں ان کے ہاتھوں میں پتھر ہوتے ہیں اسپرے گن ہوتی ہے یہ پتھروں سے گورکھوں ،ڈوگروں کی بندوقوں کا مقابلہ کرتے ہیں اوردیواروں پر آزادی کے نعرے لکھتے ہیں یہ بچے جلسوں جلوسوں میں شرکاء کے کندھوں پر چڑھ کرپاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں،اپنے گھروں میں چھپائے گئے پاکستانی پرچم جلسوں جلوسوں میں پہنچاتے ہیں،سلیم ناز بریلوی کی نظموں سے دلوں کو گرماتے ہیں شوق شہادت ابھارتے ہیں۔۔۔یہی جرم قیصرحمید صوفی کا بھی تھا اسے سبق سکھانے کے لئے فورسز نے اٹھائیس اکتوبر کو اٹھا یا اوربدترین تشدد کرنے کے بعد زہر کا انجکشن دے کر ایک نالے میں پھینک دیا ،قیصر اپنے گھر والوں کو تشویش ناک حالت میں ملا اسے فوری طور پر شیر کشمیرانسٹییوٹ آف میڈیکل سائنسز میں داخل کیا گیا جہاں اس نے اکھڑتی سانسوں سے ماں کو بتایا کہ اسے فورسز نے زہر دیا ہے،قیصر حمید کے یہ الفاظ اسکی زندگی کے آخری الفاظ ثابت ہوئے وہ کومے میں چلا گیا کبھی واپس نہ آنے کے لئے۔
یہ اسی قیصر حمید صوفی شہیدکا جنازہ تھا اور کشمیر میں شہیدوں کے جنازوں کی اپنی ہی شان ہوتی ہے ،پاکستان کے دیوانے اپنے شہیدوں کوپاکستانی پرچم میں لپیٹ کراس آن سے لے کر چلتے ہیں کہ نئی دہلی میں بھارتی نیتاؤں کے سینوں پر سانپ لوٹ جاتے ہیں،یہاں بھی ایسا ہی ہوا قیصر کا جنازہ آزادی کے نعروں کی گونج میں آگے بڑھ رہا تھا کہ بھارتی سیناؤں نے اپنی اخلاقی اورتہذیبی پستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلوس پر اندھا دھند شیلنگ کر دی،شیلنگ سے فضا تیزابی ہوگئی لیکن لوگوں کے کاندھوں سے شہید کا جنازہ نہ اترنا تھا نہ اترا،یہ دیکھ کر پولیس لاٹھیاں لئے جلوس کے شرکاء پر پل پڑی ،اس شیلنگ اور لاٹھی چارج سے بیس کے قریب کشمیری زخمی ہوئے لیکن جلوس رکا نہ شہید کے جنازے سے کسی کا کندھا سرکاکسی نے شہید کے جنازے کا تقدس پامال نہ ہونے دیا بلاخر جنازہ ایک میدان میں لایاگیا ،کشمیر میں شہیدوں کے جنازے میدانوں میں ہی پڑھے جاتے ہیں مسجدوں کے صحن جنازوں میں شریک ہزاروں لوگوں کو سمونے کی وسعت نہیں رکھتیں،کم سن شہید کا جنازہ بھی ایک کھلے اور وسیع میدان میں ادا کیا گیااور اسے شہداء کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔
سیلانی اور سیلانی جیسے پاکستانیوں کو قیصر محمود صوفی سے اردو اخبارات اور اردو اخبارات میں سے بھی چندہی نے متعارف کرایا ہوگا،سوسائٹی پر کسی جاڑے کی کہر کی طرح چھائے ہوئے الیکٹرانک میڈیا میں سے تو شائد چار چینلز نے ہی بیس سکینڈ کی خبر نشر کرنے کی ضرورت محسوس کی ہو ،کراچی میں فرقہ وارآنہ ٹارگٹ کلنگ اور پولیس رینجرز کے چھاپوں کی بریکنگ نیوزوں اور فیشن شو کی رنگین خبروں کے بعد وقت بچتا تویہ قومی فریضہ ادا کیاجاتا ناں۔
سیلانی گھر آنیوالے صبح کے اخبارات سے پہلے پاکستان پر جان واردینے والے کسی قیصر حمید صوفی کا جانتا تھا نہ اس کے جنازے پر بھارتی فورسز کی کتوں کی طرح پل پڑنے کی خبر اس تک پہنچی تھی روزنامہ امت میں صفحہ ء اول پر شہید کے جنازے کی خبر نے اسے لیپ ٹاپ اٹھانے اوراس خبر کا فالواپ لینے مجبور کیا تھوڑٖی سی محنت کے بعد اس کے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر قیصر محمود کے جنازے کی فوٹیجز موجود تھیں اوروہ اپنی آنکھوں سے بھارتی سورماؤں کو ایک کشمیری بچے کے جنازے پر شیلنگ کرکے بھارت ’’بچاتے‘‘دیکھ رہا تھا۔
