ہوم << الوہی کہکشاں اور عزمِ آدمِ خاکی - ہمایوں مجاہد تارڑ

الوہی کہکشاں اور عزمِ آدمِ خاکی - ہمایوں مجاہد تارڑ

ٹیلی سکوپ کے حجم و صلاحیت بڑھانے میں جذبہِ مسابقت
دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ تیار کرنے کی دھن میں ترقی یافتہ ممالک کے بیچ برپا ایک فقید المثال معرکہ

ہمارے ہاں مذہبی طرزِ فکر رکھنے والوں میں پڑھا لکھا، روشن خیال طبقہ بہ تسلسل اس بات کی دہائی دیتا آیا ہے کہ دینِ اسلام کے پیرو کار ایک طویل عرصہ سے عبادت کے صرف ایک حصے پر فوکس ہیں، یعنی پوجا پاٹ اور دعائیں وغیرہ ۔تحقیق و جستجو کا جذبہ بھی ہمارے ہاں اسی نوع کی مباحث میں کھپایا جاتا، اور یوں بس فروعی معاملات میں الجھے رہنے ، ان میں بھی اپنی اپنی ضد پر اڑے رہنے والےایک پسماندہ سے رویے پر مبنی فضا ہے جس کی دبیز چادر ہر سو تنی ہوئی ہے جس کے پار دیکھنے کی تمنّا توشاید کی ہی جاتی ہے، تاہم عملاً کوئی پیشرفت ہوتی نظر نہیں آتی۔وہی خالی خولی ڈگریوں والی تعلیم، وہی بس ذریعہ معاش تک کی اڑان بھر سکنے والی پرواز فکر، اور وہی سوشل میڈیا پر دوسروں کو اخلاق سکھانے، یا کسی ایک سیاسی جماعت کی طرفداری یا دوسروں کی مخالفت بھرے مواد کی حامل پوسٹوں پر لائیکس اور شیئرز میں مسابقت بازی ۔عبادت کا دوسرا حصّہ ویسٹ نے پکڑ رکھا ہے، یعنی کائنات بارے غورو فکر اور تحقیق و جستجو جس سے متعلق خالق عقل و شعور نے اپنے کلامِ مقدس میں بیسیوں مرتبہ ہم سے مخاطب ہوہو پر زور انداز میں تاکید کی ہے:
” اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو اٹھتے بیٹھتے، کروٹوں کے بل خدا کو یاد کرتے اور ارض و سما کی تخلیق پر غورو فکر کرتے ہیں۔۔۔"“
پھر جگہ جگہ وہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے:" کیا تم دیکھتے نہیں؟ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟"
خیر،آج کی نشست میں یہ ثابت کرنا ہمارا موضوع نہیں کہ تحقیق و جستجو اور حصول علم اصلاًتو ہیں ہی صاحبان ایمان کے لیے۔ ہم تواس امر کا جائزہ لینے چلے ہیں کہpigs کھانے اور شرابیں پینے والے بے خدا معاشروں کے بے خدا لوگ میدان علم و تحقیق میں حیرت انگیز منزلیں سر کرتے ہوئے آج کہاں کھڑے ہیں۔ان قوموں کے بیچ منعقدہ مقابلوں کی نوعیت کیا ہے؟ بجا کہ وہاں کی عائلی زندگی تباہ حال ہے،اخلاقی بے راہ روی اور درون خانہ ایک مایوسی اور اداسی کی کیفیت بھی کہ
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر
(اقبالؒ)
لیکن یہ تسلیم کیے بنا چارہ نہیں کہ ہمارے سسٹمز کو جام کر دینے کی صلاحیت و علمیت کی حامل وہ قومیں آج دنیا کی امامت کے منصب پر فائز ہمیں آنکھیں دکھا رہی ، رہ رہ کر دھمکا رہی ہیں۔مسلمانانِ عالم، جو تعداد میں سوا یا ڈیڑھ ارب یعنی کرّہ ارض کی کل آبادی کا ایک تہائی ہیں،کی حالت پیغمبرعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے بقول سمندر کے جھاگ ایسی ہے۔ بے اختیار، بے بس، بے مایہ۔
