ہوم << بوٹا، ریما اور ڈاکٹر ثمینہ - رضوان اسد خان

بوٹا، ریما اور ڈاکٹر ثمینہ - رضوان اسد خان

رضوان اسد خان بوٹے کے ہاں پہلا ”بوٹا“ کھِلنے والا تھا. وہ پریشانی، بےچینی، خوشی اور تجسس کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ اپنے بیڈروم، جو اس وقت لیبر روم بن چکا تھا، کے باہر ٹہل رہا تھا. دائی کافی سیانی تھی پر بوٹے کی میٹرک کی سند اس کے دل میں دائی اور گھر پر ڈلیوری کے خلاف قسم قسم کے وسوسے پیدا کر رہی تھی. بوٹا خاندانی مالی تھا. باپ کے شوق اور اپنی دلچسپی کی بدولت دس پڑھ گیا تھا. البتہ باپ کی اچانک موت کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکا اور پھر سے بوٹے کھلانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے پر جت گیا.
اچانک اندر سے اک نئی کلی کے چٹخنے، اک نئی زندگی کے رونے کی آواز آئی تو بوٹے کی جان میں جان آئی. وہ بےچینی سے دروازے پر پڑے پردے کو دیکھ رہا تھا کہ ابھی اس کی ماں کا چہرہ نمودار ہوگا اور وہ اسے خوشخبری سنائے گی کہ بیٹا ہوا یا بیٹی. کافی دیر بعد بھی وہ نہ نکلی تو بوٹے کو تشویش ہوئی. بچے کے رونے کی آواز تو مسلسل آ رہی ہے پر یہ اماں باہر کیوں نہیں آ رہی. صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو بوٹے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پردہ ہٹایا اور کمرے میں جا گھسا،
”کیا ہوا اماں؟ تو باہر کیوں نہیں آتی؟ بتاتی کیوں نہیں؟ سکینہ ٹھیک ہے؟ بیٹا ہوا یا بیٹی؟“
بوٹے نے ایک ہی سانس میں سارے سوال داغ دیے.
اماں نے اداس چہرے کے ساتھ بوٹے کو دیکھا اور بغیر کچھ کہے گود میں موجود بچے پر سے کپڑا ہٹا دیا.
بوٹے کی نظر پہلے تو بچے کے گورے چٹے، گول مٹول سے چہرے پر پڑی جو گویا اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا. وہ خوشی سے اسے اٹھانے آگے بڑھا ہی تھا کہ اچانک اس کی نظر ”نیچے“ پڑی. اس کے قدم وہیں جم گئے اور اسے ماں کی اداسی کی وجہ بھی سمجھ آ گئی:
”اف خدایا، یہ لڑکا ہے یا لڑکی...؟؟“
بوٹے نے ایک اچٹتی سی نظر روتی ہوئی سکینہ پر ڈالی اور وہیں سے واپس ایسا دوڑا کہ اپنے چھوٹے سے باغ میں جا کر ہی دم لیا. اور پھر نجانے کتنی ہی دیر وہ اپنے ہاتھ سے اگائے دوسرے بوٹوں کے ساتھ اپنا غم بانٹتا رہا، شکوہ کرتا رہا. جب جذبات کا تلاطم کچھ تھما تو اس کی ڈگری نے اسے پھر سے ابھارا کہ بچے کو ہسپتال لے جا کر چیک کروائے. کیا پتہ اس کا علاج ممکن ہو. امید کی یہ موہوم سی کرن لیے وہ واپس اماں کے پاس آیا تو اس نے سختی سے منع کر دیا کہ وہ بچے پر موئے ڈاکٹروں کو تجربے نہیں کرنے دے گی. اگر اس مسئلے کا علاج ہوتا تو ”گرو شمیم“ اور اس جیسے چھ سات اور خسروں کا گروہ کیوں نہ اپنا علاج کروا لیتے.
