ہوم << دادا جی کے نام ایک خط - انعام رانا

دادا جی کے نام ایک خط - انعام رانا

انعام رانا پیارے دادا،
سلام۔ امید ہے خیریت سے ہوں گے۔
ہم دونوں ایک دوسرے کو کم ہی جانتے ہیں کہ ایک دوسرے کو دیکھ نہ پائے۔ ابا فقط پانچ برس کے تھے جب آپ چل دیے۔ آپ کو تو نہیں دیکھا مگر آپ کے نہ ہونے کی وجہ سے ابا کی آنکھوں میں ایک محرومی سدا دیکھی۔ ابا نے آپ کے نہ ہونے کے بعد بہت محنت کی، زندگی بنائی۔ خیر اپنی کہانی تو وہ آپ کو خود سناتے ہی ہوں گے تو میں مزا خراب کیوں کروں؟ تو ابا کی آنکھوں میں ہمیشہ آپ کے نہ ہونے کی کمی ضرور دیکھی۔ امی کہا کرتی ہیں کہ یتیموں کے چہرے بدل جاتے ہیں۔ میری آنکھیں کبھی بہت شرارتی ہوا کرتی تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میری اولاد کو بھی میری آنکھیں ویران ویران لگا کریں گی۔
تو دادا، آپ کو جتنا جانا وہ یا تو دادی کی باتوں سے جانا، یا پھر ابا کے مختصر جملوں سے جنھیں پورا کرتے ان کی زبان لڑکھڑا جایا کرتی تھی۔ وہ بیچارے بھی کیا کرتے، باپ خواہ پانچ برس کی عمر میں یتیمی کا داغ دے جائے، نشان ساری عمر نہیں جاتا۔ وہ ہمیشہ مجھ سے بہت سخت رویہ رکھتے تھے۔ بہت سال پہلے شاید میں دس گیارہ سال کا تھا تو ان سے شکوہ کیا تھا۔ بہت عرصے بعد اس دن انھوں نے نرمی سے بات کی۔ کہنے لگے کہ میں بہت چھوٹا تھا جب تیرے دادا فوت ہوگئے۔ ویسے تو میں نوے سال سے پہلے نہیں مروں گا، مگر میں چاہتا ہوں کہ تو مظبوط مرد بنے۔ دادا، ابا گو جھوٹ نہیں بولتے تھے مگر یہاں ڈنڈی مار گئے، نوے سے پہلے ہی مر گئے۔ ابھی تو میں مظبوط بھی نہیں ہوا تھا، میں اب بھی کبھی کبھی رو پڑتا ہوں، ابا کے کان ضرور کھینچنا، مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟
تو دادا، دادی کہتی تھی کہ آپ کو گھوڑے بہت پسند تھے۔ دادی نے ساری عمر کبھی چوڑیاں یا لال رنگ نہیں پہنا۔ ہمیشہ سفید پہنتی تھی، جب بھی میں آپ کا پوچھتا تو چڑ جاتی تھی، اور چڑ کر کہتی تھی کہ تیرے دادے کو گھوڑوں کا دکھ لے کر بیٹھ گیا۔ دادی کہتی تھی کہ جب اجاڑے پڑے۔ لو سنو دادا، دادی اس اسلامی مملکت کے قیام کو ”جب وطنوں سے اجاڑے گئے“ کہتی تھی۔ شکر ہے وقت سے مر گئی، ورنہ غداری کا مقدمہ چل جاتا۔ تو کہتی تھی کہ جب اجاڑے پڑے اور گھوڑے چھوڑ کر بھاگنا پڑا، تو تیرا دادا جو آدھا مرا تھا، پورا مر گیا۔ بس لاش پاکستان بننے کے تین برس بعد دفنائی تھی۔
دادا، دادی سناتی تھی کہ آپ کو گھوڑوں سے عشق تھا۔ شاید خون میں ہے کہ مجھے بھی بہت پسند ہیں۔ جانتے ہو ایک دور میں پولو بھی کھیلتا تھا۔ اور جو گھوڑا پٹھے پہ ہاتھ نہیں رکھنے دیتا تھا، میرے استاد، حاجی ساب کہتے تھے، رانے اس پہ بیٹھ۔ میں کبھی گھوڑے سے گرا نہیں، شاید گھوڑے بھی میرے خون کو پہچانتے تھے۔
