ہوم << محبت شخص سے ہوتی ہے یا رویے سے - شاہد اقبال خان

محبت شخص سے ہوتی ہے یا رویے سے - شاہد اقبال خان

اس نے اپنی داستان شرع کر دی۔
بہت عرصے تک میرا اس سے بس رسمی تعلق رہا۔ پھر جیسے جیسے میں اسے جانتا گیا، اس کی محبت میں شدت سےگرفتار ہوتا گیا۔ وہ میرے جیسی بھی تھی اور مجھ سے مختلف بھی مگر مجھے اس کے رویہ و انداز اور سوچ کا فرق ہمیشہ متاثر کرتا تھا۔ میں اسے سوچنے لگا۔ آہستہ آہستہ مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ پھر اسے یہ احساس دلانے کی مہم شروع ہو گئی۔
باتوں باتوں میں، اشارے کنایوں میں، براہ راست انداز سے گریز کرتے ہوئے، کچھ سچ کچھ جھوٹ واقعات سناتے ہوئے میں نے اسے احساس دلا ہی دیا کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ ویسے بھی لڑکی کو احساس دلانے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ اس میں تو ایک ٹرانزسٹر فٹ ہوتا ہے جو بلا بلا کے کہہ رہا ہوتا ہے کہ کوئی آ کے اسے کہے کہ مجھے تم سے محبت ہے اور وہ اس کے سامنے سر نگوں ہو جائے۔ وہ بھی مجھ سے محبت کرنے لگی۔ محبت تو خواتین میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ بس کوئی محبت کرنے والا ملے تو سہی۔
آہستہ آہستہ وہ محبت میں مجھ سے بھی آگے بڑھنے لگی۔ وقت گزرتا گیا۔ میرے احساسات وہاں سے آگے بڑھ ہی نہ سکے۔ میں وہیں کھڑا رہا۔ وہ مجھ سے کہیں آگے نکل کرمجھے آواز دینے لگی، پکارنے لگی۔ مگر میں کسی سوچ میں ٹھہرا تھا۔ وہ سوچ اچانک نہ تھی۔ آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اس کی وہ تمام باتیں عام سی لگنے لگیں جو کبھی مجھے بہت خاص لگتی تھیں۔ میں امپروو ہو رہا تھا۔ میں وہ سب باتیں خود میں محسوس کرنے لگا تھا۔ مجھے اب وہ ناقابل تسخیر نہیں لگتی تھیں۔ مجھے وہ عام لڑکی لگنے لگی جیسے سب لڑکیاں تھیں۔ وہ مجھ سے محبت کے دعوے کرتی، میں اسے کہتا کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں، میرے چاہت بھرے رویے سے ہے۔ جس دن یہ ختم ہو گئے، میں بدل گیا، تمہاری محبت بھی ندی میں نمک کا پہاڑ ثابت ہو گی۔ وہ کہتی میں تو روئی کا پیڑ ہوں، ندی میں اور وزنی ہو جائوں گی۔ میں خاموش ہو رہتا مگر میرا دل بتاتا تھا کہ رخصتی قریب ہے۔
پھر ایک دن میں نے ہمت کر کے سب کہہ دیا کہ مجھے تم سے محبت نہیں تھی۔ مجھے تو احساس کمتری تھا۔ میری آنکھوں کو تو تمہاری ان خوبیوں نے چکا چوند کر دیا تھا جو مجھ میں نہیں تھیں، مگر میں بڑا ہو گیا ہوں۔ مجھے تم اب ایک عام سی لڑکی لگتی ہو۔ دل میں اب بھی ایک وہم تھا کہ وہ ٹوٹ جائے گی۔ مجھ سے محبت میں اندھی بغیر سہارے کے ٹھوکریں کھاتی پھرے گی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ روئی بہت روئی مگر ہر آنسو کے ساتھ میری چاہت کا رس بھرا احساس اس کے نمکین آنسوؤں میں بہتا گیا اور میرے ترش رویے نے اس کی آنکھیں پتھرا دیں۔ پھر جب صبح جاگی تو اس کی آنکھوں کو مجھ میں گلاب کے پھول کے بجائے گلاب کی شاخ کے کانٹے نظر آئے۔ میں اس کے دل سے اتر گیا۔ اسے مجھے دیکھ کر پیار کے بجائے غصہ آنے لگا۔ میری روح سے محبت کے دعوے نفرت میں تبدیل ہو گئے۔
یہ بتاتے ہوئے میں نے اس کی آنکھوں کو بغور دیکھا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں آنسوں کی تلاش تھی مگر میں مایوس ہوا بلکہ ان میں ایک چمک تھی۔ سچ کو پا لینے کی چمک۔مجھے پوری رات نیند نہیں آئی۔ سوچتا رہا۔ اس کے سچ کو ٹٹولتا رہا۔ اپنے گردوپیش پر غور کرتا رہا۔ اور پھر میں قائل ہو گیا کہ محبت شحص سے نہیں رویوں سے ہوتی ہے۔محبت کبھی احساس کمتری ہے، کبھی ہمدردی، کبھی کوئی بھٹکی تمنا، کبھی آنکھ کا دھوکا اور کبھی احساس انسانیت، جسے میں سب سے معتبر خیال کرتا ہوں۔

Comments

Click here to post a comment