ہوم << مولانا الیاس گھمن، بلال غوری اور چند تلخ سوالات - ابو محمد

مولانا الیاس گھمن، بلال غوری اور چند تلخ سوالات - ابو محمد

(سینئر صحافی محمد بلال غوری صاحب نے اپنے جریدے آؤٹ لائن کےلیے مولانا الیاس گھمن کا انٹرویو کیا تھا جسے دلیل پر شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا. ابومحمد صاحب نے اس کا تجزیہ کیا ہے اور دلیل کو اشاعت کےلیے بھجوایا ہے جسے ان صفحات پر جگہ دی جا رہی ہے. بلال غوری صاحب یا الیاس گھمن صاحب اس کا جواب دینا چاہیں تو دلیل کے صفحات حاضر ہیں)

بلال غوری صاحب صحافی ہیں ، انہوں نے سوشل میڈیا پر آنے والے حالیہ سب سے بڑے سکینڈل کے حوالہ سے مولانا الیاس گھمن سے ملاقات کی اور ان کا ایک انٹرویو لے کر اپنی وال پر لگایا۔ یہ انٹرویو دلیل نے بھی شائع کیا. اس پر میرے تحفظات و احساسات یہ ہیں.
ilyas-ghumn-interview-600x300
تعارف کراتے وقت غوری صاحب فرماتے ہیں کہ صحافتی دیانتداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس موضوع پر کچھ کہنے سے پہلے فریقین سے رابطہ کیا جاتا اور سچ جاننے کی کوشش کی جاتی۔گو کہ میں غوری صاحب کی صحافت کا مداح ہوں لیکن جب غوری صاحب صحافتی دیانتداری کے تقاضوں کی بات کر ہی رہے ہیں تو میں یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ
کیا غوری صاحب کو لفظ ”فریقین“ کا مطلب بھی معلوم ہے یا نہیں؟
اس مسئلے میں الیاس گھمن صاحب اکیلے فریق تھے؟
اس سارے قضیے میں ملزم کون ہے اور مدعی کون؟
گو کہ گھمن صاحب نے محترمہ سمیعہ کے اس خط کی تصدیق کر دی لیکن کیا غوری صاحب کو انٹرنیٹ پر پائے جانے والے ایک خط اور ایک اسٹوری کو لے کر گھمن صاحب کا یکطرفہ موقف چلانا چاہیے تھا؟
غوری صاحب نے ان اعلی صحافتی اقدار کا پاس رکھنے اور محترمہ سمیعہ کا موقف لینے کے بجائے ان صحافتی اقدار کو بائی پاس کیوں کر دیا؟؟
بہرحال ابتدا میں ہی گھمن صاحب نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ چونکہ یہی تحریر دیگر دارلافتاؤں میں بھی بھیجی گئی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خط اصلی ہے۔ ان کے الفاظ تھے کہ ”میں اس کا انکار اس لیے نہیں کرتا کہ جو استفتا کے لیے تحریر دارالافتاؤں میں بھیجی گئی ہے، وہ یہی تحریر ہے۔ اس سے ظاہر ہے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی ہوگی۔“
بلال غوری صاحب پوچھتے ہیں کہ ”یہ جو آپ کا نکاح ہوا مفتی زین العابدین صاحب کی صاحبزادی کےساتھ ،یہ کب ہوا، کن حالات میں ہوا، اور پھر آپ کی علیحدگی کب ہوئی؟“
