ہوم << آرمی چیف والے بینرز اور معاملہ ہماری عزّت کا -ہمایوں مجاہد تارڑ

آرمی چیف والے بینرز اور معاملہ ہماری عزّت کا -ہمایوں مجاہد تارڑ

کاش فیس بک ایجاد کرنے والے نوجوان بابا جی مارک ذَکر برگ نے کوئی اور کام کر لیا ہوتا - جیسے کپڑے یا چوڑیوں کی دوکان وغیرہ! کاش ان انٹرنیٹ تاروں کو کوئی کیڑا کاٹ لیتا۔ کاش ان ہلکے پیٹ والی مائیوں یعنی آوارہ گرد سیارچوں کو منحوس چھینکوں والی بیماری آن لیتی ،جو پل پل کی خبر کو 'اِدھر سے اٹھا،تو اُدھر پٹخا' کے عمل میں ہماری عزّت کا ستیا ناس کیے دیتے ہیں، اور کاش زمین پر ہر ذی روح کی ذرا سی حرکت کو captureکر لینے والے ان سیاروں کو ایک آدھ دن کیلیے اونگھ آگئی ہوتی!
تا دمِ تحریر آپ میں سے تواکثر جان ہی چکے ہوں گے۔ تاہم، ہمیں تب پتہ چلا جب آج علی الصبح ہمارے تکیے تلے دبے موبائل فون نے 'چیخ ماری '۔اور پھر جب سعودی عرب سے ایک دوست نما کزن نے یہ پوچھ کرہماری عزت پر ہاتھ ڈالاکہ سناؤ کیا کہتے ہو ان بینرز کا؟ جواباً ہماری کھسیانی سی لاعلمی بھری بڑبڑاہٹ پر جناب نےہمیں بے نطق سنائیں کہ جو خبر کینیڈا یسے ملک کی پرلی سرحد پر بیٹھا کوئی چھابڑی والا اپنے سمارٹ فون پر پچاس لوگوں کو ٹیگ لگا کر ، اگلے مرحلے میں اس پر دانش بگھار کر، اس سےاگلے مرحلے میں کسی ڈیلی موشن وغیرہ پر آئیفا ایوارڈ کا کوئی بھڑکیلا سا ڈانس دیکھنے میں مگن ہو گا ، وہ خبر ہم جیسے باخبر "صحافی " کی حد ِ رسا سے ہنوز دُور است؟!--- وہ بینرز جو ہمارے دولت کدے سے 50 فٹ کے فاصلے پر لگے کسی ماڈ سکاڈ گَرل کیطرح دعوت نظّارہ دے رہے ہوں کہ ' ہےدیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ' اور ہمی بےخبر بیٹھے ہوں تو اِس گھامڑ پن پر کون ماتم نہ کرے۔
اوپر سے اس ظالم کزن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔کچھ ایسا کہہ دیا جس نے ہمارے ضبط کے سارے بند توڑ ڈالے ۔ چلیں آپ بھی جان لیں ہماری 'بے عزّتی خراب' ہو نے کا وہ نقطہ عروج کیا تھا 'جب اس منحوس نے انتہا کر دی ۔ کہا:
"شرم کرو!!"
ہمارے تو ہچکی بندھ گئی۔
یہ پہلی بار نہیں صاحب، پہلی بار نہیں! ایسے شاکس کی تعداد کی، جہادِ زندگانی میں، کوئی حد ہے نہ اخیر۔اسے اتنا لائٹ مت لیں۔ہمارا معصوم جگر اس سے کہیں زیادہ چھلنی ہے جتنا آپ تصور کر سکیں۔جب کبھی کسی ذی روح کو برتھ ڈے وش کرنا ہوتی ہے، ہماری سبکی ہوتی ہے۔ جیسے پچھلے دنوں اِسی شہر اسلام آباد کے ایک دوسرے سیکٹر میں اپنے سگے بھائی کو کرنا تھی۔ تو پتہ چلا شام 4 بجے تک لوگ انہیں بلوچستان کے گاؤں 'اُستہ محمّد' سے لیکرامریکہ کے شہر ڈیلیس تک، وہاں سے شارجہ، شارجہ سے سعودیہ اور وہاں سے مانچسٹر تک وِشِز کی قطاریں لگا چکے تھے۔