اور پھر شام سے پہلے ہی گرو شمیم، ”نام لیا اور شیطان حاضر“ کے مصداق، آ دھمکا اور تالی پیٹ کر اپنے مخصوص انداز میں بوٹے کی اماں سے اپنی گلابی پنجابی میں بولا،
”ہائے نی میں صدقے. دیکھ مائی، سانوں پتہ ہے کہ اس گھر میں ہمارے جیسا ہی اک پھُل کھلیا ہے. تینوں تو پتہ ہے کہ وہ اس باغ میں کھِل تو گیا ہے پر وَدھ، پھُل نئیں سکدا. ماں صدقے، تو اسے ہمیں دے دے تاکہ ہم اس کو اپنے باغیچے میں لے جائیں جتھے او اپنے جیاں وچ پھلے پھولے. ایتھے تے تینوں پتہ ہے، نگوڑ مارے بچیاں، کنجراں نے اس نوں چھیڑ چھیڑ ہی مار دینا جے.“
جی تو نہ چاہتا تھا، مگر گرو کی بات بھی ٹھیک ہی تھی. معاشرہ اس بچے کو کیسے قبول کرتا؟ اس کا نام لڑکوں والا رکھتے یا لڑکیوں والا؟ یہ سوچ کر بوٹے کی ماں نے بیٹے کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دل پر پتھر رکھا اور بچے کو گرو کے حوالے کر دیا. بچے کو گود میں لیتے ہی، گرو ”ہائے نی، میں صدقے“ کہتا یہ جا، وہ جا..
بوٹے کو واپسی پر اس بات کا علم ہوا تو ماں سے خوب لڑا کہ اس نے ایسا کیوں کیا.
”اماں، وہ جیسا بھی تھا، میرا خون تھا. میں جیسے مرضی اسے پالتا، کسی کو کیا تکلیف. تو مجھے گرو کا پتہ بتا، میں اسے واپس لے کر آؤں گا.“
مگر سادہ لوح ماں کو کیا پتہ ہونا تھا اس گینگ کا طریقہ واردات اور اتہ پتہ.. آخر کو صبر شکر کرتے ہی بنی.
اگلے ہی سال سکینہ پھر سے ”خوشخبری“ کی ”امید“ سے تھی. اس بار بوٹے نے کسی کی ایک نہ سنی اور کیس کروانے سکینہ کو ہسپتال لے گیا. اس بار وہ اصلی لیبر روم کے باہر ٹہل رہا تھا، اپنے جیسے تین چار مزید ”بوٹوں“ کے ساتھ. اچانک دروازے سے ایک خرانٹ سی آیا نمودار ہوئی اور آواز لگائی، ”سکینہ کے ساتھ کون ہے؟“ بوٹا فوراً لپکا تو بولی کہ بچے کو نرسری میں لے گئے ہیں، تھوڑا سا سانس کا مسئلہ تھا. اور بوٹے کو بھی وہیں پہنچنے کو کہا. بوٹے کا رنگ اڑ گیا، ماں کو وہیں چھوڑا کہ سکینہ کی خبر لے اور خود نرسری کی طرف دوڑا.
ادھر پہنچا تو ایک ادھیڑ عمر کا ڈاکٹر نرسری سے نکل رہا تھا. اردگرد دو تین ڈاکٹروں کو مؤدب کھڑا دیکھ کر بوٹا سمجھ گیا کہ یہ ”بڑا ڈاکٹر“ ہے. اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا، ڈاکٹر نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا اور پوچھا کہ کیا وہی محمد بوٹا ہے. اس نے ہاں میں سر ہلایا تو ڈاکٹر اسے اپنے کمرے میں لے گیا اور عزت سے کرسی پر بٹھایا. بوٹا حیران تھا، کہ اس نے سرکاری ہسپتال کی جتنی برائیاں سنی تھیں، یہاں تو سب کچھ اس کے الٹ ہو رہا ہے...
ڈاکٹر نے اسے مخاطب کیا، ”دیکھیں بوٹا صاحب..“
”بوٹا صاحب؟؟“
اس طرح تو کسی نے اسے آج تک نہیں بلایا تھا..! خیر وہ دوبارہ متوجہ ہوا. ڈاکٹر کہہ رہا تھا،
”ہمیں پتہ ہے کہ آپ کا پچھلا بچہ جنس کے لحاظ سے نارمل نہیں تھا. مجھے بہت افسوس ہے، مسٹر بوٹا، کہ آپ کا یہ بچہ بھی ویسا ہی ہے.“
بوٹے پر تو گویا بجلی ہی گر گئی. گرو شمیم کا چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے گھوم گیا. اس نے اس ایک سال میں کہاں کہاں اسے نہیں ڈھونڈا تھا. اور اب پھر..