غوری صاحب کے اس ابتدائی سوال سے ہی میں چونک گیا۔ صحافت کے جراثیم رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ صحافی آدھا جواب تو اپنے سوال میں ہی لے لیا کرتا ہے۔ اس کا سوال ایسا ہوتا ہے جو سامنے والے کی دکھتی رگ پکڑتا ہے، نہ کہ اسے راہ فرار دکھائے۔ دوسرے لفظوں میں صحافی خود آدھا وکیل ہوتا ہے، اس کا سوال ایسا نہیں ہوتا جو کہ سامنے والے کو اپنے کیس کی گراؤنڈ بنانے کا موقع دے۔ ان کے سوال کا یہ حصہ کہ ”آپ کا نکاح کن حالات میں ہوا“ فطری نہیں، نکاح نکاح ہی ہوتا ہے، یہ کوئی دوران جنگ ہوا ہوا نکاح نہیں ہے۔ انہوں نے یہ کس وجہ سے پوچھا کہ ”کن حالات میں نکاح ہوا؟“ کیا اس وجہ سے کہ گھمن صاحب بتائیں کہ یہ تو بیوہ تھی، اور میں تو کنوارہ تھا، اور میں نے تو رحم دلی سے، سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے ترس کھا کر اس سے شادی کی؟
معذرت کے ساتھ ایسا لگ رہا ہے کہ یا تو یہ گھمن صاحب کے الفاظ ہیں جو کہ آپ کی زبان سے ادا ہوئے ہیں، یا آپ ان کی عقیدت کے پریشر کی وجہ سے سوال کا حق نہ ادا کر پائے۔ آپ کا اگلا جملہ کہ علیحدگی ”کب“ ہوئی، یہ بھی اسی نوعیت کا سوال ہے کہ گھمن صاحب کو گراؤنڈ بنانے کا موقع مل جائے کہ ہم تو پہلے الگ ہو چُکے تھے اور بعد میں یہ مسائل پیدا ہوئے۔ یہاں سوال یوں بنتا تھا کہ ”آپ کا نکاح کب ہوا اور علیحدگی کب اور کیسے ہوئی۔“
یہاں الیاس گھمن صاحب نے بتایا کہ ان کا نکاح 5 اپریل 2012ء کوہوا، اور ساتھ ساری کہانی کہ وہ بیوہ تھیں اور اتنی بڑی تھیں اور یہ وہ۔ اگلے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہمارا اختلاف میری چوتھی شادی سے شروع ہوا جو کہ 6 جنوری 2015ء کو ہوئی، اور اس کے بعد میں ان سے کبھی نہیں ملا اور اپریل 2015ء میں طلاق ہوگئی۔
اگلا سوال غوری صاحب نے پوچھا کہ ”کرادر کشی“ خاتون کی طرف سے ہو رہی ہے یا لوگ اپنی طرف سے کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ غوری صاحب محترمہ سمیعہ کا موقف سُنے بنا ہی اسے ”کردار کُشی“ قرار دے رہے ہیں۔
بہرحال اس کے جواب میں گھمن صاحب نے فرمایا کہ ”جہاں تک سوشل میڈیا کی بات ہے تو میرا پورا یقین ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ چیزیں انہوں نے نہیں دی ہیں، ریحان کی فرضی داستان بنائی گئی ہے۔“ اور اس بات کی دلیل انہوں نے یہ بنائی کہ مفتی ریحان نے جو سوالات اٹھائے ہیں، ان کا تعلق ہماری گھریلو زندگی سے نہیں۔
یہاں گھمن صاحب نے ایک تیر سے دو شکار کیے، ایک تو یہ کہ سوشل میڈیا پر یہ تفصیلات اس خاتون نے نہیں دیں، اور دوسرا یہ کہ مفتی ریحان کا ذکر کرنے کے باوجود اپنے آپ کو مفتی ریحان کے اٹھائے گئے تمام سوالوں سے یوں بچا لیا کہ اس کا تعلق ہماری گھریلو زندگی سے نہیں۔ قبلہ اگر گھریلو زندگی سے تعلق نہیں تو کیا شوہر کے گھر سے باہر کی کسی مصروفیت کا علم اس کی بیوی کو نہیں ہو سکتا؟ اور دوسرا یہ کہ، اگر سوالات کا تعلق گھریلو زندگی سے نہ ہو تو کیا آپ اس کا جواب دینے سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں؟ بلال غوری صاحب نے یہ ساری تفصیلات سوشل میڈیا پر ہی پڑھی تھیں، مفتی ریحان کی تحریر بھی پڑھی تھی، لیکن یہاں پر انہوں نے یا تو گھمن صاحب کی یہ چالاکی سمجھی نہیں، یا دانستہ خاموش رہے۔
