گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پ ر ایک چائے فروش کی بہت دھوم رہی. میری فرینڈ لسٹ میں موجود ہر دوسرے دوست نے نہ صرف اس کی تصویر اپنی وال پر لگائی بلکہ جلے دل کے پھپھولے بھی پھوڑے.
انسان کی فطرت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یکسانیت سے بہت جلد اکتا جاتا ہے، بوریت محسوس ہوتی ہے، جو بڑھ کر اذیت میں ڈھل جاتی ہے، ایسا ہی میرے ساتھ ہوا، طرح طرح کے تبصرے پڑھ پڑھ کر جی اکتا گیا، کوئی کہہ رہا تھا کسی برگر بچی نے تصویر کھنچ کر ٹھرک پور کی ہے، کوئی کیا تو کوئی کیا گویا ہر شخص نے اپنی استطاعت اور ذہنی بساط کے مطابق تبصرہ کیا. میرا خیال ہے اس موضوع پر جتنی باتیں کی جا سکتی تھیں، وہ ہو چکی ہیں، مزید کی شاید گنجائش نہیں ہے. لیکن اس سارے قصے میں ہم پاکستانیوں کی حقیقت ایک بار پھر کھل کر سامنے آئی ہے.
بہت سارے لوگوں (جن میں میں بھی شامل ہوں) کا خیال ہے کہ تصویر میں کچھ خاص نہیں ہے تو پھر یہ واویلا کیوں ہے؟ بہت سارے پٹھان نوجوان ایسے ہی ہوتے ہیں، نیلی آنکھیں بھی ہزاروں لوگوں کی ہوتی ہیں. بابا اشفاق احمد فرماتے ہیں کے یہ جو کائنات ہے جس میں ہم انسان رہتے ہیں ،اس میں بہت ساری لہریں ہیں، اچھائی کی بھی اور برائی کی بھی ہیں. ہم کسی کے بارے میں جو کچھ بھی سوچتے ہیں چاہے اچھا ہو یا برا اس کا ایک کنکشن یا لہر بنتی ہے، پھر وہ لہر جتنی طاقتور ہوتی ہے اتنی ہی تیزی سے اس تک پہنچتی ہے جس کے بارے میں ہم سوچتے ہیں، اور اگر وہ لہر کمزور ہو تو بہت ساری لہروں میں مل کر کھو جاتی ہے.
میں نے پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ حسن نظر میں ہوتا ہے نہ نظارے میں ہوتا ہے، حسن اس کنکشن میں ہوتا ہے جو نظر اور نظارے میں پیدا ہوتا ہے. آپ نے بہت بار ہرنی کے بچے کو اچھلتے کودتے ہوئے دیکھا ہوگا لیکن آپ کو کوئی خاص دلچسپی محسوس نہ ہوئی ہوگی لیکن جب ایک فوٹوگرافر کئی دن کی انتھک محنت کے بعد ایک تصویر بناتا ہے جس میں ہرنی کا بچہ اپنی ٹانگیں ہوا میں سمیٹ کر چھلانگ لگا رہا ہوتا ہے تو وہ تصویر اپ کو بڑی دلفریب لگتی ہے.
کبھی اپ نے سوچا ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ کیمرے کی آنکھ اور اس نظارے میں کنکشن بنا جس نے اس تصویر کو خوبصورت بنا دیا اور اس کنکشن تک رسائی کے لیے نظارے نے کوئی کوشش نہیں کی بلکہ وہ اپنی نیچرل لائف میں رہا لیکن نظر نے اس لمحے کو قید کرنے کے لیے نجانے کتنے دنوں کی صعوبت برداشت کی، اگر نظارہ اپنی فطرت سے ہٹ کر کوشش کرتا تو کبھی وہ کنکشن نہ بن پاتا.
ایسے ہی اس چائے والے کے ساتھ ہوا، آپ اس کی تصویر کو غور سے دیکھیں تو اس کی آنکھیں ایک خاص زاویے پر اٹھی ہوئی ہیں، پھر اس کے نیلے شیڈ والے کپڑوں نے اس کی اٹھی نیلی نگاہوں کو سحر انگیز کر دیا. بس یہ وہی لمحہ تھا جب کنکشن پیدا ہوا اور نظر نے اسے ہمیشہ کے لیے سمیٹ لیا.
پھر چاہے وہ نظر کیمرے کی ہو یا کسی انسان کی، اس میں بھی نظارے نے کوئی کوشش نہیں کی، وہ اپنی فطرت پر ہی رہے، فطرت کا بھی ایک اپنا ہی حسن ہے، بہت کم لوگ ہوتے جن کی رسائی اس تک ہو پاتی ہے، آپ میں سے ہر کوئی یہ سوال کر رہا ہے کہ وہ چائے فروش بس اسی ایک تصویر میں دلفریب کیوں نظر آ رہا ہے، باقیوں میں کیوں نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ باقی تصویریں نظارے نے خود نکلوائی ہیں، ان میں فطرت کا وہ حسن اور پاکیزگی ناپید ہے، اس بار کنکشن پیدا نہیں ہوا اور صرف تصویریں ہی بنی ہیں. نظارے کو ہر حال میں اپنی فطرت پہ ہونا چاہیے تبھی تو مضبوط کنکشن بن پاتا ہے.
تبصرہ لکھیے