ہوم << دھرنے سے تشکر تک - اسری غوری

دھرنے سے تشکر تک - اسری غوری

اسری غوری ہم پنڈی میں تھے، نئے گھر کی سیٹنگ کرنا تھی، سو کچھ سامان لینا تھا۔ صدر میں اسی کار خیر کے لیے موجود تھے، وہیں قریب ہی ایک پٹھان آوازیں لگا رہا تھا:
”ایرانی قالین اصلی قالین باجی لے لو بہت اچھا قالین ہے۔“
ہمیں بھی گھر کے لیے لینا تھا، سو رکے اور قیمت پوچھی۔
باجی 25000 روپے کا ہے، آپ کے لیے 24،500 کردے گا۔
پٹھان بھائی نے حاتم طائی کی قبر کو زوردار لات مارتے ہوئے کہا۔
ہم حیران اتنی رقم تو ہمارے صاحب کی کئی ماہ کی تنخواہ ملا کر بھی نہیں بنتی تھی، سو آگے چل دیے۔
اب پٹھان بھائی پیچھے پیچھے اور ہم آگے آگے۔
باجی! بولو، کتنے کا لے گا، تم بتاؤ تو ہم تمہارے لیے اور کم کردے گا۔
ادھر صاحب کی خونخوار نگاہیں کہ رک کے پوچھنے کی غلطی ہی کیوں کی۔
پہلی بار ایسا تجربہ ہوا تھا، اب ہم کیا کرتے جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا تھا، آئندہ کے لیے مگر توبہ کرچکے تھے۔
خان-صاحب.jpg خیر صاحب! بہت دور تک یہی چلا کہ ہم آگے اور خان صاحب پیچھے اور پھر۔
بالآخر خان صاحب ہمیں وہ 25000 والا قالین بضد 1200 میں دے کر چلے گئے۔
اب خان صاحب
خان صاحب ہی ہے
وہ قالین والا
ی انصاف والا
ملکی حالات میں بھی زور و شور سے قالینوں کی خرید و فروخت نے ہمیں ماضی میں پہنچا دیا۔
بس اتنے ہی جری تھے حریفان آفتاب
چمکی زرا سی دھوپ تو کمروں میں آگئے