اس کے بعد گھمن صاحب نے بلال غوری کے سوال پر اپنے چاروں نکاحوں کی تفصیل بتائی۔ پھر بلال غوری صاحب نے پوچھا کہ ان الزامات کے متعلق آپ کا کیا مؤقف ہے۔
الیاس گھمن صاحب اپنے جواب میں فرماتے ہیں کہ
”یہ جو خط میرے حوالہ سے شائع کیا گیا ہے، اس میں بنیادی بات جو قابل غور ہے، یہ الزام لگایا گیا ہے کہ 5 اپریل 2012ء کو ہمارا نکاح ہوتا ہے اور 5 مئی 2012ء کو وہ خاتون اپنی دو بچیوں کے ساتھ سرگودھا آئی ہیں، اور اس میں یہ لکھا گیا ہے کہ مولانا صاحب کی دوسری اہلیہ باہر کھڑی ہوکر نگرانی کر رہی ہیں اور مولانا صاحب بیوی کے بجائے اپنی بچیوں کے پاس گئے ہیں اور اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ اگر اس خاتون کی بات تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خاتون نے میری دوسری اہلیہ کو اس پر گواہ بنایا ہے ۔اب حق یہ تھا کہ اس اہلیہ سے رابطہ بذریعہ خاتون کیا جاتا کہ بھئی تم اس واقعہ کی گواہ ہو۔ اور یہ گواہ میں نے نہیں بنائی ، یہ گواہ خود اس خاتون نے بنائی ہے کہ وہ کھڑی ہے۔“
اب کوئی عقل کا اندھا بھی جس نے وہ خط پڑھا ہو، یہاں گھمن صاحب کی قلابازی کو سمجھ سکتا ہے۔ محترمہ سمیعہ کا کہنا تھا کہ گھمن صاحب کی دوسری اہلیہ سعدیہ شریک مجرم ہیں اور دوران واردات ان کی پہرے داری کی خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ اور گھمن صاحب جو کہ ایک مناظر بھی ہیں اور ان نکات کو بہت خوبی سمجھتے ہیں، یہاں اسی شریک مجرم کو گواہ قرار دے رہے ہیں تاکہ کوئی جا کر اس سے گواہی لے اور وہ گھمن صاحب کے حق میں گواہی دے کر انہیں کلیئر کر دے۔ صرف یہ اک اکیلا نقطہ بھی دال میں کچھ کالا بلکہ بہت کچھ کالا ہونے کی نشان دہی کر رہا ہے۔
گھمن صاحب مزید فرماتے ہیں کہ
”خدا نخواستہ خدا نخواستہ اگر میں اس بچی سے منہ کالا کرتا اور اس کی رضامندی سے کرتا تو معاملہ اور تھا ،اس میں بات لکھی ہے کہ جب مولانا صاحب آئے ہیں، بچی پر دست اندازی کی ہے تو اس بچی نے تھپڑ مارا ہے، مطلب ہے ناراض ہے، اچھا اگر میں نے تھپڑ مارا ہے تو کمرے میں ایک بچی نہیں ہے، دو بہنیں اکٹھی ہیں۔ دوسری کہاں تھی؟ ظاہر ہے اٹھ گئی ہوں گی نا۔ اچھا جب اس میں یہ وقوعہ ہوگیا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نوجوان بچی سے ایک بندہ دست اندازی کرے، وہ آگے سے تھپڑ بھی مارے، ساتھ دوسری بہن بھی ہو۔ اور وہ صبح اٹھ کر اپنی امی کو یہ بات نہ بتائے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟“
محترمہ سمیعہ اس بات کی وضاحت کر چُکی ہیں کہ یہ بات ان کی بچی نے انہیں بعد میں بتائی، اور وجہ بھی بتائی کہ گھمن صاحب کے پاس اس کی تصاویر تھیں اور گھمن صاحب انہیں ڈرا چکے تھے کہ اگر کسی کو بتایا تو یہ تصاویر عام کردی جائیں گی، جس کی وجہ سے وہ خاموش رہی۔ یہاں گمان اس طرف بھی جا سکتا ہے کہ مبادا انہیں کوئی نشہ آور شے، مثلا نیند کی گولی کسی طریقہ سے دی گئی ہو۔ اس وجہ سے نہ تو محترمہ سمیعہ گھمن صاحب کو پکڑ سکیں اور نہ ہی دوسری بیٹی۔ پہلی بیٹی بھی یقینا اس موقع پر بھرپور مزاحمت کے قابل نہ ہو گی اور اسی لیے آسانی سے زیر اثر آ گئی، اور مستقبل میں مسلسل بلیک میل ہوتی رہی۔ یہاں کتنا مناسب ہوتا کہ اگر گھمن صاحب اپنی ہی شریک جُرم بیوی کو گواہ بنانے کی کوشش کر کے مزید مشکوک بننے کے بجائے یہ فرماتے کہ بھئی سمیعہ تو چوتھی شادی پر خفا ہے لیکن اس کی بیٹی تو میری بھی بیٹی ہی تھی، کوئی بھی خاتون جا کر میری بیٹی سے ہی پوچھ لے۔ مسئلہ ختم۔ اک باپ کو بیٹی سے سوال پوچھنے کے بجائے ملزمہ، شریک مجرم کو ہی زبردستی گواہ قرار دینے کی بھلا کیا ضرورت پڑی ہے؟
گھمن صاحب نے اپنے جُرم کو میاں بیوی کی رسمی لڑائی کا روپ دینے کے لیے محترمہ سمیعہ کا چوتھی شادی پرخفا ہونا اک نکتہ بنایا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ محترمہ سمیعہ خود تیسری بیوی ہیں، ان کے چوتھی پر خفا ہونے کی بھلا کیا تُک بنتی ہے۔ دوسری بات محترمہ سمیعہ اگر خفا تھیں تو گھمن صاحب سے تھیں، اپنی بیٹی سے تو نہ تھیں۔ کوئی بھی ماں اپنی بیٹی پر بھلا ایسا الزام کیونکر لگا سکتی ہے؟ مجھے تو کامل یقین ہے کہ محترمہ سمیعہ اک ماں ہونے کی مجبوری میں اب بھی اپنی بیٹی اور گھمن صاحب کے متعلق کچھ نہ کچھ پردہ ہی رکھ گئی ہوں گی۔ انہوں نے استفتاء کے لیے اتنا ہی بتایا جتنا بتانا حرمت مصاہرت کے سوال کے لیے ضروری تھا۔
آگے بلال غوری صاحب فرماتے ہیں کہ ”میں پوچھنا چارہا تھا کہ طلاق کن وجوہات کی بنا پر ہوئی لیکن ابھی جو مجھے لگ رہا ہے کہ یہ جو چوتھا نکاح آپ نے کیا شاید اس کی وجہ سے کوئی اختلاف ہوا.“
ہمارے خیال میں بلال غوری صاحب کو کہنا چاہیے تھا کہ
”میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ طلاق کن وجوہات کی بنا پر ہوئی لیکن آپ کی باتوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ یہ جو چوتھا نکاح آپ نے کیا، شاید اس کی وجہ سے کوئی اختلاف ہوا.“
اب آپ دیکھیں ان دو جملوں میں کتنا فرق ہے، دوسرا جملہ قطعی غیرجانبدار ہے، اور پہلے جملے سے جانبداری کی بو آ رہی ہے۔ یعنی بلال غوری صاحب خود سننے والوں کو یہ لائن دے رہے ہیں کہ یہ سارا مسئلہ محترمہ سمیعہ نے چوتھے نکاح کی وجہ سے کھڑا کیا۔ کیا یہ صحافت ہے، اس کا فیصلہ آپ کریں؟
گھمن صاحب نے بلال غوری صاحب کے جملے کو کیچ کر لیا، اور جوابا وہی فرمایا جس کا انہیں ایک جہاں دیدہ صحافی کی طرف سے اشارہ ملا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ
”جی میں نے بتایا نا کہ چوتھے نکاح پر ان بن ہوئی، اس نے محسوس کیا، ناراضگی کا اظہار کیا، یہ ہماری دوریوں کی بنیادی وجہ بنی.“
یہاں پر گھمن صاحب کا یہ جملہ خود دال میں کالے کی طرف اشارہ کر رہا ہے،
”یہ ہماری دوریوں کی بنیادی وجہ بنی.“
یعنی اگر اس چوتھی شادی والی بات کو ”بنیادی“ وجہ مان بھی لیا جائے تو کچھ اور وجوہات بھی تھیں، جس کی وجہ سے دوریاں پیدا ہوئیں۔ اور ظاہر ہے اس کے بعد تو بقول گھمن صاحب کے، ان دونوں کی ملاقات ہی نہیں ہوئی تو یقینی بات ہے کہ وہ جو بقیہ کچھ اور وجوہات تھیں وہ اس نکاح سے پہلے ہی کی تھیں۔