دادا، سنا ہے کہ آپ بہت زبردست گھوڑے پالتے تھے۔ سنا کہ ہوشیار پور (موجودہ ہندوستان) میں آپ کے مقابلے کے گھوڑے کسی کے پاس نہ تھے۔ آپ کےگھوڑے ناچتے بھی تھے، نیزہ بازی بھی کرتے تھے اور سواری بھی کراتے تھے۔ انگریز آپ سے گھوڑے خریدتے تھے، مگر پھر دوسری جنگ عظیم میں ایک ڈپٹی کمشنر آیا اور آپ کے سب جوان گھوڑے لےگیا کہ بادشاہ کو جنگ جیتنی تھی۔ دادی کہتی تھی کہ آپ کا کوئی جوان بیٹا ہوتا تو اس کی جبری بھرتی پہ آپ کو دکھ نہ ہوتا شاید کہ جنگ راجپوت کا زیور ہے، مگر گھوڑے چھینے جانے پر آپ آدھے مر گئے تھے۔ آپ نے غم میں کئی دن کچھ نہ کھایا اور گھوڑوں کو یاد کرتے رہے جو کبھی واپس نہ ملے۔ میں ہنستا تھا دادا، پر جب سے آپ کی جرمن بہو نے میرا کتا بہانے سے اپنے بھائی کو چھین کر دے دیا، میں اب آپ کا دکھ سمجھتا ہوں۔ شاید میں بھی آدھا، مگر آدھا تو ابا کے ساتھ ہی مرگیا تھا، چلو آدھے سے کچھ زیادہ مرگیا ہوں۔
دادا، ابا گئے تو میں نوجوان تھا۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ کیسے مجھے پاکستان چھوڑنا پڑا۔ پھر اپنے خوابوں کے تعبیر ڈھونڈتے، محنت کرتے، میں لندن میں بھی وکیل بن گیا، اب تو الحمدللّٰہ اپنی فرم بنا لی ہے۔ ابا نے بہت پڑھا دادا، کہ سنا ہے آپ نے دادی سے کہا تھا کہ میرے بیٹوں کو پڑھنے سے نہ روکنا۔ دادی نے سب زمین بیچ دی مگر جو جتنا پڑھنا چاہتا تھا، اسے پڑھایا۔ ابا کو وصیت کا موقع نہیں ملا، مگر کرتے تو یقینا کہتے کہ انعام ایک بڑا وکیل ضرور بنے۔ دادا، ان کو بتانا کہ میں اب لندن کا ایک مشہور وکیل ہوں۔ کئی بار ان کو خط لکھنا چاہا، پر ”پیارے ابا“ لکھتے ہی نہ جانے کیوں صفحہ بھیگ جاتا ہے، کچھ لگنے کے قابل نہیں رہتا۔
دادا، کل ایک گورا آیا تھا، کوئی ساٹھ برس کا، مجھ سے نوکری مانگنے، اچھا وکیل تھا۔ باتوں میں بتانے لگا کہ اس کا باپ، سن اکتالیس میں ہوشیار پور کا ڈپٹی کمشنر تھا۔ دادا، جس نے آپ کے گھوڑے چھینے کیا اس کا نام بھی مورلینڈ تھا؟ دادا، آپ کتنے عظیم تھے جو تعلیم پر یقین رکھتے تھے۔ آپ نے ایک کسان خاندان میں تعلیم کا رواج ڈالا، جسے ابا نے قائم رکھا۔ آج اسی تعلیم کی وجہ سے گورے مجھ سے نوکری مانگتے ہیں۔ دادا مورلینڈ کے باپ نے آپ کے گھوڑے چھینے یا نہیں، میں نے مورلینڈ کو نوکری پر رکھ لیا ہے۔ جو کل آپ کے گھوڑے چھینتے تھے، آج آپ کے پوتے کے لیے کام کرتے ہیں۔
ابا کو کہیے گا، انعام نے غلامی کا داغ اتار ڈالا ہے۔
آپ کا پوتا،
انعام