لیپ ٹاپ پر یہ مناظر دیکھتے ہوئے اسے شدت سے میڈیا کے آنکھوں میں اترآنے والے سفید موتیا کا احساس ہوا اورپھر یہ احساس اسے کراچی کے جامعہ دراسات میں جماعۃ الدعوہ کے امیر حافظ محمد سعید کی گفتگو یاد دلانے لگا،حافظ محمد سعید کا سیاست سے دور پار کا بھی واسطہ نہیں مگر سیاست اور عالمی سیاست پروہ بلاکی نظر رکھتے ہیں،نیوز کانفرنس سے پہلے کمرے میں ہونے والی ملاقات کے دوران حافظ صاحب نے سیلانی سے وہی بات کہی جو کمرے سے باہر نیوزکانفرنس میں کہی تھی ان کا کہنا تھا کہ ملک میں یہ بے چینی یہ خلفشار اور سیاسی گرما گرمی یوںہی خود بخود نہیں ہوجاتی ،یہ حالات پیدا کئے جاتے ہیںاس کے مخصوص مقاصد ہوتے ہیں اس آگ کی آنچ نئی دہلی اور کابل سے اونچی کی جاتی ہے تاکہ کشمیر سے اونچی ہونے والی آزادی کی آواز پاکستان تک نہ پہنچ سکے اورپاکستان اسے دنیا تک نہ پہنچاسکے،یہ آواز کبھی پہنچے بھی توپاکستانی اس پر کان نہ دھر سکیں، حافظ محمد سعید صاحب نے اسے سازش قرار دیا تھا اور عمران خان سے درخواست کی تھی کہ وہ اسلام آباد بند کریں نہ حکومت کسی کو بند کرے۔۔۔حافظ صاحب تو عمران خان اور حکومت کے درمیان ثالثی پر بھی رضامند ہوگئے تھے کہ اس وقت تحریک آزادی ء کشمیر کو ہماری مکمل توجہ چاہئے انہیں قوم کی سپورٹ چاہئے ،۸۰ء کی دہائی کے بعد کشمیر کی آزادی کی تحریک اس نہج پربڑے عرصے بعد آئی ہے یہ وقت ایک ہو کر کشمیر کے لئے بات کرنے کا ہے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا نہیں ہے ۔۔۔خدا خدا کرکے وہ کڑا وقت چھ روز ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر جمے رہنے کے بعد رخصت ہوا تو کراچی میں فرقہ وارآنہ قتال شروع ہو گیااس سے پہلے کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر میں خودکش حملہ نے میڈیا پر قبضہ کر رکھا تھا،حافظ صاحب کے تجزیئے کے ساتھ ہی سیلانی کو ملکی سلامتی سے متعلق ایک ادارے میںذمہ داریاں ادا کرنے والے دوست کی بات بھی یاد آگئی ،کچھ عرصہ پہلے کراچی آمد پر مختصر ملاقات میںانہوں نے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ترجمان سمجھے جانے والے صحافی بھرت ورما کے چھ لفظوں کا ذکر کیا تھاکہ بھرت ورما نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا
K for KASHMIR
K for KARACHI
یہ سیدھی سیدھی دھمکی تھی کہ اگر ک سے کشمیر آتا ہے تو ک سے کراچی بھی آتا ہے ۔۔۔آپ کشمیر کی تحریک آزادی کو سپورٹ دو گے تو ہم کراچی کو’’کشمیر‘‘بنا دیں گے۔۔۔برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کشمیر جس رفتار اور قوت سے اٹھی ہے اسی رفتار سے ملکی حالات اورخاص کر کراچی کے حالات بگڑے ہیں،کراچی میں ’’مقبوضہ کراچی نامنظور‘‘ کا نعرہ بڑا ہی معنی خیز ہے اور اب بھارت نے بلیک بورڈ پر ’’ک‘‘ سے کراچی کے بعد ’’ک ‘‘ سے کوئٹہ بھی لکھ ڈالا ہے کاش ہم سمجھ سکیں ،کاش ہم تدبر سے کام لے سکیں ،کاش ہم تکمیل پاکستان کی اس تحریک کو بے ثمر ہونے سے بچا سکیں اور کاش ہمارا میڈیا اپنا فرض ادا کر سکے کہ اس وقت بڑی اہم ذمہ داری ہی ٹیلی ویژن کی اسکرینوں کی ہے ۔۔۔۔سیلانی یہ سوچتا ہوا مٹھیاں بھینچ کرسرینگر میںکم سن شہید کے جنازے پر بھارتی فورسز کو شیلنگ کرتادیکھنے لگا اور غم و غصے سے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

Comments

Click here to post a comment