غوری صاحب جیسے جہاندیدہ صحافی نے یہاں اس ”بنیادی“ وجہ سے بھی صرف نظر کیا، یا اسے نوٹ ہی نہیں کر پائے۔
اگلی مضبوط ترین دلیل کے طور پر الیاس گھمن صاحب اپنی ہی بیگم کو بھیجے گئے خرچے کی رسید یعنی بینک اسٹیٹمنٹ دکھاتے ہیں جس میں مبلغ ایک لاکھ روپیہ انہیں بھیجا گیا ہوتا ہے، جو کہ عین چوتھی شادی کے دن یعنی 6 جنوری کو ہی بھیجا گیا ہے۔
اک سوال ہے کہ کیا مولانا صاحب اپنی چاروں بیویوں کو ہر ماہ ایک ایک لاکھ روپیہ خرچہ کے طور پر دیا کرتے ہیں؟
الیاس گھمن صاحب مزید ایک طویل خطبہ ارشاد فرماتے ہیں، ان میں سے چند نکات اٹھا کر ان کے متعلق حقائق سامنے رکھ لیتے ہیں۔
پہلا اعتراض گھمن صاحب کا کہنا ہے کہ محترمہ کا دعوی ہے کہ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی گھمن صاحب نے ان کی بیٹی پر نگاہ رکھنی شروع کر دی تھی تو پھر 18 جنوری 2015ء کو محترمہ سمیعہ نے اپنے بڑے بیٹے زین العارفین کےنکاح میں جو شادی کارڈ چھاپا ہے، اس شادی کارڈ پر اہلیہ و الیاس گھمن کیوں لکھا ہوا ہے ،اس میں چشم براہ میں پہلی بیوی سے گھمن صاحب کے بیٹے عبدالرحمان گھمن کا نام کیوں ڈالا ہوا ہے؟
دوسرا کہ محترمہ کا دعوی ہے کہ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی گھمن صاحب نے ان کی بیٹی پر نگاہ رکھنی شروع کر دی تھی تو محترمہ سمیعہ صاحبہ 18 مارچ 2015ء کو ڈرائیونگ لائسنس بنواتی ہیں اور اس میں شوہر کا نام محمد الیاس کیوں ڈالتی ہیں؟
عرض ہے کہ یہ دونوں دلیلیں تو خود گھمن صاحب کے خلاف جاتی ہیں اور ان کا جواب خود گھمن صاحب ہی کی ویڈیو میں سے بہت آسانی سے دیا جا سکتا ہے.
پہلی کا جواب یہ ہے کہ اگر گھمن صاحب 6 جنوری کو چوتھی شادی کرتے ہیں اور بقول ان کے محترمہ سمیعہ اس پر ناراض ہو جاتی ہیں اور اتنی ناراض ہوتی ہیں کہ اس کے بعد کبھی ان کی ملاقات نہیں ہوتی تو پھر بھلا صرف بارہ دن بعد محترمہ 18 جنوری 2015 کو گھمن صاحب کا نام کارڈ پر کیوں ڈالتی ہیں؟
اور
دوسری کا جواب یہ ہے کہ جب گھمن صاحب خود فرما رہے ہیں کہ انہوں نے طلاق اپریل میں دی ہے، تو مارچ اپریل سے پہلے آتا ہے نہ کہ بعد میں۔ اگر مارچ میں وہ لائسنس کی حصولی کے لیے شوہر کے خانے میں ان کا نام لکھ دیتی ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ دوسرا شاید گھمن صاحب نے اوپر سمیعہ صاحبہ کا پورا نام نہیں پڑھا جو کہ سمیعہ الیاس کے بجائے سمیعہ زین العابدین لکھا ہے. لیکن یہ دونوں باتیں حقیقت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں ایک عرصہ سے علیحدگی تھی، گھمن صاحب کبھی کبھی من مرضی سے خرچہ بھجوا دیا کرتے تھے۔ چونکہ قانونی طور پر اگلی شادی کے لیے پچھلی بیوی سے اجازت ضروری ہے۔ وگرنہ پہلے سے موجود بیوی عدالت جا کر یہ کہہ سکتی ہے کہ میں اس کی منکوحہ ہوں، مجھے تو یہ خرچہ دیتا نہیں لیکن اگلی شادی کے لیے اس کے پاس پیسے ہیں۔ تو گھمن صاحب نے شادی رچانے کے لیے اپنے آپ کو قانونی طور پر مضبوط کرنے کے لیے عین اسی دن سے بغیر پوچھے و بتائے ان کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ ٹرانسفر کرا دیے تاکہ پہلے سے ناراض بیوی کی عدالتی چارہ چوئی کی قانونی پیش بندی کی جا سکے۔