نہیں، نہیں، یہ نہیں ہو سکتا..
مگر اس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل پایا،
”ڈاکٹر صاحب، پھر سے؟. مگر کیوں؟؟“
ان دو مختصر سوالوں میں ہی دنیا جہان کا کرب تھا.
ڈاکٹر نے بڑی شفقت سے جواب دیا،
”بوٹا صاحب، آپ میٹرک پاس ہیں، آپ کے لیے یہ سمجھنا شاید اتنا مشکل نہ ہو کہ کزن میرج کی وجہ سے کچھ جینیاتی بیماریوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں.“
”بیماری؟ اچھا جی؟ تو کیا یہ کوئی بیماری ہے؟“
”جی مسٹر بوٹا. بالکل، یہ ایک بیماری ہے بلکہ یہ دراصل ایک علامت ہے. تولیدی اعضاء کی نشوونما کو کنٹرول کرنے والے غدود اور ان کے ہارمونز، یعنی کیمیکلز، کی کئی ایک بیماریاں اس طرح کے بچوں کی پیدائش کا سبب بنتی ہیں. یہ عملِ تولید کے دوران کچھ غیر معمولی جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں. یا پھر والدین میں ان بیماریوں کے جینز پہلے سے موجود ہوتے ہیں پر اکیلے، اکیلے. اسی لیے وہ والدین میں تو بیماری پیدا نہیں کرتے، مگر جب اولاد میں اکٹھے ہو جاتے ہیں تو دونوں طرف سے آنے والے بیمار جینز کے ملاپ سے یہ بیماری پیدا ہوتی ہے.“
”تو ڈاکٹر صاحب، کیا اس کا کوئی علاج بھی ہے؟“
”پہلے تو ہم کچھ ٹیسٹ کروا کر یہ کنفرم کریں گے کہ آپ کے بچے میں اس بیماری کی کون سی قسم ہے. لیکن آپ پریشان نہ ہوں، ہمارے پاس اس قسم کی تمام بیماریوں کا کوئی نہ کوئی حل موجود ہے. پرسوں تک ٹیسٹ رپورٹس آ جائیں گی، تب آپ مجھے دوبارہ ملیے گا. پھر ہم تفصیل سے اس مسئلے کو ڈسکس کریں گے.“
بوٹے نے اللہ اللہ کر کے اگلے دو دن گزارے. اس دوران اسے بچے کو دیکھنے کی بھی ہمت نہ پڑی. بس سٹاف اور ڈاکٹروں سے پتہ چلتا کہ ڈرپ اور ٹیکوں سے اب اس کی حالت بہت بہتر ہے.
