ہوم << دھرنا سیاست، 1977ء کے پی این اے پر ایک نظر - مراد علی

دھرنا سیاست، 1977ء کے پی این اے پر ایک نظر - مراد علی

مراد علوی پاکستان کی سیاست عملی طور پر طوائف الملوکی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اقتدار کی ہوس ہے جو اہل سیاست سے لے کر سول اور خاکی نوکر شاہی میں نظر آتی ہے، سب اس کو حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ بنیادی اصولوں کے مطابق روز اول سے ہمارے سیاستدان بلا تفریق ”چور دروازے“ سے دربار اقتدار میں داخل ہوئے ہیں۔ اس تباہی کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ جس کا جو کام ہے، اسے اس کے بجائے دوسرے کاموں میں دلچسپی ہے۔ آزادی کی پہلی دہائی میں اسمبلی کے ارکان دستور سازی سے زیادہ اقتدار سے فائد اٹھانے میں مصروف عمل تھے۔ 28 میں سے 16 سفیر، گورنر، گورنر جنرل بن گئے اور باقی بھی مسلسل مراعات سے فائدہ اٹھانے میں مصروف تھے۔
ان صاحبان اقتدار کی ساز باز سے لیاقت علی خان کو شہید کرنے کے بعد اسی وقت سارے ثبوت مٹا دیے گئے۔ عہدے تو پہلے سے بانٹ چکے تھے لیکن غلام محمد اور خواجہ ناظم الدین کے درمیان وزارت عظمی پر نیولے اور سانپ کا مقابلہ تھا، تاہم خواجہ ناظم الدین وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوگئے مگر انھیں بھی 1953ء میں ”اپنوں“ نے وہاں سے ہٹا دیا اور محمد علی بوگرا کو امریکہ سے بلا کر تخت پر بٹھا دیا گیا۔ 1958ء تک یہی پنجہ آزمائی ہوئی اور بالآخر ملک کا انتطام دبنگ ڈکٹیٹر ایوب خان نے سنھبال لیا۔ یہ سلسلہ ایک دہائی تک چلا، پھر ایوب خان کے قریبی ساتھی اور کیبنٹ ممبر ذوالفقار علی بھٹو نے اس کے خلاف تحریک چلائی، نتیجتا یحیی خان جانشین مقرر ہوئے۔ ایسی تحریکوں کو ہمیشہ ”طاقتور طبقوں“ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔
یحییٰ خان جب کمانڈر ان چیف بنے تو ہمیشہ کی طرح اس کمانڈر کی نظریں بھی اقتدار پر جمی ہوئی تھیں۔ اقتدار کو حاصل کرنا اس کے بنیادی مقاصد میں سے تھا۔ اس کے لیے منظم پلاننگ کی گئی اور ملک میں حالات خراب کرائے گئے۔ انٹیلی جنس ایجنسیز بھی ایوب خان کے خلاف کام کر رہی تھیں۔ پولیس جہاں بھی کارروائی کے لیے پہنچتی، فوج اس کو کچھ کرنے دے روک دیتی تھی یعنی وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ حالات سدھر جائیں۔ اس سے پولیس کی پوزیشن اتنی خراب ہوگئی کہ لوگ پولیس کو گالیاں دیتے تھے اور فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے۔ ایوب خان اقتدار چھوڑ گئے تو یٰحیی خان نے اپنا مشن مکمل کرلیا۔
ہمارے یہاں جب ڈکٹیٹر آتا ہے تو اس کا پہلا اعلان یہی ہوتا ہے کہ مجھے اقتدارکا کوئی شوق نہیں ہے، صرف ملک کے حالات ٹھیک کرنے ہیں اور حقیقی جمہوریت کی بحالی چاہتے ہیں۔ پھر ریفرنڈم اور آمرانہ الیکشن پر بات ختم ہوجاتی ہے۔ اسی تناظر میں یحیی خان کے آنے کے بعد ”اکانومسٹ“ میں ایک کالم کا عنوان تھا ”ایسا ڈکٹیٹر جو خود کو ڈکٹیٹر نہیں کہتا“۔
یحییٰ خان کے بارے میں لوگوں کا عام تاثر پہلے اچھا تھا کہ ”مخلص آدمی“ ہے لیکن بعد میں اصلیت سامنے آئی اور کرسی فورا پریذیڈنٹ ہاؤس میں چلی گئی۔ اس کے بعد وہ اپنے آپ کو ڈکٹیٹر کے بجائے لیڈر کے طورپر پیش کر رہے تھے. اقتدار بچانے کے لیے ملک دو لخت کر دیا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد شکست خوردہ جرنیلوں نے آدھے پاکستان کو بھٹو کی جھولی میں ڈال دیا۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار بزعم خود ”جمہوریت کے باوا آدم“ نے جمہوریت میں نقب زنی کرتے ہوئے سویلین ڈکٹیٹر کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ ملک دولخت ہونے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے دوبارہ الیکش کرائے جبکہ بھٹو آمرانہ طور پر اپنے عہدے پر فائز رہے۔ سابقہ آمروں کی طرح بھٹو نے بھی طویل مدت کے بعد جنوری 1977ء میں انتخابات کا اعلان کیا۔ 10 جنوری 1977ء کو لاہور میں رفیق باجوہ کے مکان پر حزب اختلاف کی پارٹیوں کو ائیر مارشل اصغر خان (پی این اے میں اصل کردار اصغر خان نے ادا کیا تھا) نے متحد کر کے ”پاکستان قومی اتحاد“ کی بنیاد رکھی۔ قومی اسمبلی کی 200 نشتوں کے کاغذات نامزدگی 19 جنوری کو داخل کیے گئے، اسی روز لاڑکانہ کی نشست پر قومی اسمبلی کے انتخابات میں ذوالفقار بھٹو کو بلامقابلہ کامیاب قرار دے دیا گیا کیونکہ اس سے پہلے اس نشست پر قومی اتحاد کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر پہنچا کر انھیں کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے محروم کر دیا گیا۔ (1965ء کے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کے علاوہ ایوب خان کے مقابلے میں جمیعت علمائے اسلام کی طرف سے مولانا احمد علی لاہوری کے صاحبزادے مولانا عبیداللہ انور بھی صدارتی امیدوار تھے، ان کو ایوب خان نے اغواء کر کے نامعلوم مقام پر پہنچایا اور انتخابات کے بعد واپس آئے تو معلوم ہوا کہ انھیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یعنی بھٹو نے اپنے سیاسی استاد ایوب خان کی سنت کی نشاۃ ثانیہ فرمائی) اس کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کو بھی حریف امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کرکے بلا مقابلہ کامیاب قرار دے دیا گیا۔
ملک کے انتخابات میں دھاندلی کی ابتداء بھی 1977ء کے الیکشن سے ہوئی۔ ذوالفقار ھٹو نے ہر قسم کے ہتھکنڈے اختیار کرکے 155 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ پی این اے نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا حکومت کی طرف سے گرفتاریاں شروع ہوگئیں جس سے مزید حالات خراب ہوگئے۔
تقریبا بارہ ہفتوں کے بعد 3 جون کو حکومت اور پی این اے کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا۔ جس میں حکومت سے زخمی افراد کی مالی معاونت، میڈیا پر پی این اے کے خلاف پروپیگنڈہ مہم فوری طور پر ختم کرنے اور تحریک کے قائدین کی رہائی جیسے مطالبات کیے گئے۔ دوسرے اجلاس میں مفتی محمود نے دوبارہ الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا جس میں جزئیات پر اختلاف ہوا لیکن آخرکار بھٹو صاحب (نہ چاہتے ہوئے) مان گئے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور آٹھویں نشست میں حکومت کا اصرار تھا کہ انتخابات نومبر میں ہوں گے جبکہ پی این اے کا مطالبہ تھا کہ 14 اگست سے پہلے کروائے جائیں۔ آخرکار 15 جون کو نویں نشست منعقد ہوئی، اور مذاکرات آخری مراحل میں داخل ہوگئے اور فریقین کے دستخط کے بعد مکمل متن پریس کو جاری کرنے پر اتفاق ہو گیا۔
اب یہاں پر بنیادی سوال یہ ہے کہ مسٹر بھٹو نے مذکرات کو بلاوجہ اتنی طوالت کیوں دی؟ جو طویل مدت میں بھی نتیجہ نہیں نکال سکے؟ اس سے بھی زیادہ بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر بھٹو صاحب نے اتنے نازک مرحلے پر تھکاوٹ کا بہانہ کیوں بنایا؟ اور آرام کی خاطر پانچ دن کے لیے لاڑکانہ جانے کا کہہ رہے تھے، پھر 18 جون کو بیرون ملک سفر پر کیوں روانہ ہوئے؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھٹو صاحب دستخط کے لیے تیار نہیں تھے۔ قومی اتحاد کی مذاکراتی ٹیم نے بھٹو صاحب کو اس عمل سے سختی سے روکا بھی تھا۔ بھٹو صاحب نے اور بھی ایک بہت غیرآئینی اقدام کا ارتکاب کیا تھا۔ ابھی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے، صرف زبانی معاہدہ تھا لیکن غلام مصطفی کھر نے وزیر اعظم کے خصوصی مشیر کے طور پر حلف اٹھا لیا جونہ صرف آئین کی خلاف ورزی تھی بلکہ قومی اتحاد کے ساتھ سخت بددیانتی بھی تھی۔ تاہم قومی اتحاد کے قانونی ماہرین نے سمجھوتے کی ضروری تفصیلات طے کرنے کے بعد پروفیسر غفور احمد کے ذریعے عبدالحفیظ پیر زادہ کو انتخابی قوانین میں تبدیلیوں سے متعلق تجاویز فراہم کردیں۔ مذکراتی ٹیم کا 20 جون کا اجلاس بھی بدستور اختلاف ختم ہوئے بغیر اختتام پذیر ہوا۔ حکومت اور پی این اے کے مابین اختلاف، نئے انتخابات کی تاریخ، قیدیوں کی رہائی، اسمبلیوں کے توڑنے کی تاریخ، سینٹ کے نئے ارکین کی رکنیت ختم کرنے کی تاریخ زیر بحث آئی۔
مذاکرات کے اہم موڑ پر بھٹو صاحب کے بیرون ملک جانے کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ بہرحال ذیلی کمیٹیوں میں مذاکرات ٹوٹ چکے تھے اور بھٹو صاحب نے تہران سے پیغام جاری کیا کہ مذاکرات ٹوٹ نہیں سکتے۔ 22 جون کو قومی اتحاد نے یوم احتجاج کا اعلان کیا جس پر پیرزادہ صاحب نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ 23 جون کو بھٹو صاحب وطن واپس پہنچ گئے اور مذاکرات کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ اس اجلاس میں مذاکراتی ٹیم کے تمام ارکان نے حصہ لیا۔ معاہدے کا مسودہ بھٹو صاحب کو پیش کیا گیا جس پر بھٹو صاحب نے صحافیوں سے گفتگوں کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اور قومی اتحاد کے مابین بنیادی اور اصولی طور پر سمجھوتہ طے پا گیا ہے لیکن بھٹو صاحب معاہدہ کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے۔
25 جون کو ایک اور اجلاس منعقد ہوا جس میں مسودہ کی بعض شقوں پر غور کیا گیا جو 23 جون کو قومی اتحاد نے پیش کیا تھا۔ اس نشست میں بھٹو صاحب نے اپنا تیار کردہ مسودہ مفتی صاحب کو پیش کیا، مفتی صاحب نے اس پر غور کرنے کے لیے وقت مانگا لیکن قومی اتحاد کے مسودے پر شق وار غور کرنے کے ساتھ ایک نیا مسودہ دینا بہرحال بہت بڑا سوال ہے۔
26 جون کے اجلاس میں جب دونوں مسودوں کا موازنہ کیا گیا تو دونوں میں زمین آسماں کا فرق تھا۔ آخر کار طے پایا کہ لیگل کمیٹی کی مدد سے قومی اتحاد کے فیصلوں کی روشنی میں معاہدہ کا نیا ڈرافٹ تیار کیا جائے جو منظوری کے بعد ایک مسودہ کی حثیت سے حکومت کو پیش کردیا جائے۔ 30 جون کو مذکرات کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں قومی اتحاد کے ترمیمی مسودے پر پیرزادہ صاحب نے 17 شقوں پر رضامندی کا ظہار کیا۔ یکم جولائی کے طویل ترین اجلاس میں قومی اتحاد کے ترمیمی معاہدے پر شق وار غور کیا گیا اور ان اختلافی امور پر بحث ہوئی جن پر ذیلی کمیٹی کا اختلاف تھا۔ اس اجلاس میں آئندہ نشست کا وقت بھی طے پایا۔ 2 جولائی کو ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ترامیم زیر غور آئیں اور قومی اتحاد کے ترمیم شدہ مسودے پر پیرزادہ صاحب نے رضامندی ظاہر کردی۔ 3 جولائی کی نشست اس پر منتج ہوئی کہ بھٹو صاحب معاہدے کو قانونی حیثیت دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔
4 جولائی 1977ء کو ذوالفقار بھٹو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے ساری باتیں مان لیں، دستخط ہونا تھے لیکن مجھ پر انحراف کا الزام لگا دیا گیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ قومی اتحاد نے مزید نئے نکات پیش کردیے حالانکہ یہ خلاف واقعہ تھا۔ اس میں کوئی چیز نئی نہیں تھی بلکہ وہی ترمیم شدہ مسود تھا جس کے بارے میں قومی اتحاد کا مؤقف تھا کہ خصوصی عدالتوں سے متعلق معاملہ اور نگراں کونسل کو عارضی مدت کے لیے دستور کا حصہ بنانے کا معاملہ حل کرنا فریقین میں سے کسی کے لیے بھی ناممکن نہیں تھا.