یاد رہے کہ گھمن صاحب نے اسی ویڈیو میں طلاق دینے کا دعوی اپریل 2015ء کا کیا ہے اور انہوں نے اس سے پہلے ہر ماہ پیسے ٹرانسفر کرانے کا ثبوت دیا ہے نہ اس کے بعد اپریل تک۔ آخر عین چوتھی شادی ہی کے روز انہیں اپنی ناراض بیوی کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کرانے کی ضرورت کیسے پیش آ گئی؟
کہانی یہاں ہی ختم نہیں ہوتی، قصہ ابھی باقی ہے۔ میری تحقیق کے مطابق گھمن صاحب نے اپنی تیسری بیوی سمیعہ جو کہ اس خط میں مدعی ہیں، انہیں دو طلاقیں دی ہیں، تیسری طلاق نہیں دی۔ جس کی وجہ سے ان دونوں میں علیحدگی تو ہو چُکی ہے لیکن طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں ہو سکتا۔ جب تک یہ سرٹیفکیٹ جاری نہ ہو، نہ تو محترمہ اگلی شادی کر سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس و دیگر قانونی کاغذات سے گھمن صاحب کا نام خارج کرا سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ میرے علم کے مطابق گھمن صاحب انہیں اسی تیسری طلاق کی بنیاد پر بلیک میل کر کے اپنی دی گئی گاڑی کی واپسی کا تقاضا کر رہے ہیں۔
اب آئیے گھمن صاحب کی اگلی بات یعنی شادی کارڈ پر گھمن صاحب کے نام کی جانب۔ محترمہ سمیعہ نے جو شادی کارڈ چھپوائے تھے، اس میں گھمن صاحب کا نام نہیں تھا، لیکن گھمن صاحب نے اپنا پریشر اور رشتہ کا حق جتاتے ہوئے ان سے اپنے دوستوں اور ملنے والوں کے لیے الگ کارڈ چھپوانے کے لیے دباؤ ڈالا، گھمن صاحب کے لیے پینتالیس پچاس کارڈ الگ سے چھپوائے گئے۔ اگر گھمن صاحب اصرار کریں تو ہمارے پاس دونوں کارڈز کی کاپیاں ہیں، ہم پیش کر سکتے ہیں۔ گھمن صاحب نے غوری صاحب کو اور سُننے اور دیکھنے والوں کو یہ دھوکے کیوں دیے، ہم اس پر کمنٹ نہیں کرتے، پڑھنے والے ہم سے زیادہ عقلمند ہیں۔
یہاں دو خطرناک نکات جو کہ مدارس اسلامیہ سے متعلق ہیں، گھمن صاحب کی ویڈیو میں سامنے آتے ہیں
ایک نقطہ دارلعلوم حقانیہ سے متعلق ہے۔ بقول گھمن صاحب کے دارلعلوم حقانیہ کے مفتی مختار اللہ صاحب نے بجائے شرعی فتوی دینے کے گھمن صاحب کو فون کیا اور کہا کہ آ کر اس کو لے جائیں، یہ کیا تماشا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ دارالافتاء کا یہ اصول نہیں ہوا کرتا، اگر ایسا ہوا بھی ہوگا تو مفتی مختار اللہ صاحب کی ذاتی حیثیت میں ہوا ہوگا، اس سے دارلعلوم کی افتاء کی پالیسی کا کوئی تعلق نہیں۔ امید ہے دارالعلوم حقانیہ اس نکتے پر وضاحت سامنے لائے گا۔