تیسرے دن وہ پھر اس شفیق ڈاکٹر کے پاس جا پہنچا. اسے پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب کا صرف رویہ ہی نہیں بلکہ نام بھی شفیق ہے، اور وہ انگلینڈ سے پڑھ کر آئے ہیں. اسے چپڑاسی نے بتایا کہ وہ بچوں کے اسی قسم کے امراض کے سپیشلسٹ ہیں، جس سے اسے کافی تسلی ہوئی. ڈاکٹر شفیق نے اسے اندر بلا کر بٹھایا اور سمجھانے لگے،
”دیکھیں مسٹر بوٹا، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نومولود اصل میں لڑکا نہیں بلکہ لڑکی ہے کیونکہ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے لڑکوں والے غدود یعنی ٹیسٹیکلز اس میں نہیں پائے گئے، جبکہ زنانہ غدود یعنی اووریز اس میں موجود ہیں. اب ہوا یہ کہ موروثی جینیاتی بیماری کی وجہ سے گردے کے اوپر واقع مخصوص غدود ’ایڈرینل گلینڈز‘ میں ایک کیمیکل، جسے ہم ’انزائم‘ کہتے ہیں، کی کمی واقع ہو گئی. اس کی وجہ سے جسم میں نمکیات کے لیول کو کنٹرول کرنے والے ہارمونز کی بھی کمی ہوگئی. اور پھر اس سب کے رد عمل کے طور پر انہی غدود میں بننے والے مردانہ ہارمونز کا لیول بہت بڑھ گیا، جو کہ عام حالات میں لڑکیوں میں اتنا کم ہوتا ہے کہ اس کے اثرات نظر نہیں آتے. اب دو بڑے مسئلے پیدا ہوئے. نمکیات کی کمی کی وجہ سے جسم میں پانی کا لیول خطرناک حد تک کم ہو گیا جس کے لیے ڈرپس لگانا پڑیں اور مردانہ ہارمون زیادہ ہونے کا اثر بچی کے تولیدی اعضاء پر پڑا اور انہوں نے مردانہ اعضاء کی شکل اختیار کر لی. لیکن چونکہ یہ تبدیلی مکمل نہ تھی، اس لیے یہ اعضاء دیکھنے میں نہ مکمل طور پر لڑکوں والے لگتے تھے اور نہ لڑکیوں والے. البتہ خوشی کی بات یہ ہے کہ دواؤں کے ذریعے اس بیماری کا علاج ممکن ہے. مگر یہ دوائیں آپ کو ساری عمر استعمال کروانی پڑیں گی. ان کے ساتھ بچی بالکل نارمل بچیوں جیسی زندگی گزارے گی، شادی کے بھی قابل ہوگی اور بچے بھی پیدا کر سکے گی، ان شاءاللہ. بس دوران حمل اسے خصوصی ٹیسٹس اور دیکھ بھال کی ضرورت ہو گی.“
یہ سب سن کے بوٹے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا. اسے اس بات کی خوشی بھی تھی کہ یہ بچہ گرو کے ہاتھوں سے محفوظ رہےگا، مگر ساتھ ہی پچھلے بچے کا پچھتاوا بھی اسے گھلا رہا تھا کہ کاش وہ اسے ہسپتال لے آیا ہوتا. اس نے ڈرتے ڈرتے ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا اس کا پہلا بچہ، جس کا علاج نہ ہو سکا تھا، وہ پانی کی کمی سے مر گیا ہوگا؟
اس پر ڈاکٹر نے کہا کہ ضروری نہیں اس بچے میں بھی اس بیماری کی یہی قسم ہو. بعض کیسز میں نمکیات کنٹرول کرنے والے ہارمونز نارمل رہتے ہیں اور پانی کی کمی نہیں ہوتی.
بوٹے نے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا اور بچی کو لے کر گھر آ گیا اور اس کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت کا عہد کیا. اس نے اس بیماری کے خوف سے دوبارہ اولاد کی کوشش ہی نہ کی، حالانکہ ڈاکٹر نے اسے منع نہیں کیا تھا بلکہ بتایا تھا کہ اس کی تشخیص اور علاج حمل کے دوران بھی ممکن ہے. مگر بوٹا اپنے دل کو راضی نہ کر پایا. ایک اور درمیانی جنس کا بچہ دیکھنے کی اب اس میں ہمت نہ تھی.
........
پچیس سال بعد ایک کار چوک پر رکی تو ایک خسرا تالی پیٹتا، ٹھمکے لگاتا ڈرائیور کی کھڑکی پر آیا اور اپنے مخصوص انداز میں بولا، ”نی ماں صدقے، بی بی سانوں وی اپنے بچیاں دا صدقہ دیندی جا، ریما تیرے واسطے دعا کرے گی.“
ڈاکٹر ثمینہ نے اسے پچاس کا نوٹ تھمایا اور گاڑی آگے بڑھا دی. ساتھ بیٹھا ان کا چار سالہ بیٹا معصومیت سے بولا، ”ماما، ان آنٹی کی شکل تو بالکل آپ جیسی تھی..“
”چپ کر، بدتمیز..“ ڈاکٹر ثمینہ نے مسکرا کر پیار سے بچے کے سر پر چپت لگائی اور ایک گہری سوچ میں کھو گئیں.

Comments

Click here to post a comment