دو روز قبل ایک چھوٹی سی اخباری خبر پر نظر پڑی ۔ تجسس ہوا کہ بھلا دیکھیں اِس میدان میں یہ گورے گوریاں کیا گل کھلا نے چلے ہیں۔ ہم یکبارگی امام گوگل کے حضور پیش ہو گئے اور عرض گزاری کہ آقاتھوڑی جانکاری عنایت ہو۔جواباً، امام العصر ہمیں ہماری انگلی تھامے زیادہ دور لیجائے بغیر ، بالکل پاس رکھی تین چارویب سائٹس پر چھوڑ آئے ،جہاں معلومات کے حیرت انگیز جہان آباد تھے، جن کے زیرِ اثر ہم نے وقتی طور پر اسلامی اور غیر اسلامی دنیا والی تقسیم سے متعلق احساسات کو پس پشت ڈالا، اور بس خوشہ چینی میں مگن ہو گئے۔جو حسبِ مقدور کر سکے، پیش خدمت ہے۔اس دوران رہ رہ کر جو خیال ہمیں ہانٹ کیے دیتا وہ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کی ایک کتاب کا انتساب تھا- اپنے قاری کوکیفیت ، جذبہ و سرور سے لبا لب بھر دینے، بیٹھے بٹھائے بدل دینے کی طاقت کا حامل ایک خوبصورت انتساب- کہا:
”بیدار لمحوں کی اس الوہی کہکشاں کے نام جو عزمِ آدمِ خاکی کے صحرا کی گرد کو اپنے صبیح چہرے پر ملنے کی آرزو مند ہے۔“
تو ہم نے بھی گوروں کی اس محیّرالعقول ترقّی کو بس عزمِ آدمِ خاکی کی حد تک ہی لیا۔ آئیں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آیا ان ویب سائٹوں سے ہم اپنے ریسرچ کردہ مواد کو اُردو قالب میں ڈھالنے، قطع و برید کے ذریعے اس کے گیسو سنوارنے اور یوں اُسے ایک نئی پریزنٹیشن عطا کرنے میں کس حد تک کامیاب رہے۔
pic
خلائی تحقیق کے میدان میں ایکدوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کی لگن میں ترقی یافتہ ممالک کے بیچ ایک فقیدالمثال معرکہ برپا ہے۔لیکن اب کے یہ خلائی دوڑ ماضی کے مقابلوں سے یکسر مختلف ہے کہ اس نئی مسابقت بازی میں شامل ممالک کا جنون دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ کی ایجاد ہے۔اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، اس مقابلہ بازی کے اصل مقاصد یا محرّکات پر ایک طائرانہ سی نگاہ ڈالتے ہیں ، تا کہ یہ کھلے کہ اس ریس میں شامل سائنسدانوں اور ملکوں کی اصل دلچسپی یا مطمحِ نظر ہے کیا۔
ترقی یافتہ ممالک کے بیچ یہ خلائی دوڑ کیوں برپا ہے؟
