ہوم << عمران خان نے لیڈر بننے کا موقع پھرگنوا دیا - ابو انصار علی

عمران خان نے لیڈر بننے کا موقع پھرگنوا دیا - ابو انصار علی

عمران خان کو لیڈر بننے کے بے شمار مواقع ملے، وہ ہر بار تھوڑی سی کسر سے لیڈر بنتے بنتے رہ گئے، مگر کیسے ؟ یہ سوال اور اس کا جواب آج کی تحریر کا موضوع ہے، لیکن اس پر بات کرنے سے قبل خود سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کے’ پاکستان‘ نہ بننے کی بڑی وجوہات کیا ہیں؟ اور کیا عمران خان کے سوا کسی نے انہیں بخوبی انداز سے سمجھا؟ پہلے سوال کا جواب حکمران طبقے سے لے کرچھوٹے ملازمین کی نت نئے انداز میں کی جانے والی کرپشن، سستے اور فوری انصاف اور ضروریات زندگی جیسے تعلیم ،صحت اور روزگار کی بہتر منصوبہ بندی کے بغیر فراہمی شامل ہیں۔
عمران خان کی 20 برس کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں، تو وہ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے حق میں، کرپشن اور اقربا پروری کے خلاف شروع دن سے بولتے نظر آئیں گے، وہ جماعت اسلامی اور اصغر خان کے بعد اس حوالے سے ایک مضبوط اور توانا آواز رہے ہیں، وہ ان ہی وجوہات پر مبنی سسٹم کی تبدیلی کے لیے بھی ہر دم کوشاں ہیں، انہوں نے اپنے اس مضبوط اور راست موقف ہی کے باعث اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اتنا اضافہ کرلیا کہ وہ آج سے قبل تک وزیراعظم نوازشریف کی مسلم لیگ کے بعد دوسرے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ کہلائے جاتے تھے۔
ع
مران خان جو 1992ء میں پاکستان کو کرکٹ کاورلڈ چیمپئن بھی بنواچکے ہیں، انہوں نے صحت کے شعبے میں شوکت خانم کینسر اسپتال اور تعلیم کے حوالے سے نمل یونیورسٹی جیسے منصوبے دیے، جو یقینا ان کے جذبہ خلوص کے عکاس ہیں، کیا جذبہ خلوص کا یہ عکس ہی سیاست میں کامیابی کا احسن جواز ہے؟ پاکستان میں سیاست دان بننا تو آسان ہے اور سیاسی جماعت کا سربراہ بننا بھی اس کے بعد دوسرا آسان کام ہے، الیکشن کمیشن پاکستان میں 3 سو سے زائد سیاسی و مذہبی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، ان کے سربراہان بھی ہیں، پر وہ سب لیڈر نہیں، لیکن پاکستان میں کئی بار لیڈر بننے کا موقع صرف عمران خان کو ملا، افسوس وہ ہر بار موقع گنوا بیٹھے۔
پاکستان کی حالیہ سیاست، معیشت اور معاشرت میں بڑی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، چھوٹی چھوٹی چند باتوں کا سمجھ لینا کافی ٹھہرے گا۔ پاکستان کا مالی سال 2016-17 کا بجٹ 43 ارب ڈالر کے قریب قریب کا ہے، دو ڈھائی برس قبل سعودی عرب سے ملے صرف ڈیڑھ ارب ڈالر سے ملکی معیشت پر بہت سے مثبت اثرات پڑے، جنہیں یہاں گنوانے کی ضرورت نہیں تاہم اسے آسان انداز میں یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ’110‘ سے اوپر پرواز کرنے والے امریکی ڈالر کے ’پر‘ اتنے کاٹ دیے گئے کہ وہ’ 90‘ سے کم پر اڑنے پر مجبور ہوگیا جبکہ 51 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری سے بننے والے سی پیک کو حکمران طبقہ پاکستان سمیت خطے کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ قرار دے رہا ہے، جس سے مستقبل میں پیدا ہونے والے روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی، سوچنے کی اصل بات تو یہ ہے کہ ’گزشتہ ادوار میں پاکستان خزانے کو مختلف انداز سےلوٹنے والے حکمرانوں کے 250ارب ڈالر باہر ہیں‘ یعنی 51ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری سے بھی چار گنا زیادہ رقم، جو اگر پاکستان میں واپس آجائے تو ہم ’تعلیم، صحت اور روزگار کی کئی گنا بہتر فراہمی کو یقینی بناسکتے ہیں، بڑے شہریوں کےمسائل کے حل کے ساتھ کئی چھوٹے شہر کا دائرہ بھی وسیع کیا جاسکتا ہے، عمران خان عوام کو مسلسل اس ہی بات پر متوجہ کر رہے ہیں، اب تک کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے، جو قدرتی اور معدنی وسائل سے مالامال ہیں، ان کا محل وقوع ہی اسے خطے میں کلیدی کردار کا حامل بناتا ہے، بھارت کو اپنی توانائی ضروریات پوری کرنی ہیں تو پاکستان کا راستہ درکار ہے، چین نے ترقی کا نیا دروازہ کھولنا ہے تو اسے پاکستان درکار ہے، جن ممالک میں ’ستان‘ لگتا ہے انہوں نے ترقی کے نئے در وا کرنے ہیں تو پاکستان ہی ان کی چوائس بن جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی امداد اور قرضے پر کیوں پڑا ہے؟ اسے ہر بار آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے اداروں کے رحم و کرم پر کیوں پڑنا پڑتا ہے ؟ اس کی وجہ بھی عمران خان درست ہی بتاتے آئے ہیں۔
