ہوم << سراج الحق اور عمران خان کی سپریم کورٹ آمد میں فرق - انعام الحق اعوان

سراج الحق اور عمران خان کی سپریم کورٹ آمد میں فرق - انعام الحق اعوان

انعام الحق اعوان سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے موقع پر جمعرات کے روز بہت سے قومی قائدین کے چہرے سے نقاب الٹا اور ان کا حقیقی چہرہ وہاں موجود عوام نے فزیکلی اور پوری دنیا نے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹرسراج الحق اپنی جانب سے دائرکی جانے والی پٹیشن میں ٹی او آرز جمع کروانے کورٹ پہنچے توان کے استقبال کے لیے راولپنڈ ی و اسلام آباد کی پارٹی قیادت اور کارکنان کی بڑی تعداد استقبال کے لیے موجود تھی، وہ ہر کارکن سے بالمشافہ ملے اور مختصرگفتگو بھی کی۔ اس کے بعد وہ بلڈنگ کے اندر جانے کے لیے روانہ ہوئے تو کورٹ کے تمام رولز کو فالو کیا۔ اس موقع پر پولیس اور عدالتی اہلکاروں نے ان کی تکریم کی اور ہاتھ اٹھا کر اپنے انداز میں سلام کیا، لیکن سینٹر سراج الحق ہر اہلکار کے پاس پہنچنے، ان سے مصافحہ کیا، جوابی احترام دیا اور روانہ ہوگئے۔ کورٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے میڈیا ٹاک کے لیے بنائے ڈیسک کے پاس پہنچے تومیڈیا نمائندگان نے ان سے گفتگو کرنے کی درخواست کی تو انھوں نے وہاں مختصرگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف نوازشریف یا حکومت نہیں، اپوزیشن اور حکومت میں موجود ہر کرپٹ فرد کا احتساب چاہتے ہیں،گفتگو کے اختتام پر میڈیا کا شکریہ اداکرتے ہوئے سراج الحق مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوگئے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ہٹو بچو کی صداؤں میں تشریف لائے توان کے ورکر دیکھتے ہی رہ گئے کہ ان کا قائد رک کر دو چار منٹ ان پر نظر کرم کرے گا، لیکن ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والا کپتان تو بہت بزی ہوتا ہے اور ایسی فضولیات کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا، اس کا عملی اظہار اس وقت دیکھنے میں آیا جب بادشاہ سلامت انتہائی رعونت کے ساتھ عدالتی اہلکار کو ’’پٹواری‘‘ سمجھ کر اس سے الجھ پڑے، اس کا جرم محض اتنا تھا کہ اس نے عالم پناہ کوعدالتی رولزکے مطابق اندر جانے کے لیے انٹری پاس دینے کی جسارت کر دی تھی، لیکن شاید اسے معلوم نہ تھا کہ قانون، آئین اور عدالتیں عالم پناہ کے لیے نہیں ہیں، اس بازو کو جڑ سے ہی اکھاڑنے کی خواہش لیے اپنی طرف کھینچ لیا گیا جس سے بادشاہ سلامت کو کارڈ دینے کی جسارت کی گئی اور انتہائی رعونت بھرے انداز میں ارشاد ہوا ’’جانتے نہیں میں کون ہوں ؟‘‘سپریم کورٹ بلڈنگ میں داخلے کے بعد کورٹ کے مرکزی دروازے سے داخل ہونے سے قبل میڈیا ٹاک کے لیے ڈیسک کے قریب سے گزرے تو میڈیا نمائندگان نے اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی، لیکن شاید ابھی غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تھا اس لیے ان کی طرف دیکھے بغیر ہی کورٹ کے اندرداخل ہوگئے۔ ہم وہیں موجود تھے، یہ سب دیکھا کیے۔
سماعت مکمل ہوئی توقائدین کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوا۔ فریقین میڈیا ٹاک کرتے اور بیرونی راستے کی جانب روانہ ہو جاتے، جہاں میڈیا کے لیے یہ انتہائی تکلیف دہ مرحلہ تھا، وہیں سیاسی قیادت بھی پریشان تھی، کیونکہ جو بھی میڈیا ٹاک کے لیے آتا، اس کے ساتھ قائدین کی ایک فوج ہوتی اور ہرایک کی خواہش ہوتی کہ کیمروں کے قریب تر اپنے قائد کے ساتھ وہی نظر آئے، ایسے میں جہاں دھکم پیل اور بدمزگی نظر آئی، وہاں تحریک انصاف کی روایات بھی جوبن پر نظر آئیں، عمران خان میڈیا ٹاک کے لیے آئے تو ان کی آمد سے قبل ہی تحریک انصاف کے قائدین ڈیسک پر قابض ہوچکے تھے۔ نعیم الحق اور خرم نواز گنڈا پور کے درمیان معاملہ تلخ کلامی تک محدود نہ رہا بلکہ گالم گلوچ اور دھمکیوں تک جا پہنچا، عوامی تحریک کے جنرل سیکرٹری خرم نوازگنڈا پور اس دوران عمران خان پر بھی خوب برسے اور ’’یہاں شہنشاہ صاحب تشریف لارہے ہیں‘‘ کہتے ہوئے میڈیا ٹاک میں شریک ہوئے بغیر وہاں سے روانہ ہوگئے اور سپریم کور ٹ کے احاطے کے باہر ان سے نمٹنے کے لیے بےقراردکھائی دیے۔
سینٹرسراج الحق میڈیا ٹاک کے لیے آئے تو ان کے قائدین تو کیمرے میں آنے کے لیے آپس میں نہ الجھے البتہ ایک مشکوک صاحب ان کے قریب آنے کےلیے کافی دھکم پیل کرتے رہے۔ اس دوران جماعت اسلامی کے وکلاء اور قائدین سے اس مشکوک فرد نے تلخ کلامی بھی کی لیکن میڈیا ٹاک کے بعد جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کپتان کی طرح بدمزگی سے آنکھیں چرانے کے بجائے فریقین میں صلح کروا دی۔