اوّلاً، تحقیق و جستجو کے سفرمیں انسان جس منزل پر اب کھڑا ہے،قرائن بتا رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں خلائی تحقیق کے شعبے میں ایک عالمی طاقت ہونا ہی سپر پاور ہونے کی ضمانت ٹھہرے گا۔ظاہر ہے ایسا جبھی ممکن ہو گا جب آپ کے ہاں مظبوط ترین اور طاقتور ترین آلات ہوں جو خلائی وسعتوں پرنسبتاً بہتر نقب لگانے ،حریف ممالک کے مقابلے میں بہتر انفارمیشن چُرانے ، اور وہاں زیادہ تر مظبوطی سے قدم جمانے میں آپ کی معاونت کر سکیں۔ثانیاً، کسی بھی ایسے ملک کا اپنی خلائی صلاحیتوں میں اضافہ اس سبب سے بھی ہے کہ اس کے ذریعے وہ مستقبل میں اپنے حریف ممالک کو اس عمل سے روکے کہ وہ بحرانی حالات میں خلا ء میں اپنے اثاثوں کو استعمال میں لا سکیں۔ثالثاً، علمی اعتبار سے اس حجم اور صلاحیت کی حامل سب سے بڑی ٹیلی سکوپ نہ صرف ابتدائے کائنات کی الجھی پہیلی کی گرہیں وا کرنے میں معاون ہو گی، بلکہ پہلے سے معلوم فلکیاتی اجسام کے مطالعے کے ساتھ ساتھ کائنات میں پائی جانے والی ممکنہ غیر زمینی مخلوق کی تلاش میں پیشرفت کو بھی ممکن بنائے گی۔یوں، سب سے بڑی اور زیادہ تر طاقت و صلاحیت والی ٹیلی سکوپ کا حامل ملک اس شعبے میں جاری تحقیق و جستجو کے میدان میں قائدانہ حیثیت اختیار کرلے گا جس کا مدّتی دائرہ اگلے دو عشروں پر محیط ہو سکتا ہے۔
آئیں اب اس سےقبل کہ ہم اس اہم ترین پہلو کا جائزہ لیں کہ کون اس ضمن میں کیا کر رہا ہے، مختصراًاس امر کا جائزہ بھی لے ڈالیں کہ اس شعبہ میں اب تک کے حالات کیا تھے۔
علمِ فلک شناسی کا پس منظر
نوع انسانی کے منصہِ شہود پر جلوہ گر ہونے سے لیکر چار سو برس یعنی چار صدیاں پیشرتلک تاروں بھری اس پررونق کائنات بارے ہماری آگاہی و جانکاری آج کی نسبت مایوس کن حد تک کم تھی، جو محض اس کےننگی آنکھوں کیے مشاہدے کی بدولت تھی۔تب سترھویں صدی کے آغاز میں جب گیلیلیو نے 1610 میں اپنی ٹیلی سکوپ کا رُخ آسمان کی جانب موڑا تو جستجوئے انسان نے کائنات سے متعلق آگہی کے شعبہ میں ایک نئی کروٹ لی۔ گیلیلیو کی کاوش شعبہ فلکیات میں انسان کی بیداری کا نقطہ آغاز تھا۔ہمیں پہلی بار معلوم ہوا کہ سیارہ زحل اپنے گرد دائرے رکھتا ہے، جبکہ مشتری کے گرد محوِ گردش اس کے اپنے چاند ہیں۔نیز یہ کہ نیلگوں فلک کے عین وسط میں واقع ایک دلکش سی دودھیا رنگ کی پٹی جسے آکاش گنگا یا دودھیا شاہراہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھامحض بادل کی کوئی لکیر نہ تھی، بلکہ اصلاً وہ َان گنت ستاروں کا ایک جھرمٹ ہے۔ اس حیرت زا مشاہدے نے اگلے چند برسوں میں ہی خلائے بسیط میں دِکھنے والے اجسام سے متعلق ہماری رائے بدل کر رکھ دی۔یہ دریافت ایک ہمہ گیر سائنسی اور سماجی انقلاب کی نقیب بن گئی۔
ہبل کی تنصیب