پاکستان میں موروثی سیاست ہے، سرکاری نوکری میں اقربا پروری اور رشوت کا چلن عام ہے، گزشتہ ادوار میں تو تقریباً تمام ہی بڑی سیاسی جماعتوں کو کھلایاگیا اور اتنی کرپشن کی گئی کہ ملک کا دیوالیہ نکلتے نکلتے بچا، اب بھی صورتحال ڈھکے چھپے انداز میں تقریبا ویسی ہی ہے، اس کا ایک اظہاریہ پاکستان بڑھتا اندرونی اور بیرونی قرضہ ہے، اسحق ڈار پیسے دے کر خود کو خطے کا سب سے اچھا وزیرخزانہ قرار دینے کی کوشش ہیں، مگر آج تک شفاف تحقیقات ہوئیں نہ ہی کسی کو قرار واقعی سزا ملی۔
انصاف کی فراہمی کا حال یہ ہے ملک میں وکیل نہیں جج کرلو کی اصطلاح بھی زبان زد عام ہوچکی ہے، عام آدمی کی ترقی کے تمام ہی راستے تقریبا بند ہیں، تھوڑے بہت لوگ ہی ہیں جو اپنی صلاحیتوں کے عین مطابق کام کر رہے ہیں، خطے میں ہمارا امیج پالیسی میں بار بار کی قلابازیوں کے باعث خراب ہوچکا ہے، بلکہ کچھ دن قبل تک ملک کی عالمی سطح پر تنہائی کا ذکر بھی چل رہا تھا، انتظامی صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد کےایک چوک پر’پنجابی فلموں ‘ کے ولن کا کردار اد ا کرنے والا سکندر آج بھی سزا سے محفوظ ہے، ملک دشمنی سے بھرپور رپورٹنگ ہوتی ہے اور بدنامی کا سبب بننے والا صحافی ’مکھن‘ سے غائب ہوا ’ بال‘ بن جاتا ہے، بھارت مداخلت کرتا ہے، اس کا جاسوس گرفتار ہوتا ہے مگر حکمران چپ ہیں۔
ملکی نظام میں موجود ’مالی کرپشن‘ کو اگر آپ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، قتل اور بھتہ خوری سے بڑا جرم قرار دیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ مؤخر الذکر تمام جرائم آخری تجزیے میں کرپشن اور سستے اور فوری انصاف کی عدم فراہمی کی کوکھ سے ہی پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ یہاں تعلیم، صحت اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بن رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کرپشن کا ایک معاملہ ’ملکی دولت کی باہر منتقلی‘یعنی پاناما لیکس سامنے آتا ہے، تو یہی وہ ایشو تھا، جس پر قوم کو یکجا کیا جانا ممکن تھا، حکومت یہ بات سمجھ رہی تھی، وہ آئیں بائیں اور شائیں کرکے وقت گزار رہی تھی، صورتحال کو ہر صورت قابو میں رکھنے کے لیے سرگرم تھی، وہ جانتی تھی کہ عمران خان اس مسئلے پر عوام کے ساتھ باہر نکلا تو پھر اس سے جان بچانا مشکل ہے اور عمران خان کو ملک کے عوام کا لیڈر بننے سے روکنا ناممکن ہوجائےگا۔
مگر یہ کیا؟ سپریم کورٹ کی جانب سے حتمی فیصلہ آئے بنا ہی، احتجاج مؤخر کردیا، یوم تشکر منانے کا اعلان کردیا، یعنی’نادان سجدے میں گر پڑے جب وقت قیام آیا‘۔ جناب عمران خان صاحب! ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے، ابھی تو کمیشن بنانے کی بات ہوئی ہے، ٹی او آرز مانگے گئے ہیں، اس بات کا اعلان تھوڑی ہوا ہے کہ ’ اپوزیشن‘ کے نکات پر ہی وزیراعظم کی تلاشی لی جائے گی، آپ کو بھولنا نہیں چاہیے کہ یہ پاکستان کا عدالتی نظام ہے، یہاں فیصلہ آنے میں وقت لگتا ہے اور تب تک پلوں سےکئی ہزار کیوسک پانی گزر چکا ہوتا ہے، سیاسی ہوا بدل چکی ہوتی ہے اور سیاسی وفاداریاں بھی۔
عمران خان پھر ایک بار لیڈر بنتے بنتے رہ گئے، یقینا اس کے پیچھے حکمرانوں کی چالاکیاں اور چالبازیاں بھی ہوں گی، سختیاں اور رکاوٹیں بھی ہوں گی، اس کے ہتھکنڈے بھی ہوں گے، عمران کو ایک موقع پر محسوس ہوا ہوگا کہ ’ کارکن‘ کا پہنچنا ناممکن ہے، میری سیاست کا شیش محل دھڑام سے گر سکتا ہے، ایسے میں اس کے اردگرد موجود چھوٹے چھوٹے قد کے سیاست دانوں نے اسے تنکے کے سہارے پر اکتفا کرنے پر ابھارا ہوگا، وہ بھی اس بال ٹمپرنگ کا شکار ہوگئے. انہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کے اردگرد وہ لوگ ہیں جن کی سیاسی تربیت بہرحال کرپٹ سیاسی قائدین نے ہی کی ہے، ان کے اپنے مفادات ہیں، وہ ان کی خاطر رشتوں کا کوئی پاس نہیں رکھتے، پر اب کیاکریں؟ عمران خان نے پاکستان کا بڑے قد کا لیڈر بننے کا موقع گنوا دیا، اپنی سیاسی بساط خود ہی لپیٹ ڈالی اور پاناما لیکس جیسے ایشو کو اپنے ہاتھوں دفن کردیا، اب کل ہونے والا جلسہ بھی اس’اصولی موقف‘ کی سیاسی شکست کی بھرپائی نہیں کرسکتا، افسوس صد افسوس۔

Comments

Click here to post a comment