بعض ہارٹ پیشنٹس کو مدّنظر رکھتے ہوئےابھی ہم نے وہ سمے شیئر نہیں کیا جسے سن کر نارمل لوگوں کی بھی حالت غیر ہونے لگے۔ بس اللہ کو ایسے ہی منظور تھا۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ہمارے لیے قعرِ مذلّت میں جا گرنے کا یہ لمحہ ناگہانی کچھ یوں ٹوٹا کہ ایک روز جب ہم اسلام آباد کے دوسرے کنارے تک پہنچنے کو عازمِ سفرتھے تو گھر کی سیڑھیاں اترتے سمے ہمیں ایک کال موصول ہوئی۔پنجاب کے ایک دور افتادہ گاؤں، چک نمبر 144 سے بابا خیر دین آن لائن تھے، جو ہمیں گھر میں پڑے رہنے ،اور سفر نہ کرنے کی وارننگ دے رہے تھے ۔
"کیوں چا چا جی؟ خیریت؟"
کہنے لگے "پتر، پارلیمنٹ والی سائیڈ پر ہنگامےوالا ماحول ہے۔ کدھرے پھَس نہ جانڑاں"(کہیں پھنس نہ جاؤ)۔
ہمارا ماتھا ٹھنکا۔اتنا تو جانتے ہی تھے کہ "علمائے کرام" نے ڈی چوک پر دھرنا دے رکھا ہے، مگرہر پل بدلتے اس جہانِ فانی میں ہم نے صبح سے ٹی وی آن کیا تھا، نہ سوشل میڈیا پر ہی نظر ڈال سکے تھے ۔تجسس ہوا کہ بابا جی کیونکر ہم سے زیادہ اَپ ڈیٹڈ ہیں۔
”چا چا جی، آپ کو کیسے پتہ چلا؟“ ہم نے کپکپاتی آواز میں پوچھا۔ پسینے کی بوندیں ہماری پیشانی سے لڑھک کر ہمارے ابروؤں کو تر کرنے لگیں۔
”پتر ، یہ اے آر وائی والے دکھا رہے تھے۔ میں نے اپنے موبائیل پہ دیکھا ہے۔“
یا اللہ خیر۔ہر مابعد لمحہ کچھ ایسی انہونی لیے وارد ہوتا ہے جیسے ہم تو اِس ماڈرن دنیا سے دور، افریقہ کے کسی دور دراز جانگُو قبیلے کے باشندے ہوں۔چھوٹے چھوٹے بچے کینڈی گیم کا سکور ہَیک کیے خود سے بڑوں کو لتاڑ رہے ہوتے ہیں۔
بجلی کا ِبل اُٹھائے ایک دن اپنے گھر کےمین گیٹ سے باہر نکلے تو سامنے کوڑے والا کھڑا تھا۔بھاگم بھاگ اوپر آئے۔ کوڑا لیجا کر تھمایا تو ہمارے ہاتھ میں بجلی کا بل دیکھ کر وہ قدرے چونکا۔
”کدھر صاب جی!“
”بل جمع کرانے!" ہم نے تیزی سے پلٹتے ہوئے کہا تو اس کے ہنسی چھوٹ گئی۔
”ابھی بھی بینک کے چکر لگاتے ہو صاب؟!!“
ہم چکرا گئے۔
"کیوں کیا ہوا؟"
"صاب جی ، ہم تو موبیل فون سے ہی کر دیتے ہیں۔آپ کو نئیں پتا؟"
ہم سٹپٹا سا گئے۔خیر، تازہ ترین وقوعہ اِن نا مراد بینرز کا آناً فاناً کہیں سے ظاہرہونا ہے، جنہوں نے آج صبح ہمیں چاروں شانے چت گرا ڈالا۔کہنا یہ ہے کہ اِس ملک میں مارشل لا آئے یا آپ جمہوریت کے شیریں گھونٹ بھریں ، ہماری بلا سے! ہمیں تو اپنی ذاتی عزّت کے کے لالے پڑے ہیں، صاحب! صاف دِکھ رہا ہے، ِاس دنیا میں عزّت سے جینا اب کارِ دشوار ہے۔آپ کیا کہتے ہیں؟

Comments

Click here to post a comment