دوسرا گھمن صاحب کا وہ جملہ جس میں انہوں نے جامعہ احسن العلوم اور مفتی زر ولی خان صاحب پر شرعی فتوی دینے کا غصہ، انہیں غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ان الفاظ میں نکالا ہے کہ ”سنجیدہ دار الافتاء نے اسے افتاء کے قابل بھی نہیں سمجھا“۔
مزید گھمن صاحب نے مفتی ریحان صاحب کے اٹھائے گئے بہت سے سوالات کا جواب دینے کے بجائے گول مول بات کی ہے، کہ ہمارے مدرسے کے زنانہ سیکشن میں کوئی مرد نہیں جا سکتا وغیرہ وغیرہ، لیکن، مفتی ریحان صاحب نے بڑی تفصیل سے بتایا تھا کہ
مولانا صاحب مدرسے نہیں جاتے بلکہ ان کی بیوی سعدیہ مدرسہ للبنات سے لڑکیوں کو بہانے بہانے سے خدمت کے لیے گھر لے آتی اور پھر انہیں گھمن صاحب کی خدمت پر لگاتی۔ گھمن صاحب نے بڑی سادگی سے بات کو اس طرح گھمایا کہ کوئی مرد بنات کے مدرسے میں جا ہی نہیں سکتا، لیکن ریحان صاحب کی اس بات کا جواب نہ دیا کہ وہ تو مدرسے نہیں جاتے بلکہ مدرسے سے لڑکیاں ان کی خدمت کے لیے لائی جاتی ہیں۔
گھمن صاحب نے جس انداز سے بلال غوری صاحب کو اپنے دام میں قید کیا، اس انداز سے وہ باقی لوگوں کو بےوقوف نہیں بنا سکتے۔ گھمن صاحب کا یہ انداز، نامکمل جوابات، بہت سے سوالات سے پہلو تہی معاملے کو مزید مشکوک سے مشکوک بناتی جائے گی۔
یہاں اس بات کا تذکرہ مفید رہے گا کہ انٹرنیٹ پر ایک آڈیو کلپ موجود ہے جس میں سرگودھا کی عورت آسیہ بی بی زوجہ عابد اپنی بیٹی سے زیادتی کی شکایت مدرس مولانا مقصود حسانی کو کر رہی ہیں۔ اس آڈیو کے ریکارڈ کنندہ بھی مولانا مقصود حسانی ہیں، جن کے متعلق اطلاع ہے کہ آپ نے ان کی پھینٹی لگوا کر مدرسے سے بھگا دیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان سے صابر کمال صاحب، کوہاٹ سے شاہد صاحب و دیگر بھی محترمہ سمیعہ کو شکایت درج کرا چُکے ہیں۔ جن کے رابطہ نمبر اور شکایت کی تفصیلی ریکارڈنگز محترمہ سمیعہ کے پاس موجود ہیں، اور ان لوگوں نے کسی بھی قانونی چارہ جوئی کی صورت میں گواہی دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ محترمہ کے بیٹے جناب زین الصالحین نے بھی غالبا سبوخ سید صاحب کو انٹرویو دینا ہے، انہوں نے بھی اس سے پہلے بھی ایک خط کے ذریعے گھمن صاحب پر لگنے والے الزامات کی تصدیق کی ہے۔
چونکہ مولانا نے اپنی ویڈیو کو پبلک کرا کے خود اس موضوع پر ہر خاص و عام کو بحث کرنے کی دعوت دے ڈالی ہے، اس لیے موجودہ ثبوتوں، گواہان، خطوط اور سوشل میڈیا پر موجود مواد اور مولانا صاحب کی وضاحتوں میں موجود کھلے تضادات پر بحث ہوتی رہے گی۔ فی الوقت مجھے الیاس گھمن صاحب ریت پر کھڑے نظر آ رہے ہیں، ان کی ویڈیو خود اس کا ثبوت ہے جس میں ان جیسا بڑا مناظر کئی جگہ تاریخوں اور دیگر باتوں کو الٹ پلٹ کرتا اور بہت سے بنیادی سوالات سے پہلوتہی کرتا نظر آتا ہے۔ بلال غوری صاحب کو چاہیے کہ اب وہ دوسرے فریق کا مؤقف بھی سنیں اور شائع کریں۔
اس سارے قضیے میں میری دُعائیں مظلوم کے ساتھ ہیں۔ اللہ رب العزت ظالم کو رسوا اور برباد کرے۔ اگر مجھ سے کسی معاملے میں افراط و تفریط ہوئی ہو تو فریقین سے معافی کا خواستگار ہوں۔