ہوم << A Journey of Poster Boy - نصراللہ گورایہ

A Journey of Poster Boy - نصراللہ گورایہ

نصر اللہ گورایہ یہ 19ستمبر 1994ء کا ایک خوبصورت دن تھا کہ مظفر وانی کو اللہ تعالیٰ نے ایک نیک سیرت اور پاکباز بیٹا عطا کیا۔ خاندانی روایات کے مطابق ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا گیا او برہان مظفر وانی نام رکھا گیا۔ اس وقت کہ جب نام تجویز کیا جا رہا تھا تو شاید یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ برہان واقعتا اللہ کی برہان بن کر رہے گا۔ مظفر وانی مقبوضہ کشمیر کے ڈسٹرکٹ پلوامہ اور ولیج ترال شریف آباد کے رہنے والے ہیں۔ ان کا تین منز لہ خوبصورت گھر اور گھر کے بالکل سامنے مسجد اور مسجد سے بلند ہونیوالی صدائیں وانی خاندان کو فوزو فلاح کی طرف بلاتیں اور یہ خاندان اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے کھنچا چلا جاتا۔مظفر وانی مقامی ہائیر سکینڈری سکول کے پرنسپل ہیں اور ان کی اہلیہ بھی سائنس میں پوسٹ گریجوایٹ ہیں جب کہ وہ بھی مقامی سکول میں بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھاتی ہیں۔ مظفر وانی اور ان کی بیوی نے اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی اور برہانی وانی کے بڑے بھائی خالد وانی نے کامرس میں پوسٹ گریجوایشن کی۔
برہان وانی اپنے اخلاق و کردار کی وجہ سے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے گائوں میں مشہور تھا۔ گلی محلے کے کسی بزرگ نے کوئی کام کہا تو برہان کی یہ خواہش ہوتی کہ وہ اپنا کام ادھورا چھوڑے پہلے ان کی خدمت سرانجام دے ۔ برہان وانی اپنی اوائل عمری میں ہی مسجد جانے لگا اور دھیرے دھیرے مسجد کے ایک مستقل ممبر کی حیثیت اختیار کر لی۔اللہ تعالیٰ نے باطنی خوبصورتی کے ساتھ برہان کو جسمانی خوبصورت سے بھی خوب نوازا تھا۔ گہری کالی آنکھیں ، خوبصورت سیاہ بال، ستواں ناک 6فٹ قد اور سرخ و سفید رنگت کا مالک یہ نوجوان اپنے بارے میں کہتا ہے:
I am Burhan, I could have won the most beautiful man award of India, I chose to color my chest with blood and become a martyr for Azadi.
اپنی کلاس میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن لینے ولا یہ نوجوان Cricket loving boy کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وریندر سہواگ اور شاہد آفریدی اس کے پسندیدہ کرکٹرز میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے دوست کہتے ہیں کہ وہ ایک بہترین بلے باز تھا اور اگر وہ فریڈم فائٹر کا راستہ اختیار نہ کرتا تو شاید دنیائے کرکٹ کا ایک چمکتا ہوا تارا ہوتا۔ بچپن سے لڑکپن کی حدود میں داخل ہوتے ہوئے برہان وانی نے دیکھا کہ جگہ جگہ قابض انڈین فوج نے اپنے چیک پوسٹس قائم کی ہوئی ہیں اور عام لوگوں کو تنگ کرنا ایک روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ برہانی وانی کو بھی آتے جاتے بہت تنگ کیا جاتا لیکن ابھی تک تشدد کی نوبت نہ آئی تھی۔