ما بعد مہ و سال میں اس طرز کی ٹیلی سکوپس کے حجم، پیچیدگی اور طاقت میں اضافہ ہوتاچلا گیا۔ اِنہیں شہر کی روشنیوں سے دور اور دھندلی فضا سے کافی بلند پہاڑی مقامات پر نصب کیا جاتا ۔ ٹیلی سکوپ کے حجم اور صلاحیت کی نشوونما کا یہ سفر با لآخرامریکی فلک شناس ایڈوِن ہبل تک آن پہنچا، جس نے 1920 میں اپنے وقت کی سب سے بڑی اور طاقتور ٹیلی سکوپ یعنی ہبل ٹیلی سکوپ (اسی کے نام سے منسوب)کو متعارف کراتے ہوئے اسے امریکی ریاست لاس اینجلس کے شہر پا سادِینا میں کیلف کے مقام پر قائم ماؤنٹ وِلسن نامی رصد گاہ میں نصب کیا ۔ہبل کے ذریعے وہ ہماری اپنی کہکشاں کی حد بندیوں کے پار آبادآگے کی کہکشاؤں کا نظارہ و مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔
ہبل کی خلا کی جانب روانگی اور خلا میں تنصیب
تاہم،ز مین پر رکھی بلند مقامات یعنی پہاڑوں پر نصب ٹیلی سکوپس کی نظری وسعت بہرحال محدود ہوا کرتی ۔ آنیوالے برسوں میں ہوائی جہاز کی ایجاد اور خلا تک رسائی نے اس شعبے میں ہونے والی پیشرفت کو گویا چار چاند لگا دیئے۔ یہاں تک کہ 24 اپریل 1990 کی صبح طلوع ہوتے آفتاب نے انسانی جذبہ و جستجو کی ایک نرالی ادا نظّارہ کی جب امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا نے انسانی تاریخ کی اوّلین خلائی رصد گاہ، یعنی ہبل رصد گاہ، خلا کی جانب لانچ کی اور وہاں اسے نصب کر ڈالا۔ گیلیلیو کے زمانے سے آغاز ہو کر ِاس درخشاں دن تک، شعبہ فلکیا ت میں یہ اہم ترین پیشرفت تھی۔ کینیڈی خلائی سنٹر فلوریڈا سےاِس ٹیلی سکوپ کو 'ڈسکوری' نام کی خلائی شٹل پر سوار روانہ کیا گیا ۔1990 میں اپنے مشن کے آ غاز سے لیکر ابتک، ہبل ٹیلی سکوپ نے ایک اعشاریہ 2 ملین آبزرویشنز یعنی 12 لاکھ مشاہدات ریکارڈ کیے ہیں۔اب ایک اور حیرت انگیز بات نوٹ کریں: ہبل ٹیلی سکوپ کے ذریعے موصول ہونے والے مواد کی بنیاد پر 12800مضامین تحریر کیے جا چکے ہیں جو اس امر کا بیّن ثبوت ہیں کہ ہبل کی ایجاد کائنات بارے انسان کی آگہی میں پیشرفت کے حوالے سے از حد کار آمد اور ثمر بار ایجاد ہے۔
ہبل خلا میں کس مقام پر ہے، اور اس کا اندازِ کار کیا ہے؟
یہ اہم بات جان لیں کہ ہبل خلا میں ہے کہاں اور وہاں رہ کر اپنا کام کیسے سر انجام دیتی ہے۔ہبل حد نگاہ ستاروں یا کہکشاؤں کی جانب پرواز نہیں کرتی کہ ان کی سیاحت کو نکل کھڑی ہو۔نہ یہ ہمارے اپنے نظامِ شمسی میں دیگر سیاروں کا معائنہ کرنے ہی جاتی ہے۔ بلکہ اس کا گھر ہماری اپنی زمین کا مدار ہے جہاں اسے نصب کیا گیا ہے۔نصب کرنے سے مراد یہ نہیں کہ اسے کسی ایک مقام پر فِکس کر دیا گیا ہے، بلکہ یہ کہ ہبل اس مدار میں زمین کے گرد 17000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر کاٹنے میں مصروف ِعمل ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ دیگر سیاروں، ستاروں اور کہکشاؤں کی تصویریں کھینچ کر زمین پر موجود کنٹرول روم کی طرف روانہ کرتی ہے، جسے آبزرویٹری یا رصد گاہ کہا جاتا ہے۔(جاری ہے)

Comments

Click here to post a comment