5 جولائی کو وہی ہوا جس کے لیے یہ حالات پیدا کیے گئے تھے۔ اور ملک کو جنرل ضیاء الحق کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔
پاکستان قومی اتحاد نے ایک قابل فہم مقدمے کی بنیاد پر تحریک چلائی لیکن فائدہ کوئی اور اٹھا رہا تھا۔ اس تحریک کی قیادت ملک کے عبقری سیاستدان کر رہے تھے۔ اصغر خان، مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، عبدالولی خان، نوابزادہ نصراللہ خان، پیرپگاڑا سرفہرست ہیں۔ اب بھی یہ سوالیہ نشان ہے کہ کیا یہ حضرات یہ بات نہیں جانتے تھے کہ اصغر خان اس تحریک سے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟ اس کے پس پردہ کون سے محرکات تھے؟ خود اصغر خان نے پی این اے کا صدر بننے کی کوشش کی لیکن بھٹو صاحب طاقتور آدمی تھے اور اس کوشش کو انہوں نے ناکام بنا دیا۔ ان کی آپس کی چپقلش تھی اور بھٹو صاحب کے خلاف انھوں نے ہر ممکن کوشش کی، آخر میں ان سے رہا نہیں گیا اورگویا ہوئے کہ میں بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دوں گا۔ اگر پی این اے کی قیادت یہ سب جانتی تھی تو بھٹو صاحب کے ساتھ جزئیات پر کیوں اختلاف کیا؟ دوسری طر ف بھٹو صاحب کے وہ تمام غیر جمہوری رویے تھے جس کا تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے۔
بھٹو صاحب کا مذاکرات کو طوالت دینا معمہ ہے؟ اتنی نازک صورتحال میں فرد واحد کی حیثیت میں آمرانہ فیصلے صادر کرنا بھی ناقابل فہم ہے، تاہم یہ حقیقت اب واضح ہے کہ بھٹو صاحب سے بھی اپنوں نے اقتدار چھینا تھا۔ پروفیسر غفور احمد لکھتے ہیں کہ میں نےغلام مصطفی جتوئی سے دریافت کیا کہ اجلاس میں بھٹو صاحب کو کیا مشورہ دیا گیا جس کے باعث ان کے رویے میں سختی آگئی اور انہوں نے پی این اے کو نئے نکات پیش کرنے کا مورد الزام ٹھہرا دیا۔ جتوئی صاحب نے جواب دیا کہ کابینہ کے اکثر حضرات مصالحت کے حق میں تھے اور مذاکرات کی کامیابی چاہتے تھے لیکن بعض افراد جن میں عبدالحفیظ پیرزادہ نمایاں تھے، اس کے مخالف تھے اور ان کا مؤقف تھا کہ ہمیں سخت رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں اتحاد کی تحریک دم توڑ دے گی، بار بار نرم رویہ اختیار کرنے سے وہ مزید مضبو ط ہوں گے۔
قومی اتحاد کی تحریک دھاندلی کی بنیاد پر اٹھائی گئی۔ قومی اتحاد بھی وزیر اعظم کو نئے اتنخابات تک کرسی سے الگ ہونے کا کہہ رہا تھا۔ اور پھر حکومت نے سخت رویہ اختیار کیا اور ملک تاریکی میں چلا گیا۔
کتابیات
غفور، احمد پروفیسر، پھر مارشل لا آگیا، جنگ پبلیشرز
رشید، راؤ، جو میں نے دیکھا، جمہوری پبلیکیشز
صدیقی، محمود عالم، پروفیسر غفور احمد کی قومی سیاسی خدمات (اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کے شائع کردہ کتاب " پروفیسر عبدالغفور احمد")
Mahoomd, Safdar, Pakistan Political Roots & Development:Oxford University Press
Khan, Hamid, Constitutional And Political History of Pakistan: Oxford University Press

Comments

Click here to post a comment