2010ء میں ایک دن برہان وانی اپنے بڑے بھائی خالد وانی کے ہمراہ پلوامہ سے واپس آ رہے تھے کہ واپسی پر قابض انڈین فوج نے انہیں روک لیا اور دونوں بھائیوں پر خوب تشدد کیا اور ان کو مجبور کیا کہ قریبی بستی میں جائو اور ہمارے لیے سگریٹ کے پیکٹس لے کر آئو۔ برہان وانی نے وعدہ کیا کہ آپ میرے بھائی پر تشدد نہ کریں تو میں آپ کو سگریٹ کے پیکٹس لا کر دیتا ہوں۔ برہان وانی سگریٹ لینے کے لیے چلا گیا لیکن جب وہ واپس پہنچا تو اس کا بھائی خالد وانی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا جس پر قابض انڈین فوج نے شدید تشدد کیا تھا۔ انڈین فوج کی وحشیانہ کاروائیوں کے بارے مظفر وانی کہتے ہیں۔ "Almost every one has been beaten up by Indian Army. You almost must have had your share." ’’یعنی مقبوضہ وادی میں شاید ہی کوئی نوجوان یا بزرگ ایسا ہو جو قابض فوج کے بہیمانہ تشدد سے محفوظ رہا ہو وگرنہ خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور نازیبا سلوک روز مرہ کا معمول ہے۔‘‘یہاں سے برہان وانی کی زندگی ایک نیا رخ اختیار کرتی ہے۔
2010ء میں یہ نواجوان اپنی زندگی کے پندرھویں سال میں داخل ہوتا ہے تو وہ ایک’’ فریڈم فائٹر‘‘ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور اس کا یہ موقف ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نکا لاجائے وگرنہ ہم بھارت سے طاقت کے زور پر آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔ پندرہ ، اٹھارہ سال کے اس نوجوان کو اللہ تعالیٰ قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ علم اور بصیرت سے بھی خوب نوازا تھا۔ جس کا اندازہ آپ مقبوضہ کشمیر میں ، کشمیری پنڈتوں کی علیحدہ کا لونیوں اور آباد کاری کے متعلق اس کے بیان سے ہوتا ہے ۔ میں جب اس کے اس بیان کو پڑھ رہاتھا تو مجھے اپنے ملک کی قیادت بہت بونی لگ رہی تھی اور برہان وانی کا خوبصورت چہرہ میرے سامنے تھا۔ آپ بھی اس کے الفاظ پڑھیں اور اس کی دور رس نگاہوں کو داد دیں۔"Israel-like situation would not be allowed in Kashmir"سادہ سا خوبصورت یہ جملہ اپنے اندر کتنی تاریخی حقیقتوںکو نمایا ں کر رہا ہے کہ جس سازش کو عالم عرب نہ سمجھ سکا ، اٹھارہ سال کا یہ نوجوان ان حقیقتوں کو بیان کر رہا ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے سچ فرما یا ہے کہ ’’کہ میں نے جسے حکمت (دانش مندی ) عطا فرمائی، اسے خیر کثیر سے نوازا‘‘
2010ء سے 2016چھ سال کا یہ مبارک سفر اس نوجوان نے جس عزیمت اور ہمت کے ساتھ گزارہ وہ تاریخ کاایک روشن اور سنہرا باب ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تعنیات 6لاکھ بھا رتی فوج کو اس نوجوان نے نہ صرف تگنی کا ناچ نچایا بلکہ ایک ایٹمی صلاحیت رکھنے والی دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا راگ الاپنے والی ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور مظفر وانی کے بقول بہت سارے انڈین فوجی اور High Profileکے لوگ ان سے ملنے کے لیے آئے اور طرح طرح کے لالچ اور ترغیبات کے ذریعے سے وہ برہان وانی کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے۔ایک انڈین اخبار کے مطابق "For the last two years, Wani had become an I-Con of military in the state of Jammu & Kashmir" اس نے ان چھ سالوں میں صدیوں کا سفر طے کیا اور بھارتی فوج اور حکومت کی طرف سے برہان وانی کے متعلق اطلاع دینے والے کے لیے 10لاکھ روپے کا انعام بھی مقرر کیا اور مقبوضہ وادی میں سوشل میڈیا کے استعمال کی بدولت اس نے اپنے افکار و نظریات کو خوب پھیلایا اور نوجوانوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کرتاچلا گیا۔اسی وجہ سے سوشل میڈیا میں اسے "Poster Boy"کے نام سے جانا جاتا ہے۔
13اپریل 2015ء کو برہان وانی کے بڑے بھائی خالد ان کے ایک دوست کے ساتھ برہان وانی کو ملنے کے لیے گئے لیکن قابض انڈین فوج نے خالد وانی اور ان کے دوست کو شہید کر دیا۔برہان وانی پورے بھارت کی سرکار کے لیے ایک چیلنج بن چکا تھا اور ایک رومانوی حیثیت اختیار کرتا چلا جا رہاتھا۔ ان چھ سالوں میں اس نے بیسیوں ایسے معرکے سر انجام دیے کہ بھارتی فوج ہر دفعہ سٹپٹا کر رہ جاتی۔ انڈین فوج اور بھارتی سرکار کی بہت ساری اعلیٰ سطحی اجلاس میں برہان وانی کے تذکرے ہونے لگے۔ لہذا انڈین فوج نے ایک ’’اسپیشل آپریشن گروپ‘‘ قائم کیا اور اعلیٰ سطح کی Intelligence Sharingکی گئی۔ اور بالآخر آٹھ جولائی 2016ء کو بندورہ گائوں کے قریب انڈین فوج کے ساتھ ایک معرکے میں برہان وانی نے جام شہادت نوش کیا۔ پورے بھارتی میڈیا میں برہان وانی کی شہادت کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا گیا۔ اور انڈین فوج نے اسے ایک بہت بڑی فتح سے تعبیر کیا۔ تقریباً کم و بیش تمام اخبارات میں برہان کی شہادت کو شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا۔برہان وانی کو پاکستان پرچم میں لپیٹ کر 21گنوں کی سلامی دی گئی اور اپنے ہی آبائی گائوں ترال میں اپنے بڑے بھائی خالد وانی کے پہلو میں دفن کیا گیا۔برہان وانی کے جنازے کا منظر بھی بہت دیدنی اور تاریخی تھا۔ دنیا بھر میں 50سے زائد مقامات پر برہان کا غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا گیا۔برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی میڈیا اور حکومت کے تجزیے اور تبصرے اس کو ایک بہت بڑی کامیابی بنا کر پیش کر رہے تھے لیکن ان کے علم میں نہ تھا کہ
گرا ہے جس بھی خاک پر قیامتیں اٹھائے گا یہ سرخ سرخ گرم گرم تازہ نوجواں لہو!
برہان وانی کی شہادت نے مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو ایک نیا موڑ دیا اور تقریباً 100دن مکمل ہونے والے ہیں کہ آئے دن تحریک آزادی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اور بھارت اپنی تمام تر قوت کے بل بوتے پر اس کو روکنے ہیں ناکام رہا ہے اور دنیا کے ہر محاذ پر اس کو ھزیمت اٹھانا پڑھ رہی ہے۔کشمیر کے لوگوں نے تو یقینا اپنا حق ادا کر دیا اور سرخرو ٹھہر کے لیکن کیا اسلام آبادکے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے سیاسی پنڈت بھی اپنا کردار ادا کرتے تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ آج بہت مختلف ہوئی۔ آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا جائے۔ بھارت سفارتی سطح پر اس کو ناکام کرنے کی کوشش کریگا۔لیکن ان شاء اللہ ناکام و نامراد ٹھہرے گا کیو نکہ بہت سارے برہان وانی اب اس مشن کو بڑہانے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور پورا کشمیر، ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ لیکن اے کاش ! اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کوئی سید علی گیلانی عطار کرتے کہ جس نے اپنی پوری زندگی جس ہمت ہمت او استقامت کے ساتھ گزاری ہے وہ قابل دیدنی ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ جیل میں گزارنے والا یہ نوجوان بوڑھا پکار پکار کر ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے لیکن اے کاش کہ گہری نیند سوئے ہوئے ہر حکمران علی گیلانی اور کشمیریوں کی سرگو شیوں کو سن سکیں۔
اک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانوں سے اٹھا
آنکھ حیراں ہے کہ کیسا شخص زمانے سے اٹھا

Comments

Click here to post a comment